اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اقوام متحدہ کی جنوبی پنجاب بارے تشویش!||سارہ شمشاد

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو حکمرانوں نے ہمیشہ نظرانداز کیا، م ارک اینڈلر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خوشحال اور غریب مسلمانوں کی ترقی میں عدم برابری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو حکمرانوں نے ہمیشہ نظرانداز کیا، م ارک اینڈلر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خوشحال اور غریب مسلمانوں کی ترقی میں عدم برابری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لاہور پر سرمایہ کاری سرائیکی مسلمانوں کے لئے مختص رقم سے 6گنا زیادہ ہے۔ لیہ، ڈی جی خان، مظفر گڑھ اور بہاولپور کا شمار جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا جنوبی پنجاب کو حکمرانوں کی جانب سے ہمیشہ نظرانداز کرنے کا شکوہ بالکل بجا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس خطے کو محروم رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی اور اب تو عالمی ادارہ بھی اس ظلم اور زیادتی پر بول پڑے ہیں مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا راوی آج بھی چین ہی چین لکھ رہا ہے اس لئے تو انہیں جنوبی پنجاب کے غریب عوام کی دلدوز چیخیں سنائی نہیں دیتی۔ بات اختیارات کی ہو یا فنڈز کی، اس خطے سے ناروا سلوک کی ایک طویل داستان ہے جس کو رقم کرنے کے لئے شاید قلم کی سیاہی خشک ہوجائے مگر ظلم و زیادتیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جو عرصہ دراز سے اپنی آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔ خطے کے عوام تو اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر کے تھک گئے مگر نقارخانے میں چونکہ توتی کی آواز کون سنتا ہے اسی لئے تو اس خطے کے باسیوں میں احساس محرومی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور اب تو اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب جوکہ ایک ہی صوبے کے دو مختلف علاقے ہیں لیکن دونوں کی ترقی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنوبی پنجاب کے کئی علاقے لیہ، ڈی جی خان، مظفر گڑھ ایسے ہیں جہاں آج بھی عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ وہاں بدترین غربت کے پنجے اس قدر گہرے ہوچکے ہیں کہ غربت کے انمٹ نقوش عوام کی آنکھوں کے ساتھ تو جیسے چپک سے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کے اول تو مواقع بہت ہی کم ہیں اور اگر ہیں تو وہ بھی پورے سورے کہ جنوبی پنجاب میں شاید اِکادُکا ہی تعلیمی ادارے ایسے ہوں جن کا موازنہ اپر پنجاب سے کیا جاسکے۔ حد تک یہ ہے کہ ایچی سن، کینیئرڈ، ایف سی کالج اور لمز جیسا بڑے تعلیمی اداروں میں تو ایک بھی اس خطے میں موجود نہیں۔ عوام کی حیثیت یہاں چونکہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں اسی لئے تو صحت کی سہولیات کی طرف مجال ہے کسی بھی حکومت نے توجہ دینے کی زحمت بھی گوارہ کی ہو۔ پینے کا پانی تو انسان کی صحت کے لئے ضروری ہے مگر چونکہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور غریب لوگوں کو اس کیٹیگری میں ہی نہیں رکھا جاتا اسی لئے تو پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی چیزوں کی فراہمی پر کسی حکمران نے آج تک توجہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی اور ہسپتالوں کی یہاں کیا بات کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو نیلی پیلی گولیوں پر ٹرخادیا جاتا ہے۔ سرکاری ہسپتال تو صرف برائے نام ہی عوام کی خدمت کررہے ہیں۔ وہاں دستیاب سہولیات اول تو ہوتی ہیں نہیں اگر ہیں تو صرف وی آئی پیز کے لئے۔ ویسے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ کلینکس پر دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی لئے تو اب سرکاری ہسپتالوں کی طرح پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی غریب مریضوں کو کئی کئی گھنٹے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
جنوبی پنجاب ایک زرعی خطہ ہے اور یہاں گزشتہ کچھ برسوں سے کپاس اور گندم کی کاشت بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے لیکن حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ سونا اگلنے والی زمین اچانک بنجر کیسے ہوگئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لئے دوسروں کا محتاج بن گیا ہے۔میرے وسیب کا کسان اپنی حالت پر ماتم کناں ہے اور حکومت سے کسی قسم کا کوئی ریلیف دینے کو ہی تیار نہیں بس زرعی اصلاحات اور زرعی پیکج کی تواتر کے ساتھ بات کرکے اس کے زخموں پر نمک ضرور چھڑکا جارہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش چونکہ کھیتی باڑی اور کاشتکاری ہے اور اب تو بڑی تعداد میں کسانوں نے پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث یہ آبائی پیشہ چھوڑ دیا ہے جس سے اس خطے کی غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ میرے خطے کو بڑے لوگ کیا سمجھتے ہیں اس کا اندازہ ایک ریٹائرڈ جنرل کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے ہمیں بھکاری تک بنادیا۔ مجال ہے کہ میرے علاقے کے سیاستدانوں نے اپنی اس توہین پر آواز بھی بلند کرنے کی زحمت گوارہ کی ہو۔ ظاہر ہے کہ ہماری حیثیت اپر پنجاب کے لوگوں کے لئے ایک کمی کمین سی ہے اسی لئے تو انہیں عوام نامی مخلوق سے کوئی لینا دینا ہی نہیں۔
یہ جنوبی پنجاب کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ اب تو اغیار بھی یہ شکوہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ حکومت ان اضلاع پر رقم خرچ کرتی ہے جو پہلے سے ہی ترقی یافتہ ہیں جس کا ثبوت لاہور پر حکومتی سرمایہ کاری کا سرائیکی علاقوں کے لئے مختص رقم سے 6گنا زیادہ ہونا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اقوام متحدہ بھی جنوبی پنجاب کی عوام کے ساتھ زیادتیوں پر بول اٹھا ہے ایسے میں حکومتوں کی جانب سے مسلسل اس خطے کو نظرانداز کرنے کو مجرمانہ غفلت کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ دراصل یہی وہ معاملات ہیں جن کی بنا پر ملک دشمن طاقتیں کیش کرواتی ہیں۔ یہ معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بلوچستان کہ وہ پاکستان کا رقبے سے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہےے لیکن وہاں کے عوام جن مشکلات کا شکار ہیں اس کا نوحہ پھر کسی اور وقت میں لکھوں گی۔ حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب صوبے کی بجائے ملتان اور بہاولپور میں دو علیحدہ سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر اس خطے کے عوام کو مطمئن کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی لیکن آفرین ہے اس خطے کے دانشوروں پر جنہوں نے آخری سانس تک اس خطے کے حقوق کے لئے بلامعاوضہ جنگ لڑنے کا عہد کیا ہوا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت اقوام متحدہ کی جنوبی پنجاب بارے تشویش کا سختی سے نوٹس لے کیونکہ وسیب کے عوام کی اس تکلیف اور محرومی کو ملک دشمن طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے بھی استعمال کرسکتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب خطے کو بڑی طاقتیں ایک نئی اور طویل جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں جُتی ہوئی ہیں۔ پاکستان کو پہلے ہی ان گنت مسائل کا سامنا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جنوبی پنجاب کی عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق دینے میں لمحہ بھر کی تاخیر نہ کرے خاص طور پر اس وقت جب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب صوبے کا بل اسمبلی میں لانے پر حکومت سے تعاون کی پیشکش خود کرچکے ہیں تو ضروری ہے تو حکومت اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائے تاکہ اس خطے کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوسکے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئندہ الیکشن کی آمد آمد ہے اس لئے اگر پی ٹی آئی دوبارہ اس خطے سے جیتنے کی خواہاں ہے تو لازم ہے کہ وہ عوام کو ڈلیور کرے اور خطے کے عوام کا 2018ء کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب صوبے کے وعدے کو فی الفور عملی شکل دے۔ اگر سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب صوبے کا قیام پی پی اور پی ٹی آئی دونوں کے لئے کسی طور بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے اس کی بڑی وجہ پنجاب ہے۔ چونکہ پنجاب، اقتدار کس کے پاس جائے گا، کا فیصلہ کرتا ہے اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نے ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح کی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ابھی خاصا تگڑا ہے ایسے میں اگر جنوبی پنجاب صوبہ بن جاتا ہے تو اپر پنجاب کو سر کرنا بھی پی ٹی آئی اور پی پی کے لئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں رہے گا۔ میں نے یہ بات اس لئے یہاں واضح کی ہے کہ حکومتیں کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتیں اس لئے میں نے اس دھرتی کی بیٹی ہونے کے بطور مکمل حقیقت حکومت پر آشکار کردی ہے کہ اگر وہ اقوام متحدہ کی تشویش اور جنوبی پنجاب کے عوام کے دیرینے مطالبے پر علیحدہ صوبہ الیکشن سے قبل قائم کردیتی ہے تو کم از کم اس خطے میں تو اسے آئندہ حکومت بنانے میں اپنی تمام ناکام پالیسیوں کے باوجود کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اب چونکہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے نے بھی جنوبی پنجاب کی محرومیوں، زیادتیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے تو حکمران وقت پر لازم ہے کہ وہ اس خطے کے رستے ہوئے زخموں پر جنوبی پنجاب صوبہ آئینی اور قانونی شکل میں بناکر پھائے رکھے تاکہ اس خطے کے باسیوں کو ان کا جائز حق مل سکے۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: