نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جی جی سر! پاکستان اوپر جارہا ہے||حیدر جاوید سید

اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ چند پیسے اضافے کی سمری بھیجی لیکن پٹرول اور ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں پانچ روپے کے اضافے کی منظوری دے دی گئی۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت بھی بڑھادی گئی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ چند پیسے اضافے کی سمری بھیجی لیکن پٹرول اور ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں پانچ روپے کے اضافے کی منظوری دے دی گئی۔ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت بھی بڑھادی گئی۔
ڈالر شریف ایک سو بہتر روپے سے تجاوز کرچکا، سونے کی قیمت میں مزید تین سو روپے اضافہ ہوگیا ہے۔ حقانی ایک پشتون قبیلہ ہے جو افغانستان میں رہتا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن مصروف آدمی ہیں اس لئے فون نہیں کرسکے۔ ہم امریکہ کے لئے کرائے کے جنگجو رہے ییں ،
الیکشن کمیشن قابل احترام ادارہ ہے، تنقید افراد کے سیاسی کردار پر کی جسے بری لگتی ہے وہ سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے قانون کے مطابق کردار ادا کرے۔
پھلجڑیاں اور بھی ہیں اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان جب سیاست سے ریٹائر ہوں تو انہیں ہسٹری ٹھوک کمیشن کا سربراہ بنادیا جائے تاکہ وہ ہسٹری کی ٹھوکاٹھاکی کرکے اسے سیدھا کردیں۔ تجویز بری نہیں آخر انہوں نے کرکٹ کا قبلہ سیدھا کرنے کے لئے رمیز راجہ کو پی سی سی بی کا سربراہ لگادیا ہے۔ رمیز راجہ بھی اتنے ہی عظیم اور بڑے کھیلاڑی ہیں جتنے عظیم اور بڑے سیاستدان فیصل واوڈا ہیں۔ راجہ کا کوئی ایک یادگار میچ؟
جانے دیجئے یہاں سب چلتا ہے۔ جیسے وہ لالے عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا گانا چلا تھا ’’اچھے دن آئیں گے‘‘۔ لالہ جی آجکل نجانے کہاں ہوتے ہیں ورنہ ان سے پوچھ لیتے۔ اچھے دن ابھی کتنے فاصلے پر ہیں۔
گزشتہ شب دوستوں کی کی محفل میں تھا جب پٹرول مہنگا ہونے کی اطلاع ملی۔ پریشانی میں پورے دو گلاس پانی پی لیا۔ پھر یاد آیا کہ اپنے پاس تو سائیکل بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مجاہد کہہ رہا تھا ’’بچے کم پیدا کرو اخراجات کم ہوں گے، اخراجات کم ہوئے تو مہنگائی کم ہوجائے گی۔ یا اللہ کیسے کیسے نابغے آپ نے ہمارے مقدر میں لکھ دیئے ہیں ،
ایک دل جلے نے سوشل میڈیا پر لکھا ’’ڈالر جب 184روپے کا ہوجائے تو اسے 2پر تقسیم کرکے 92کے ورلڈ کپ کی فتح کا جشن منالیجئے‘‘۔
پاکستان جس طرح اوپر جارہا ہے اس کی قدر نہ کرنا بھی اچھی بات نہیں پہلے ہم صرف اپنے لئے مانگتے تھے اب تو برادر افغانستان کے لئے بھی مانگنا پڑے گا اسی لئے تو وزیراعظم نے کہا ہے کہ دنیا طالبان کو موقع دے۔
اس موقع سے یاد آیا ہمارے ملتانی مخدوم وزیر خارجہ قبلہ شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے ’’کالعدم ٹی ٹی پی کو معافی دینے پر غور کیا جارہا ہے‘‘۔ معاف کیجئے گا مخدوم صاحب قبلہ، کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے ہم خیالوں کے ہاتھوں میرے سات عزیز قتل ہوئے۔ آپ کا کوئی عزیز قتل نہیں ہوا اس لئے آپ یہ سوچ سکتے ہیں ویسے مقتولین کے ورثا سے پوچھے بغیر حکومت یا ریاست قاتلوں کو کیسے معاف کرسکتے ہیں؟
دو سنجیدہ بلکہ دکھی سطروں پر معاف کیجئے گا ہم پھر سے باتیں واتیں کرتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ فرماتے ہیں اداروں سے ٹکراو کی خواہش نہیں رکھتے۔ کیا شاندار بات کہی ہے۔
بات تو فواد چودھری کی بھی دلچسپ ہے جو بالائی سطور میں نقل کی وہی الیکشن کمیشن بطور ادارہ قابل احترام ہے۔ تنقید افراد کے سیاسی کردار پر کرتے ہیں۔
فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں یہ سہولت رعایا کو بھی حاصل ہوگی کہ اگر وہ کسی محکمے یا ادارے کے بعض متعلقین کے سیاسی کردار پر سوال اٹھائیں تو انہیں غدار، ملک دشمن وغیرہ وغیرہ قرار نہیں دیا جائے گا؟
ہمارے محب مکرم حضرت مولانا فضل الرحمن آجکل پیپلز پارٹی پر بہت برہم رہتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ مرحومہ و مغفورہ پی ڈی ایم نے تو فیصلہ کیا تھا کہ پارلیمان سے استعفے آخری مرحلہ میں دیئے جائیں گے، یعنی لانگ مارچ کےبعد پھر یہ لانگ مارچ سے قبل استعفوں کا شوشہ کس نے چھوڑا اور کس کے کہنے پر؟
حالیہ دنوں میں ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ’’اس ملک میں الیکشن ہمیشہ چوری ہوئے خود ہم بھی چوری شدہ الیکشنوں کے ذریعے برسراقتدار آئے‘‘۔ اس تاریخی اعتراف پر ’’ہلال جرات‘‘ پر ان کا حق فائق ہوا۔
ہمارے وزیر خارجہ نے ایک اور بات بھی کہی ہے وہ یہ کہ فرقہ واریت کو بھارت ہوا دیتا ہے۔
بہت ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ
حضور!
