مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امید اب بھی سوالیہ نشان ہے||ظہور دھریجہ

تونسہ کے پروفیسر ملک منظور احمد بھٹہ کی کتاب تونسہ کا منظر نامہ جنوری 2013 ء میں شائع ہوئی مگر تونسہ کا منظر نہیں بدلا، کتاب میں تونسہ کا پس منظر ، تونسہ کی قدامت، سیاسی منظر نامہ ، حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ و دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ تونسہ کی ادبی ثقافتی ، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار کے آنے سے تونسہ اور تونسہ کے پہاڑی علاقوں میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تونسہ پیرس بن گیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ تین سال گزر گئے ابھی تک تونسہ کو کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں ملا اور یونیورسٹی کا اعلان بھی ابھی اعلان ہی ہے۔ ایک بات یہ کی جاتی تھی کہ موجودہ دور میں کوئی نیا ضلع نہیں بنے گا اور اگر بنا تو وہ تونسہ ہو گا۔
یہ بات بھی ابھی تک بات ہی ہے۔ پسماندہ علاقے اب بھی پسماندہ ہیں۔ لاہور کو لاہور بنانے میں سابقہ حکمرانوں کے ساتھ موجودہ حکمران بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ لاہور کو راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے بعد لاہور کی ترقی کیلئے سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔لاہور کی ترقی پر اعتراض نہیں مگر ترقی کے یکساں مواقع مہیا کئے جائیں۔ عثمان بزدار کے آنے پر وسیب کے لوگوں نے جس خوشی کا اظہار کیا ابھی تک اُن کی امید بر نہیں آئی۔
تونسہ کے پروفیسر ملک منظور احمد بھٹہ کی کتاب تونسہ کا منظر نامہ جنوری 2013 ء میں شائع ہوئی مگر تونسہ کا منظر نہیں بدلا، کتاب میں تونسہ کا پس منظر ، تونسہ کی قدامت، سیاسی منظر نامہ ، حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ و دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ تونسہ کی ادبی ثقافتی ، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ان کا ایک مضمون ’’ مستقبل کے خدشات ‘‘ کے حوالے سے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ غربت ، بیروزگاری اور پسماندگی علاقے کا اہم مسئلہ ہے ، صحت کی سہولتیں ناپید ہیں ۔ سنگھڑ ، کھڈ بزدار اور شوری کی رودکوہیاں ہر سال تونسہ میں موت بانٹتی ہیں۔ کوئی اچھا تعلیمی ادارہ ‘ میڈیکل و انجینئرنگ کالج تو کیا کسی یونیورسٹی کا کیمپس بھی نہیں ہے ۔
اس علاقے کو سب سے زیادہ نقصان تمنداریوں نے دیا ہوا ہے کہ تمنداری کے علاقے میں انسانوں کو آج بھی انسانی سہولتیں حاصل نہیں ۔ آئین میں تو ووٹ کا حق دیا گیا ہے مگر عملی طور پر تمندار کی منشا کے بغیر ایک ووٹ بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا اور مزید ستم یہ کہ تمنداریوں کے ووٹ دوسرے علاقوں میں بھی درج ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر یہ مسئلے حل نہ ہوئے تو مستقبل میں تونسہ کو خطرات پیش آئیں گے۔
پروفیسر منظور احمد بھٹہ نہ تو ولی ہے اور نہ نجومی مگر اپنی بصیرت، اپنے ادراک کی بنیاد پر اس نے جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ سچ ثابت ہو رہی ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ موہوم خدشات میں سب سے بڑا مسئلہ معاشرتی ہے ، اندر پہاڑ سے مختلف خاندانوں کی جوق در جوق اور عجلت سے آمد نے تونسہ کے ماحول میں تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں اگر اس نقل آبادی کو نہ روکا گیا اور ذمہ داروں نے ذاتی مصلحت کوشی سے کام لیا تو ایک دن تونسہ کا تشخص مسخ ہو جائے گا ، ان خدشات میں سیاست کا دوڑ بھی شامل ہے ۔ معاشی طور پر تونسہ مہنگائی ، بیروزگاری میں بڑے شہروں کو بھی مات دے گیا ہے۔ زبان اور ثقافت کا مسئلہ مستزاد ہے۔
یہاں صرف مستقبل کے خدشات کا اجمالی سا ذکر کروں گا کہ اگر بیرون تونسہ سے یہ نقل مکانی اس شد و مد سے جاری رہی تو تونسہ ہر طرح کے مسائل کی آماجگاہ بن جائے گا ، جن میں صحت و صفائی ،تعلیم ،روزگار ، مہنگائی سرفہرست ہونگے۔ آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ سے تونسہ کا چہرہ داغدار ہو جائے گا اور اس خوب صورتی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جاتی رہے گی ۔ روزگار کے وسائل سمٹتے جائیں گے نوکریاں نہیں ملیں گی ۔
بیروزگاری زیادہ ہو جائے گی تو اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا۔ سرائیکی بولنے والوں کی ثقافت اور مقامی لوگوں کا تشخص معدوم ہو جائے گا اور اس سے تونسہ کے اصلی خاندان ، افراد اپنی شناخت مکمل طور پر کھو دیں گے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وسیب کے مسائل پر توجہ دے کر اپنے وعدے پورے کریں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تین سال سے قبل تونسہ کے سردارعثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے تو وسیب میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ خصوصاً تونسہ کے لوگوں نے جشن منایا تھا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں ایک بزرگ شاعر ایک نظم پڑھ ر ہے ہیں، نظم کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ اب تونسہ کے تمام مسئلے حل ہو جائیں گے کہ اب میرا تونسہ تخت لاہور ہے ‘‘ یہ آس امید اب بھی سوالیہ نشان ہے ۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مستقبل ماضی سے جڑا ہوتا ہے، ان دونوں کے درمیان زمانہ حال پل کا کام دیتا ہے۔ اگر ماضی کے حقائق کی روشنی میں حال کے معروضی جائزہ کے ساتھ مستقبل کا ادارک کر لیا جائے تو بہت سے پیش آنے والے زیر و زبر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
زیر نظر سطور میں پروفیسر منظور بھٹہ نے تونسہ کے ماضی اور حال کی ایک تصویر پیش کی ، جسے اس تناظر میں دیکھا جائے کہ وسیب کیلئے ہر آنے والا دن گزرے دن سے بد تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ خالصتاً نظریاتی بات ہے مگر معاشی طور پر اسے جھٹلایا جا سکتاہے اور کہا جاتا ہے کہ آنے والے دن بنی نوع انسان کے ترقی کے دریچے کھول رہا ہے۔
بالکل ایسے ہے مگر ہر جگہ ایسا نہیں ، سرائیکی وسیب کے ماضی کو دیکھیں تو بہت درخشاں ہے، مقامی لوگ خوشحال تھے آج بد حال ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے کے تمام پسماندہ علاقوں کے مسائل کو حل کیا جائے ۔ بات صرف تونسہ کی نہیں ، جھنگ ، میانوالی ، بہاولنگر ، راجن پور کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار اور پنجاب کے بھی بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں غربت و پسماندگی ہے ۔ مگر سرائیکی وسیب پر معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ سرائیکی وسیب پسماندہ نہیں پس افتادہ نہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جسے اٹھا کر دو رپھینک دیا گیا ہو ، حالانکہ اس علاقے کی زرخیزی پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ۔ صرف توجہ کی ضرورت ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: