اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے ناراض اراکین نئی سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں؟||عامر حسینی

کیا فیصل صالح حیات پی پی پی میں ٹکے رہیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلاول بھٹو زرداری کے بعد مسلم لیگ نواز نے کیا ملتان میں پارلیمانی سیاست کی طاقت کا مظاہرہ کیا

پی پی پی کے ناراض کارکنوں کی یوسف رضا گیلانی پہ تنقید بڑھ گئی، کیا فیصل صالح حیات گیلانی کو روکاوٹ سمجھ رہے ہیں؟

بلاول بھٹو زرداری ایک ہفتے کے دورے پر جنوبی پنجاب کے کچھ شہروں میں ورکرز کنونش کرنے کے
بعد اسلام آباد چلے گئے۔ کہا جارہا ہے وہ نومبر میں پھر واپس ہوں گے اور جن اضلاع میں وہ نہیں
جاسکے وہاں جائیں گے۔
ان کے دورے سے وابستہ جن توقعات کا اظہار گیلانی ہاؤس سے کیا جارہا تھا ان توقعات کو اب نہ صرف
سیاسی تجزیہ نگار خوش فہمی قرار دے رہے ہیں بلکہ خود پی پی پی کے اندر سے اس دورے کو ناکام
دورہ قرار دیا جارہا ہے۔

ملتان میں بلاول بھٹو زرداری کے استقبال اور کارکنوں سے ملاقات میں کارکنوں کی حاضری مایوس کن تھی۔
استقبال میں ہزار کی تعداد بھی نظر نہیں آئی ۔ پی پی پی کے اندرونی زرایع کا کہنا ہے کہ اس کی ذمہ داری
پی پی پی کے سینئر وائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی اور ان کی منتخب کردہ پی پی پی جنوبی پنجاب
کی تنظیم پہ عائد ہوتی ہے جس کا پی پی پی ملتان کے کارکنوں سے رابطہ بالکل کٹا ہوا ہے۔
اندرون شہر ملتان جہاں پی پی پی سے وابستہ سیکڑوں خاندان ہیں جن میں کئی نامی گرامی جیالے ہیں وہ
بلاول بھٹو کے ملتان میں ہونے والے پروگراموں میں کہیں نظر نہیں آئے۔ نہ ہی جنوبی پنجاب کی پی پی پی
کی قیادت نے بلاول بھٹو زرداری کو اندرون شہر ملتان کا دورہ کرایا۔

بلاول بھٹو کا قابل ذکر سیاسی شو ڈیرہ غازی خان، لیہ، کروڑ لعل عیسن اور میلسی میں ہوا جہاں پر کھوسہ
برادران، بہادر خان سہیڑ، چودھری اشفاق (مرحوم) ، اشو لعل (صدر پی پی پی کلچرل ونگ جنوبی پنجاب)
اور ٹوچی خان ان کے کامیاب سیاسی شو کی وجہ بنے۔
رحیم یار خان میں جمال دین والی میں چند ہزار کا اجتماع تھا جو پی پی پی جنوبی پنجاب مخدوم احمد محمود
کا آبائی حلقہ ہے۔ رحیم یار خان ضلع سے مخدوم احمد محمود کسی ہیوی ویٹ امیدوار کی پی پی پی میں
شمولیت نہ کراسکے۔ بلکہ وہاں پر کبیروالہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کو مسلم لیگ نواز کے
ٹکٹ پہ دو مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے رکن کے طو پہ شامل کرایا گیا جو کبھی کونسلر
کا الیکشن بھی نہیں جیت سکا تھا۔
اسد عباس حیدرکو دوسری بار پارٹی میں بلاول کے سامنے پارٹی میں شامل کرایا گیا۔

پی پی پی سے دیرینہ طور پر وابستہ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں پی پی پی
کی اکثر تنظیمیں غیر فعال ہیں۔ تنظیمی عہدے داروں کی اکثریت کا کارکنوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اکثر
کارکن یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ ایسے میں پی پی پی کا
جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں احیاء کا امکان نظر نہیں آرہا۔

جھنگ سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار سیاست دان فیصل صالح حیات کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کے
پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے اختلافات
شدت اختیار کرگئے ہیں اور وہ پنجاب میں مرکزی قیادت کی طرف سے انھیں اہم ذمہ داریاں نہ سونپنے کا
ذمہ دار راجا پرویز اشرف اور سید یوسف رضا گیلانی کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کی ناراضی کو دور کرنے آصف
علی زرداری ان کی لاہور رہائش گاہ پہ بھی گئے تھے لیکن کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔

کیا فیصل صالح حیات پی پی پی میں ٹکے رہیں گے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔

بلاول بھٹو زرداری کے دورہ جنوبی پنجاب کے فوری بعد پاکستان مسلم لیگ نواز نے ملتان ڈویژن کی تنظیم
کا اجلاس ملتان میں منعقد کیا جس کی صدارت ویڈیو لنک پہ پارٹی کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف
نے کی۔ جبکہ حمزہ شہباز شریف،رانا ثناء اللہ سمیت مسلم لیگ پنجاب کی قیادت بھی موجود تھی۔
اجلاس میں ملتان، خانیوال، لودھراں اور وہاڑی کی ضلع، تحصیل، شہر، حلقہ جات قومی اسمبلی و
صوبائی اسمبلی کے عہدے داران، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی شریک ہوئے۔

نواز لیگ کے پاس ملتان ڈویژن میں خانیوال سے دو، لودھراں سے ایک، وہاڑی سے ایک قومی اسمبلی کی
نشستیں ہیں اور چاروں اراکین قومی اسمبلی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جبکہ خانیوال سے صوبائی اسمبلی
کے دو اراکین اسے چھوڑ چکے ایک ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ملتان ضلع سے دو، لودھراں سے دو اور وہاڑی سے
دو اراکین صوبائی اسمبلی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ملتان ڈویژن میں نواز لیگ کے پاس ہر ایک قومی و صوبائی حلقے میں مقابلہ کرنے والے دو سے تین پوٹینشل
امیدوار موجود ہیں۔ پی پی پی کے دور میں سابق جج رہنے والے اور پی پی پی کی فیڈرل کونسل کے رکن کا
کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ نواز قومی و صوبائی اسمبلی کی پارلیمانی سیاست میں کم از کم
طاقتور سیاسی گھوڑوں کی کمی کا شکار نہیں ہے۔ اس کی تنظیمی بھی بدستور موجود ہے۔
عام تاثر کے برعکس نواز لیگ کو صوبائی اسمبلی میں پانچ سے سات امیدواروں اور قومی اسمبلی میں
ایک امیدوار سے محروم ہونا پڑا ہے جو اسٹبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی بھرپور مخالفت کے سامنے
کوئی بڑا نقصان نہیں ہے۔

پی ٹی آئی جنوبی پنجاب میں اس وقت انتشار کا شکار ہے۔ ضلع وہاڑی سے پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر
نور محمد خان بھابھہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ انھوں نے حال ہی میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں
یہ انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے ناراض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ایک نئی جماعت کی داغ بیل ڈالنے
جارہے ہیں اور اس کے پیچھے جہانگیر ترین کا دماغ کام کررہا ہے۔
اس پارٹی میں زیادہ تر جنوبی پنجاب سے لوگ شامل ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر جنوبی پنجاب سے
ہیوی ویٹ گھوڑوں کی پی پی پی میں شمولیت کا امکان گھٹ کر رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: