سلطانوں اور امیروں کی صحبت مت اختیار کرو۔ یہ با اختیار لوگ بالاخر عفریت بن جاتے ہیں۔ جو لوگ ان سے بات کرتے ہیں،ان سے روستی رکھتے ہیں یا ان کا مال و دولت قبول کرتے ہیں،وہ سبھی عفریت کے خواہشوں کے موجب ان کی طرح بات کرنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ سب عفریت کے مبلغ بن جاتے ہیں۔ سوال اٹھانے کی طاقت کھو دیتے ہیں۔
ابن بطوطہ ایک کتاب کے مسودے کی تلاش میں قونیہ میں صوفیاء کی خانقاہ جسے فتوۃ کیا جاتا ہے میں پہنچتا ہے۔ جہاں سے اسے شہر کے ایک نامور جلد ساز اور کاتب کے کارخانے کا پتا چلتا ہے جو شہر کے مضافات میں واقع ہوتا ہے۔ یہاں آکر اسے مزید ان کہانیوں کا سراغ ملتا ہے جو رومی کے تصور عشق میں سرایت کیے ہوتی ہیں۔
کارخانے کا نام "ادبستان” ہوتا ہے۔ اور اس کے نگران کا نام مستعصمی ہوتا ہے۔ مستعصمی اس سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اسے اس کی مطلوبہ کتاب کا مسودہ دے گا بلکہ ایسی کئی اور کہانیاں بھی سنائے گا جو اسے اور قصوں کی طرف لے جائیں گی۔
یہ کہانیاں "باغ و بہار” ہوتی ہیں جن کا اردو اور ہندی میں "قصّہ چہار درویش” کے نام سے ترجمہ بھی ہوا ہے۔ اور ان کا براہ راست تعلق رومی کے شمس تبریز کے ساتھ عشق کی کہانی سے بنتا ہے۔
اس ناول میں ہمیں رومی کا اپنی بیوی کرا خاتون سے عشق اپنے خاتمے کی طرف بڑھتا دکھایا جاتا ہے جس کی نشاندہی رومی اس وقت کرتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ "تبریز کا شیر” شہر آنے والا ہے۔” ایک مبصر کے بقول یہ محبت اور جذبات کے پیچیدہ اور مصائـ سے بھرے بیانیوں کی طرف ایک اشارہ ہےجن کو ہم "صنفی سیاست اور عامل کی طرف غیر مساوی رسائی کی جدید حسیت کے مطابق ہٹا نہیں سکتے ۔ کوئی بھی چاہے وہ مصنف خود ہو، مترجم ہو ، داستان گو ہو یا راوی ہو ان ڈھانچوں/سٹرکچرز پر سوال نہیں اٹھاتا جو مولانا کو اتنی آسانی سے کرا خاتون سے اپنے آپ کو الگ کرلینے کی اجازت دیتے ہیں۔
ویسے اس ناول میں رومی شمس کی طرف سے اچانک سے عطاء بیگ نامی نوخیز لڑکے کو چھوڑ دینے پر حیران ہوتے دکھائے جاتے ہیں اور انھیں خیال آتا ہے شاید اس عمل سے شمس نے اپنا بدصورت چہرہ دکھایا جس کی طرف انہوں نے اشارہ بھی کیا تھا۔
رومی کہتے ہیں،”عشقیہ شاعری ان کو مزید جوش دلاتی ہے جب وہ اور زیادہ صقیل ہوتی ہے” قصّ کا راوی اپنے اسفار کے قصوں میں سے ایک قصّہ سناتا ہے جب وہ 28 سالہ ایک کوچوان سے ملتا ہے اور اس کا نام پوچدتا ہے۔ بطوطہ اس کا نام سن کر اسے بتاتا ہے کہ یہ یہ اللہ کے ننانوے ناموں میں سے ایک ہے تو وہ نوجوان کوچوان اس سے اپنی بے خبری ظاہر کرتا ہے۔ ابن بطوطہ اسے نماز میں دھیمی آواز سے اس کی تلاوت کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
” زندگی میں میانہ روی ہی قابل تقلید ہوا کرتی ہے،مجیب’، وہ اسے بتاتا ہے۔ وہ غیریقینی سے میری طرف دیکھتا ہے۔ وہ قونیہ میں پیدا ہواا اور مولانا نے بھی یہیں جنم لیا تھا۔ مجیب کو تاریخ کا بوجھ اٹھانا ہی پڑے گا کیونکہ اس کی جائے پیدائش نے اسے یہ ذمہ داری دی تھی۔ہسپانیہ میں سڑک پہ بیٹھے ایک بے گھر شخص نے ایک بار مجھے کہا تھا،تاریخ کوئی واقعہ یا کہانی نہیں ہوا کرتی ، تاریخ ایک ذمہ داری کا نام ہے جسے آپ انسانی وجود کے دوران برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔”
رنگا رنگ قسم کے بھگت ہی اسے سمجھ پاتے ہیں۔
سنکر بیل نے فکشن میں بیانیے کی آزادی اور کسی ایسی بات کو جسے تاريخ نے محض اشاروں میں بیان کیا ہو اسے کھول کر زیب داستان کے طور پر بیان کرنے کی آزادی کو خوب استعمال کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ رومی کے گرد تقدیس کے ہالے کو اخلاقیات کے ایک مخصوص پیراڈائم میں رکھ کر دیکھنے والوں کو یہ آزادی سرے سے پسند نہ آئے اور وہ اسے بے ادبی و گستاخی اور تہمت پہ محمول کرلیں۔
حسن پرستی اور عشق کو دو مخالف جنسوں کے درمیان مساوات بناکر دیکھنے والوں کو سنکر بیل پہ غصّہ آئے کہ وہ اس دو جنسوں پہ مبنی مساوات کو مسترد کرکے مثلث بناتا ہے جس میں شمس اور رومی کی جنس تذکیری ہے اور اور اس میں عطا بیگ بھی شامل ہوجاتا ہے۔
ہمیں سنکر بیل کی ہمت کو داد دینا تو بنتی ہی ہے ساتھ ساتھ مترجم اور پاکستانی ناشر کو بھی بہادر قرار دینا پڑتا ہے۔
انعام ندیم اردو کے استاد ہیں اور حبیب یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے اس سے پہلے سنکر بیل کے بنگالی اور پھر انگریزی میں ترجمہ ہونے والے ناول "دوزخ نامہ” کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے جسے عکس پبلیکیشنز لاہور ہی نے شایع کیا ہے۔ بلاشبہ دونوں ترجمے ہی شاندار ہیں۔
…………..
Text Box: "آئینہ سی زندگی ” بنگالی ادیب ربی سنکربل کے انگریزی ناول
“A Mirrored Life”
کا اردو ترجمہ ہے ۔ ترجمہ پروفیسر انعام ندیم نے کیا
اور اسے عکس پبلیکیشنز لاہور نے شایع کیا ہے
خریداری کے لیے رابطہ وٹس ایپ و کال:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر