رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور کتنا نیچے کی طرف گرنا ہے، جگہ ہی نہیں رہی۔ قانونی، اخلاقی اور سیاسی گراوٹ آخری زمینی حد کو چھو چکی۔ معلوم تو ‘اہل کرامت‘ کو سب کچھ تھا، اور اگر ‘اہل کرامت‘ ہی ان کی صفوں میں مل جائیں تو قومی اور معاشرتی مفاد کا محافظ کون رہے گا؟ ہماری زندگیاں گزر گئیں حکمران طبقے کی عیاشیوں، بلکہ بدمستیوں اور اچانک خوشحالی کی داستانیں سنتے ہوئے۔ ایسے ہی کہ اچانک گھر کے کنویں سے پانی کے بجائے سونا نکلنا شروع ہو جائے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی خبر کہیں سے دائرۂ اختیار سے نکل کر میڈیا پہ آ بھی گئی تو اس کے بعد ایسا دبیز اور گہرا پردہ ڈال دیا گیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چند سال گزرے، بلوچستان کے ایک اعلیٰ ترین حکومتی عہدیدار کے گھر سے کھرے نوٹوں کے کئی صندوق پکڑے گئے۔ اس کے بعد تردید ہو گئی اور شاید معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ یہ چھوٹی اور عام مثال ہے، مگر پردہ ڈالنے کے داؤ پیچ سب کو معلوم ہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس تو نہیں کہ کون شور مچا رہا ہے، ذرا اس کی جیب بھی گرم کر دو اور پیار محبت سے معاملہ طے کر لو۔ جو ہوا مٹی پاؤ، آگے کی طرف دیکھو۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی اس پر فلسفیانہ تجزیوں کی ضرورت ہے کہ قومیں تباہ کیوں ہوتی ہیں، ترقی کیوں نہیں کرتیں، جمود کا شکار کیوں ہوتی ہیں اور پھر تشدد پسند تحریکیں کیوں چلتی ہیں اور خونیں انقلاب کیوں آتے ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ سب تاریخ ہے، جو ہم نے تہہ خانوں میں بند کر رکھی ہے، سیکھنا اور سبق حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، پڑھنے کی بھی توفیق نہیں۔
یہاں مقصد یہ نہیں کہ ہمارا بگاڑ کب شروع ہوا، لوٹ مار کب زوروں پہ تھی، کس دور کو ہم زیادہ ذمہ دار ٹھہرائیں، بلکہ یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ایسے فرد‘ گروہ‘ خاندان اور جماعتیں ملک پر حاوی ہوتے گئے، جن کی منزل مقصود ملک کو لوٹنا تھی، اپنے اور آنے والی نسلوں کیلئے عوام کی دولت اپنے کھاتوں میں سمیٹنا اور پھر دنیا کے محفوظ ٹھکانوں میں جمع کرا کے، عیش کی بانسری بجانا تھا۔ کون ہیں یہ ہمارے حکمران؟ یہ صرف سیاسی نہیں‘ اور نہ ہی دو بڑے خاندان‘ جن کا نام لینا اب ضروری نہیں رہا، جب دو کی بات کرتے ہیں، تو یہ دو ہر جگہ ہی نظر آتے ہیں، تیسرا ابھی وجود میں نہیں آیا۔ ایک تو ضیاء الحق صاحب کے دور میں پیدا ہوا تھا، پہلے موجود تھا، مگر تجارتی اور صنعتی حیثیت میں۔ سیاسی میدان میں مہرے کے طور پر اتارا گیا تھا، اور پھر کھاتے بھی گئے، لگاتے بھی گئے اور صرف اقتدار ہی نہیں‘ پاکستان بنانے والی مسلم لیگ بھی ان کے حوالے کر دی گئی۔ بہرحال ان کا کمال یہ ہے کہ تابعداری کی بندشوں سے نکل کر اپنا مقام ”لگانے‘‘ کے زور پر بنا لیا‘ مگر نوکر شاہی اور سیاسی گماشتوں کے لیے بھی دھن دولت کی وسعتیں پیدا کرنا ضروری تھا۔ دوسرا خاندان تو پہلے سے موجود تھا، مگر ان کے بانی کا لوٹ کھسوٹ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ان کے بارے میں اور جو کہیں آپ کی بات سن لیں گے، مگر عوام اور ملک کی دولت پہ انہوں نے ہاتھ کبھی نہ ڈالا‘ ان کے جانشینوں کی بات ہم زیادہ نہیں کر سکتے کہ جن سے ان کا مقابلہ تھا اور وہ جو بنا چکے تھے، ان کا خیال تھا کہ صرف وہی طریقے ان کو اقتدار کی سرفرازی عطا کر سکتے ہیں۔
