مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستانی یونیورسٹیوں میں پاکستانی زبانیں||ظہور دھریجہ

اسلامیہ یونیورسٹی کو ریسرچ کے دروازے کھولنے چاہئیں۔ صرف ایک چولستان کو ہی لے لیں چولستان ہی ایک جہان کا نام ہے۔ چولستان میں ہزار ہا سالوں سے لوگ رہ رہے ہیں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں صرف ایک پنجاب یونیورسٹی آئی۔ پنجاب یونیورسٹی 1882ء میں قائم ہوئی اور یہ بھی دیکھئے کہ یہ یونیورسٹی پنجاب کے نام سے تھی مگر یونیورسٹی میں انگریزی، عربی، فارسی اور اردو کے شعبے تو قائم ہو گئے جبکہ پنجابی شعبہ قریباً ایک سو سال بعد وجود میں آیا جبکہ سندھ میں سچل سرمست یونیورسٹی، شاہ عبداللطیف بھٹائی صرف نام کی یونیورسٹیاں نہ تھیں بلکہ وہاں پہلے دن سے سندھی پڑھائی جاتی تھی اور سندھی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ سندھ کے آثار پر تحقیقات بھی شروع سے کرائی جا رہی ہیں۔

یہ بھی دیکھئے کہ بھارتی پنجاب کی یونیورسٹیوں میں صرف پنجابی شعبے نہیں بلکہ پٹیالہ میں پنجابی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔ جس کے تقریباً تمام شعبہ جات کا تعلق پنجابی علم و ادب سے ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تین یونیورسٹیاں گومل ڈی آئی خان، زکریا ملتان اور اسلامیہ بہاولپور کو ملیں۔ بڑی مشکلوں کے بعد وہاں سرائیکی شعبے قائم کرائے گئے۔ رحیم یار خان میں خواجہ فرید یونیورسٹی قائم کی گئی ہے مگر خواجہ فرید کی زبان نہیں پڑھائی جا رہی۔

یہ یونیورسٹی بنیادی طور پر انجینئرنگ یونیورسٹی ہے۔ اب جبکہ آرٹس کے دیگر شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں تو سرائیکی شعبہ بھی قائم ہونا چاہئے۔ اس مسئلے پر احتجاج بھی ہوا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی سرائیکی شروع کرائی جا سکتی ہے مگر داخلوں کی گارنٹی ہونی چاہئے۔ ایک سوال ہے کہ یونیورسٹی میں دیگر شعبہ جات داخلوں کی گارنٹی کے بعد شروع کئے گئے اور یہ بھی ہے کہ اب بھی بعض شعبہ جات ایسے ہیں جہاں سٹوڈنٹس نہیں ہیں مگر سٹاف کو تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔

کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی زبان و ادب کے فروغ کیساتھ ساتھ مقامی آثار اور مقامی جمادات و نباتات پر تحقیق کرتا ہے۔ اسی بناء پر ضروری ہے کہ بلا تاخیر سرائیکی شعبے کے قیام کا اعلان ہونا چاہئے۔ اس سے یونیورسٹی کی نیک نامی اور آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ 30 سال کامیابی سے چل رہا ہے۔ وہاں شعبے کو سہولتیں بھی مہیا کی جا رہی ہیں، اب ہماری درخواست پر اسلامیہ یونیورسٹی نے رحیم یارخان کیمپس میں بھی سرائیکی شعبہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔یہ فطری امر ہے کہ وسیب کی بہتری اور وسیب کی زبان کے فروغ کیلئے جو بھی قدم اٹھائے گا،اس کی تعریف ہوگی۔ وائس چانسلر کے مخالف کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے ہاتھوں کوئی اچھا اور یادگار کام ہو اور یونیورسٹی کے ساتھ وائس چانسلر کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔

سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان و ادب کا مسئلہ بہت حساس ہے، یہ سرائیکی خطہ ہے، وسیب کے لوگ ہزار ہا سالوں سے اس خطے میں رہ رہے ہیں، ان کا اپنا وطن،اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے۔ پاکستان کے لئے ہمارے خطے اور ہمارے بزرگوں کی عظیم خدمات ہیں۔ سرائیکی شعبے کا مطالبہ ہر لحاظ سے جائز ہے اور سرائیکی انڈیا یا اسرائیل کی زبان نہیں ہے، پاکستان کی زبا ن ہے اور پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے۔

رحیم یارخان کے کالجوں میں بھی سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے، جو زبان کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہو، اسے یونیورسٹی کی تعلیم کیلئے لازم شامل کیا جاتا ہے کہ کالج کی تعلیم ہی در اصل یونیورسٹی کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ اس خطے کی اصل زبان ہے اور اس کی جڑیں دھرتی میں پیوسط ہیں۔

یہ کوئی مصنوعی زبان نہیں اور نہ ہی باہر سے آئی ہے۔ جناب والا! تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حقائق کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میں کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی زبان و ادب کے فروغ اور اس کے آثار پر تحقیق ہوتا ہے، علمی اور زمینی حقائق کے مطابق خواجہ فرید یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم کرنا ہے۔ یورپ نے ایجادات کی ہیں تو اُس کی بنیاد وہاں کی یونیورسٹیوں کی مقامی تحقیقات ہیں۔

ہمارے ہاں سب کچھ اُلٹ ہو رہا ہے۔ پاکستانی زبانوں اور پاکستانی ثقافتوں کو اگر فروغ نہ دیا گیا تو سو سال بعد بھی مثبت نتائج برآمد نہ ہو سکیں گے۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا بھی تھا اور سرائیکی وسیب کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز صاحبان سے درخواست کی تھی کہ وسیب کے دریا اور صحرا پر ریسرچ کرائی جائے۔

بہت سے حقائق سامنے آئیں گے۔ فطرت کا ایک اصول ہے کہ جہاں دریا ہوتا ہے وہاں صحرا نہیں ہوتا اور جہاں دریا ختم ہوتا ہے وہاں صحرا وجود میں آجاتا ہے۔ کچھ دریا روٹھ گئے اور کچھ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دے دیئے گئے حالانکہ فطرت عطیہ خداوندی ہے اور یہ ناقابل فروخت اور غیر منقولہ ہے جیسا کہ ہوا، روشنی اور دریا مگر آج ہم اپنے ستلج کی اڑتی ہوئی ریت کو دیکھتے ہیں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی کو ریسرچ کے دروازے کھولنے چاہئیں۔ صرف ایک چولستان کو ہی لے لیں چولستان ہی ایک جہان کا نام ہے۔ چولستان میں ہزار ہا سالوں سے لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں کوئی ہسپتال نہیں لیکن انسانوں اور جانوروں کا علاج مقامی جڑی بوٹیوں سے ہوتا آرہا ہے مگر آج تک ریسرچ کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔ کسی کو پتہ نہیں کہ بکھڑا، گورکھ، پان، بوپھلی، کھار، لانی، گندی بوٹی، راٹ سٹ، لونگ، لائنا، چنڈ، ڈودھک، کرینھ، کوڑ تمہ و دیگر نباتات کیا ہے؟

چولستان میں ایک قطرن ہے جس کی خوشبو کا مقابلہ فرانس کا پرفیوم نہیں کر سکتا۔ ان نباتات سے چولستان میں مرہم بھی بنائے جاتے ہیں اور جملہ بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی جو کہ بنیادی طور پر سائنس کی یونیورسٹی ہے اسے بلا تاخیر سرائیکی شعبہ بھی قائم کرنا چاہئے اور یونیورسٹی کے مختلف اداروں سے چولستان پر تحقیقات کا آغاز کرنا چاہئے۔ چولستان کے مسائل پر ریسرچ ہونی چاہئے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: