نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک شاعر ہوا کرتے ہیں ||عامر حسینی

مجھے اُن کے ایک انتہائی قریبی دوست نے وہ کتاب دی اور کہا کہ میں اپنے کالم میں اس کتاب پر ضرور کچھ لکھوں، سو جو میں نے محسوس کیا لکھ دیا -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شاعر ہوا کرتے ہیں –
اور میں اُن کے درجن بھر شعروں کا بہت عاشق ہوں – اُن کی پہلی کتاب آئی تو میں نے اُس پر ملتان کے ایک روزنامہ کے ادبی صفحہ پہ مضمون لکھا-
کتاب میں شامل کلام واقعی جاندار اور وفور تخلیق سے بھرا ہوا تھا-
مجھے یاد ہے ابرار احمد نے تو "فنون” رسالے میں انھیں اُس وقت کے نوجوان شاعروں میں شاعری کی نمائندہ آوازوں میں سے ایک قرار دیا تھا – بات تھی بھی ایسے ہی
اُن کی شاعری کی دوسری کتاب کئی سالوں بعد آئی جو اوسط درجے کی شاعری میں قدرے بہتر شاعری تھی اور کوئی شک نہیں تھا کہ اُس کتاب میں کئی ایک غزلیں ایسی تھیں کہ جن کو دیکھ کر کہا جاسکتا تھا کہ اُن کے شاعری کے چراغ کی لو عباس تابش جیسے شاعروں کے چراغِ شاعری کی لو سے بلند تھی –
کچھ عرصے بعد ان کی شاعری کی تیسری کتاب آئی جو اُن کی دوسری کتاب سے بھی کمتر درجے کی شاعری پہ مبنی تھی –
مجھے اُن کے ایک انتہائی قریبی دوست نے وہ کتاب دی اور کہا کہ میں اپنے کالم میں اس کتاب پر ضرور کچھ لکھوں، سو جو میں نے محسوس کیا لکھ دیا –
جس روز یہ کالم روزنامہ خبریں ملتان میں چھپا، اُس روز ہی دوپہر کے بعد سے مجھے میرے دوستوں کی فون کالز یکے بعد دیگرے آنے لگیں –
سب نے پہلی بات یہ کی کہ انھیں شاعر کا فون آیا تھا، شاعر کے بھائی کا فون آیا تھا- دوسری بات یہ کہ مجھے اگر شاعری پسند نہیں آئی تو کیا ضروری تھا کہ اس کا اظہار بھی کیا جاتا-
اس کالم میں مجھ سے ایک بہت بڑی گستاخی یہ ہوئی تھی کہ میں اُس میں پہلے تو یہ لکھ بیٹھا کہ اُس شاعر کے علاقے میں میرٹھ سے آیا ایک شاعر ایسا تھا جس کی شاعری کا ہر آنے والا سال پچھلے سال سے بہتر تھا اور اُس کو اپنی غزل یا نظم کو منوانے کے لیے اپنی ترقی پسندانہ سوچ سے دستبرداری کا اعلان بھی نہیں کرنا پڑا تھا-
اُس کالم میں، میں نے اُس شاعر کے ہی آبائی حلقے کے ایک نوجوان شاعر کی غزلوں کے کچھ اشعار نمونے کے طور پر پیش کیے تھے اور بتایا تھا کہ اس نوجوان کے تیور یہی رہے تو آنے والے دور میں لوگ ہمارے اُس شاعر کو بھول جائیں گے جو نوے کی دہائی کے آغاز میں نئی نسل کی شاعری کی نمائندہ اور ممتاز آوازوں میں سے ایک آواز کہلایا تھا-
یہ سب لکھتے ہوئے میرے دل میں اُس شاعر کے لیے عزت بطور بڑے بھائی کے اور اپنے شناسا ہونے کے زرا بھی کم نہیں ہوئی تھی –
وہ اُن اولین لوگوں میں سے تھے جنھوں نے مجھے مسلسل لکھتے رہنے کو کہا تھا- میری حوصلہ افزائی کی تھی –
وہ ملتان کے ایک کتاب گھر سے تقریباً ہر وہ ادبی رسالہ خرید کرتے تھے جو میرے پسندیدہ تھے –
کبھی کبھی ادبی لوگوں کی بیٹھک ہوتی تو وہ اُن نقادوں کا نام لیتے جن کو میں بھی بہت پسند کیا کرتا تھا جن میں وارث علوی کا نام بار بار زیر بحث آتا تھا –
میں سمجھا کرتا تھا جو بندہ بھلا وارث علوی کا مداح ہو، وہ ادبی تنقید کو ذاتی تنقید کب خیال کرے گا؟ سوچا تھا کہ کالم شایع ہوگا تو وہ میری تنقید کو خوش آمدید کہیں گے اور مجھ سے اختلاف کریں گے تو مکالمہ آگے جائے گا-
لیکن یہ کیا؟ مجھے فیس بُک پہ بلاک کرگئے – کہیں آمنا سامنا ہوا، سلام میں پہل کی مگر جواب ندارد اور تو اور ایک ادبی بیٹھک جس کے وہ اور میں بھی پہل کاروں میں تھے کے منتظمین سے صاف کہہ دیا کہ اگر وہ آئے گا تو میں نہیں آؤں گا –
میرے لیے عجیب مصیبت یہ پیدا ہوگئی کہ اُن کی ناراضگی کے سبب اُن کے چھوٹے بھائیوں سے میری دوستی کا دی اینڈ ہوگیا-
مجھے کیا پتا تھا کہ آنے والے دنوں میں میری کتابیں بھی چھپ کر آئیں گی – کچھ طبع زاد ہوں گی تو کچھ تراجم ہوں گے – اور میری معصوم سی خواہش ہوگی کہ میرے بہت قریبی دوست احباب جو اہل علم ہیں وہ اُن کا اُتنی سخت کسوٹی کے ساتھ جائزہ لیں جیسے میں لیتا رہا ہوں اور اپنے کالم یا مضمون میں اُس کا زکر کریں –
میرے شہر کے پڑوس کے یہ میرے ادبی دوست ایسے تھے جن سے میں یہ توقع بھی رکھ رہا تھا کہ جیسے میں اُن کی کتب کی پذیرائی کرتا رہا ہوں اور تقریبات سجاتا رہا ہوں ویسے یہ بھی خود ہی کہے بغیر ایسا اقدام اٹھائیں گے –
میں اپنی تین طبع زاد کتابوں کے حوالے سے اتنا بے چین نہیں تھا جتنا بے چین میں عباس زیدی کے ناول کے لیے تھا –
عباس زیدی ایک نہایت حساس طبعیت کا مالک ادیب ہے – وہ میڈیا اسٹڈیز کا بھی بہت بڑا استاد ہے- اُس کا ناول ہمارے فکشن میں ایک گراں قدر اضافہ ہے جیسا کہ اس ناول کے چھپنے کے بعد آنے والے ریویوز لکھنے والوں نے اعتراف بھی کیا –
پھر اس ناول کا بیک گراؤنڈ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہے – اور اُس دور کی جھلکیاں ہیں جس دور کی نحوست ہم سب دوستوں کے بقول ختم ہونے کو نہیں آرہیں
مجھے توقع تھی کہ وسیب کے اردو اور سرائیکی ادیب جو میرے دوست ہیں مل کر اس ناول کی پذیرائی کا اجتماعی اظہار کریں گے جس سے کم از کم عباس زیدی کو خوشی ملے گی کہ اُس کی محنت کا اعتراف ہوا ہے –
لیکن آج پورا ایک سال گزرنے والا ہے لیکن میرے ملتان، خانیوال، ڈیرہ غازی خان، بہاول پور، رحیم یار خان کے سب قلم کار دوست خاموش ہیں-
میں لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کے اندر عین اُس جگہ موجود ہوں جہاں کبھی چاچا چودھری فوٹوگرافر نے پولیس والوں کے درمیان تھری پیس سوٹ میں ملبوس زوالفقار علی بھٹو کی نواب احمد قصوری کے قتل میں معاونت کے جھوٹے الزام میں سزائے موت سُنائی تھی – میرے ساتھ بنچ پہ ملتان کا ایک دوست بیٹھا ہے- وہ مجھے دیکھ کر کہتا ہے، "اتنے اُداس کیوں ہو؟” میں اُسے اداسی کا سبب بتاتا ہوں – وہ سُن کر کہتا ہے کہ فلاں فلاں کو تمہارے اُسی شاعر نے تو دوستی منقطع کرنے کی دھمکی دے کر کہا تھا کہ خبردار! جو کوئی مضمون لکھا…… تقریب کا تو سوال ہی جنم نہیں لیتا…… میں نے کہا، "اور وہ قائد عوام زوالفقار علی بھٹو، لاڑکانہ کے مدینے کی بیٹی، کنیزِ کربلا اور عوام سے محبت و عشق کے تقاضے کیا ہوئے؟ ناول تو عباس زیدی کا ہے اور اُس کے کرداروں میں تو اٌن کے اپنے عکس ہیں……. مترجم کا نام نہ لیں……. مصنف کے نام سے تقریب کرالیتے……. ” ، دوست کہنے لگا،” بھولے بادشاہ! اُسے اس کتاب میں نہ مصنف نظر آرہا ہے، نہ اُس کا متن، اُسے تو تمہارا نام اور اُس نام کے ساتھ تمہارا اُس کی شاعری پہ لکھا کالم نظر آتا ہے….. "
یہ سُن کر میری اداسی یک دم دور ہوگئی اور میں بے اختیار زور زور سے ہنسنے لگا –
میرے دوست نے پوچھا، اتنا ہنسنے کی وجہ؟
میں نے کہا کچھ نہیں…… بس سوچ رہا ہوں کہ کیا اُس شاعر کی آنے والے دنوں میں کوئی اور کتاب بھی آئے گی؟
کہنے لگا اُس نے اپنے کلیات اپنے خرچے سے چھپوایا ہے…….
میں نے کہا اچھا اور بے اختیار ہنستا چلاگیا……

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author