یہ صرف دو خاندان نہیں ، پھر جس طاقتور کر موقع ملا اور لوٹ مار کی لت پڑی، اس نے کمال کر دکھائے۔ نوکر شاہی کے وہ کل پرزے جو خاندانی سیاست کے مفادات کے تحفظ کیلئے کارآمد اور دستیاب تھے انہوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور اس صفائی اور فنکاری سے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، ہزاروں ایسے ہی لوٹ ہوئی دولت کو باہر کے ملکوں میں منتقل کرکے وہاں بس گئے ہیں۔ کہیں مغربی دنیا میں ایسا ہے کہ سول سرونٹ، پارلیمان یا کانگریس کے اراکین دُہری شہریت رکھتے ہوں۔ یہ سہولت صرف ہمارے جیسے ملکوں میں حکمران طبقات نے لے رکھی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم، سابق وفاقی وزیر اور جو اب بھی کچھ موجود ہیں، ”اقامے‘‘ لیے پھرتے ہیں۔ کیوں؟ تاکہ وہاں بھاگنے میں دیر نہ لگے، جہاں اصلی یا جعلی کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ پاناما پیپرز نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ جانتے تو ہم ہیں کہ کون کالا دھن بنا کر باہر کے بینکوں اور چھوٹے جزائر پر عجیب و غریب ناموں کی کمپنیاں بنا کر اسے سفید کرنے کی تگ و دو میں ہے‘ مگر اس سے پہلے شک و شبہ کے بادلوں میں سارا منظر صاف نظر نہیں آ رہا تھا، اور یہ بھی کہ کون کہاں سے اور کہاں پر لوٹا ہوا پیسہ رکھ کر آرام و سکون سے کہیں جمہوریت کے سہارے‘ اور کہیں خاندانی بادشاہت کے زور پر حکومت کر رہا ہے۔ کیا کہنے کو رہ گیا تھا، جب ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کا نام بھی نکل آیا، ان کے صاحبزادوں کا بھی، ان کا دفاع کرنے والوں کا حال تو بس نہ پوچھیے، منہ سے جھاگ نکلتی، مگر کبھی بات بن نہ پڑی۔ یہ بھی کوئی دفاع ہے کہ سب ”حق حلال‘‘ کا پیسہ ہے، اور یہ کہ کوئی کرپشن کے ابھی تک ”ثبوت‘‘ سامنے نہیں آئے۔ اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ معاشی لحاظ سے کمزور ملک کے وکیلوں کے پاس کمپنیوں اور دھن دولت کے ریکارڈ چھپائے ہوئے ہیں۔ باہر کی دنیا کو تو آپ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور خود اپنی دولت دور دراز کے ملکوں میں چھپائے ہوئے ہیں۔
بھلا ہو ان سینکڑوں کھوجی صحافیوں کا کہ ایک کنسورشیم بنا کر لاکھوں دستاویزات محنت سے اکٹھی کی ہیں اور سات سو پاکستانیوں کے نام بھی ان میں شامل ہیں۔ شرمناک بات یہ ہے کہ تین چار وفاقی وزرا اور مشیر ہیں، عمران خان صاحب کی کابینہ کے معزز اراکین۔ معلوم ایسے ہی ہوتا ہے، جو تبدیل ہونا تھا وہ تو ابھی کوسوں دور ہے، مگر خان صاحب اقتدار کی دیوی کے ایسے پرستار ہوئے ہیں کہ خود تبدیل ہو گئے۔ اس درویش کا خیال تھا کہ جن کے نام ہیں ان کو معطل کر دیا جائے۔ تحقیق تو ہوتی رہے گی، مگر اس کا کیا جواز ہے کہ جہاں سب چوری کا مال جمع کراتے ہیں، ہمارے وزیر‘ مشیر، سیاسی گھرانے، نوکر شاہی اور وہ بھی جن کا نام سنتے ہوئے گھبراتے ہیں‘ کے قریبی رشتے دار سمندر پار کمپنیوں کے مالک ہوں‘ جن کا خالصتاً مقصد دولت کو چھپانا ہو۔ یہ صرف ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں قانون کمزور ہوتا ہے، انصاف کسی کو نہیں ملتا، ادارے بگاڑ دئیے جاتے ہیں۔ یہ سات سو افراد اور خاندان عام لوگ نہیں حکمران طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پاس اقتدار، عہدے، اور طاقت رہی ہے یا اب بھی ہے۔ اگر کسی کا دامن صاف ہے تو حکومت کی انکوائریوں سے پہلے ہمیں بتا دیں، پیسہ کیسے اور کہاں سے بنایا اور آخر ان کمپنیوں کو خود بنا کر ان میں کیوں چھپایا۔
حرص اور لالچ کی حدیں نہیں ہوتیں نہ لوٹ کھسوٹ کی اور نہ ہی اخلاقی گراوٹ کی۔ اگر وہی‘ جن کی ذمہ داری قومی مفاد کا دفاع ہے، چوروں اور لٹیروں کا گروہ بنا کر قومی دولت پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیں ۔ سوچتا ہوں اور کتنا گرنا ہے، کیسے لوگ معتبر اور عزت دار ٹھہرے ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