بھارت والے ٹرک کے پیچھے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہم اس میں صدیوں سے خودکفیل ہیں۔ دستیاب مسلم مکاتب فکر کی آدھی پوری کتابوں کو تو رکھیئے ایک طرف، پچھلے دو ماہ کے دوران کی مختلف مولانا حضرات کی چند تقاریر کے کلپس، سکیورٹی اداروں سے منگواکر دیکھ لیں۔ کم از کم ہم تو ان مولانا صاحبان کو بھارت کے پے رول پر نہیں سمجھتے۔
وزیراعظم کہتے ہیں امریکہ سے ایسے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں۔
سرجی ! بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 140ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہے اور ہمارے عرب دوستوں کی 400ارب ڈالر کی۔ دنیا معاشی مفادات کو دیکھتی ہے یہاں ہم نے امریکہ کے نخرے اٹھانے میں چار دہائیوں کے دوران اپنی معیشت کو ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کا چونا لگوایا اس دوران ملنے والی امدادیں کہاں گئیں؟
کچھ کچھ تو فقیر راحموں کو بھی پتہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں جنرل مشرف ان دنوں بستر علالت پر ہیں۔ شوکت عزیز پتہ نہیں کہاں ہے۔ کچھ لوگ وفات پاچکے۔ اب جیبیں بھرنے والوں کا ذکر کیا کرنا۔ کاش کسی دن کوئی ایسا رہبر آئے جو رعایا کو عوام بننے کا موقع دے اور پھر ایک تحقیقاتی کمیشن بنائے جو صرف اس بات کی تحقیقات کرے کہ 2مختلف برانڈز کی افغان پالیسی سے اس ملک کا نقصان کتنا ہوا اور جو امدادیں یا لاجسٹک سپورٹ فنڈز ملے وہ گئے کہاں؟
اچھا یہ ویسے ہوگا نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کا اب عمومی مزاج یہ بن گیاہے کہ جدوجہد کوئی اور کرے پھل وہ کھائیں۔ عین ممکن ہے آپ اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ ایسا ہے تو یہ آپ کا جمہوری حق ہے۔
چلتے چلتے یہ جان لیجئے کہ پنجاب میں (ن) لیگ کے صدر رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا ہے کہ پنجاب میں دو دو کروڑ روپے لے کر ڈپٹی کمشنر تعینات کئے جارہے ہیں۔ اچھا ہوتا وہ بروکرز کے ساتھ ان ڈپٹی کمشنروں کی بھی نشاندہی کردیتے جو دو کروڑ روپیہ دے کر تعینات ہوئے ہیں۔
اب چلتے چلتے یہ کہ ذرائع ابلاغ کی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کو ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ چند ایک تبدیلی پسندوں اور آبپارویوں کے علاوہ اہل صحافت میڈیا اتھارٹی پر یکساں موقف اپنائے ہوئے ہیں۔
حکومت کو بھی ضد نہیں کرنی چاہیے۔ تحریک انصاف کو یہ ضرور یاد رکھناچاہیے کہ اگر واقعی یہ اتھارٹی بن جاتی ہے تو پھر اس کی الزام تراشی والی سیاست کا کیا ہوگا؟
خیر چھوڑیں تبدیلی پسند ناراض ہوجائیں گے ورنہ تفصیل کے ساتھ عرض کیا جاسکتا ہے کہ جن من گھڑت داستانوں سے اس کی سیاست چمکی تھی اب ویسے سودے فروخت نہیں ہورہے اس لئے میڈیا کی آزادی گراں گزر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author