اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافی برادری PMDA کے خلاف سراپا احتجاج کیوں ہے؟ ||فہمیدہ یوسفی

اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے اور اس کو ختم کریں۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا اس وقت پاکستان میڈیا کی تمام تر توجہ پاکستان کے خلاف جاری فیک نیوز پروپیگنڈا کی جانب ہوتی لیکن حکومت کا شکریہ کہ بجائے  اس وقت میڈیا کو انگیج کرنے کے ان کے ساتھ محاذآرائی شروع کردی ہے جس کے نتیجے میں صحافی برادری سراپا احتجاج ہے  ۔

صحافیوں اور اس حکومت کے درمیان شروعات سے ہی شدید قسم کی کشیدگی کی فضا جاری ہے جہاں صحافی یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اس حکومت کے دوران مختلف حربوں سے ان کے بولنے کے حق کو چھینا جاتا رہا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کا موقف یہ رہا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی اس حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے اور اس کو ختم کریں۔

تاہم بد قسمتی سے یہ ہوتا نظر نہیں آرہا  کل  بروز پیر 13 ستمبر صحافی برادری نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا  اور ان کے اس احتجاج میں اپوزیشن رہنما بھی صحافتی تنظیموں کے ساتھ موجود تھے  اور حکومت کو شدید تنقید  کا نشانہ بناتے رہے اور اس احتجاج کی وجہ  حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل  لانے کا فیصلہ ہے۔

ابھی تک پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل  پر کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا  ہے لیکن اس کے فریم ورک کے جو نکات اس وقت زیر گردش ہیں  ان کی وجہ سے حکومت کو ایک بار پھر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

صحافیوں کے مطابق پاکستان پہلے ہی رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں 145 درجے پر ہے اور پی ایم ڈی اے کا قانون دنیا کی نظروں میں پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی مضبوط وجہ کے طور پر استعمال ہوگا۔

دوسری جانب حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے اس قانون کی منظوری سے ریاست پاکستان کے بیانیے کے خلاف جاری پڑوس سے پروپیگنڈا میں اضافہ ہی ہوگا  جبکہ ہماری سارا فوکس اس وقت پاکستان کے خلاف جاری ان کی مہم کے  خلاف ہونا چاہیے ۔

یاد رہے کہ پاکستان کی نمائندہ میڈیا تنظیموں کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)،پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) پر مشتمل مشترکہ کمیٹی نے حکومت کی جانب سے  (پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی) پی ایم ڈی اے کے قیام کی پیش رفت کو متفقہ طور پر پہلے ہی مستردکر چکی ہے۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے مندرجہ جات آخر ہیں کیا۔؟

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کی منظوری کے بعد ملک بھرکے صحافی اور میڈیا ورکرز نہ صرف ’نیوزپیپر ایمپلائز اینڈ سروسز کنڈیشنز ایکٹ 1974 میں دیے گئے قانونی تحفظ سے محروم ہو جائیں گے بلکہ مذکورہ آرڈیننس کی بدولت ان کا چھٹے، ساتویں اور نویں ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت تنخواہ و دیگر مراعات اور بقایاجات مانگنے کاحق بھی سلب ہوجائے گا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کی منظوری کے بعد عمل درآمد ٹربیونل برائے اخباری کارکنان تحلیل ہو جائے گا اور ٹربیونل میں زیر سماعت اخباری کارکنان کے ہزاروں مقدمات بھی خودبخود ختم ہو جائیں گے۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے تحت قائم ہونے شکایات کونسلز اور ٹربیونلز میں صحافی اور میڈیا ورکرز، میڈیا مالکان کی مرضی کے مطابق طے شدہ تنخواہ کی عدم ادائیگی کی صورت میں شکایت تو کرسکیں گے مگر انہیں نہ تو ملازمت کا تحفظ ملے گا اور نہ وہ قانونی طور پر ہاؤس رینٹ الاؤنس ودیگر مراعات کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔

 پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے تمام ٹی وی و ریڈیو چینلز، اخبارات وجرائد، نیوز ایجنسیاں، آن لائن اخبارات، ویب سائٹس، بلاگز، فیس بک پیجز، یوٹیوب چینلز، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم چینلز وغیرہ ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ سے لائسنس، ڈیکلریشن، این اوسی یا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ لینے کے پابند ہوں گے جس کی مدت 5، 10 اور 15 سال ہوگی جبکہ اس کے لیے فیس مقرر ہوگی۔

اس کے علاوہ سالانہ فیس اور رینیوول فیس الگ ادا کرنا ہوگی اور سالانہ فیس تاخیر سے جمع کرانے پر جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے تحت  ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ تشکیل دی جائے گی جس کا سربراہ گریڈ21 یا22 کا انفارمیشن گروپ کا آفیسر ہوگا جبکہ اتھارٹی کے 11 ممبر ہوں گے جن میں چھ نجی جبکہ پانچ ممبران میں وفاقی سیکرٹری انفارمیشن، وفاقی سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین ایف بی آر اور چیئرپرسن مسابقتی کمیشن پاکستان شامل ہوں گے۔

پاکستان میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے تحت اتھارٹی کو کسی بھی ٹی وی چینل، ریڈیو چینل، اخبار، جریدے، نیوز ایجنسی، آن لائن اخبار، ویب سائٹ، بلاگ، فیس بک پیج، یوٹیوب چینل، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم چینل وغیرہ کو لائسنس، ڈیکلریشن، این اوسی، رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے، معطل کرنے، منسوخ کرنے، کسی پروگرام کو بند کرنے، آف ائیر کرنے، کسی خبر کو روکنے کے وسیع تر اختیارات حاصل ہوں گے۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے تحت پاکستان میں صحافی صرف وہی تصور کیا جائے گا جو ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ سے لائسنس یافتہ، ڈیکلریشن، این اوسی یا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے میڈیا کے ادارے سے منسلک ہوگا (پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ) میں حاصل حقوق صرف اسی صحافی کو ملیں گے۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے تحت تمام ٹی وی و ریڈیو چینل، اخبار، جریدے، نیوز ایجنسی، آن لائن اخبار، ویب سائٹ، بلاگ، فیس بک پیج، یوٹیوب چینل، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم چینل وغیرہ کے لیے لائسنس، ڈیکلریشن، این او سی، رجسٹریشن سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے درج ذیل شرائط پر عمل کرنا لازمی ہوگا:

خبروں، تجزیوں، تبصروں وبحث مباحثے میں۔۔۔

1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خودمختاری، سکیورٹی اور سالمیت کے تحفظ کویقینی بنانا۔

2۔آئین میں شامل قومی، ثقافتی، سماجی و مذہبی اقدار و اصولوں کے تحفظ کو یقینی بنانا۔

3۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ تمام پروگراموں واشتہارات میں تشدد، دہشت گردی، نسلی ومذہبی امتیاز، فرقہ واریت، انتہاپسندی، عسکریت پسندی، نفرت، پورنوگرافی، فحاشی، ولگیریٹی، یا دیگر کسی قسم کا جارحانہ مواد موجود نہ ہو جو شائستگی کے تسلیم شدہ معیارات کے خلاف ہے اور نہ اس مذکورہ بالا برائیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔

4۔ ڈیلی ٹرانسمشن، براڈکاسٹ، پبلیکیشن، پروگرامز یا خبروں میں حکومت کی طرف سے طے کیے گئے مفاد کا مواد شامل کرنا ہوگا اور اس کا دورانیہ (کل دورانیے کا) 5 فیصد لازمی ہوگا۔

5- پروگرام اور اشتہارات کے لیے اتھارٹی کے منظورشدہ ظابطے پر عمل درآمد لازمی ہو گا، جس کے لیے اِن ہاؤس مانیٹرنگ کمیٹی تعینات کرنا ہوگی جوکہ منظور شدہ پر عمل درآمد بارے آگاہ کرے گی۔

 6- کاپی رائٹ آرڈیننس 1962، انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹ ایکٹ 2012  ودیگر قوعدکی عدم خلاف ورزی کو یقینی بنانا ہوگا۔

7- میڈیا سے متعلقہ امور کے لیے کام آنے والے کسی بھی قسم آلات کی درآمد کے لیے اتھارٹی سے الگ این اوسی لینا لازمی ہوگا۔

8- خودکش بمبار، دہشت گرد، دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی لاشوں، جنگجوؤں وانتہاپسند عناصر کے بیانات واعلانات ودیگر اقدامات جو کسی بھی لحاظ دہشت گرد کارروائیوں اور دہشت کے فروغ کا سبب بنیں، ان کونشر یا تقسیم نہ کرنے اور ان کی آن لائن ویڈیو فوٹیج کی عدم دستیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔

9۔ کوئی بھی اینکرپرسن، ماڈریٹر یا میزبان کوئی بھی ایسی رائے یااقدام کو پروپیگیٹ نہیں کرے گا جو کسی بھی طرح نظریہ پاکستان، پاکستان کی خودمختاری وسلامتی یا دفاع کے خلاف تعصب پر مبنی ہو۔

10۔ امن وامان کامسئلہ پیدا کرنے والی کوئی نشریات، ڈسٹری بیوشن یا آن لائن پروگرام کی اجازت نہیں ہوگی۔

11۔ کوئی بھی ایسی نشریات، ڈسٹری بیوشن یا آن لائن کوئی بھی ایسی چیز ممنوع ہوگی جس سے سربراہِ مملکت، یا مسلح افواج کے ممبران، یا ریاست کے قانون ساز اور عدلیہ کے اداروں کی بدنامی یا ان کی تضحیک ہوتی ہو۔

12۔ عدالتوں میں زیرسماعت معاملات پر کسی قسم کی نشریات، ڈسٹری بیوشن، پروگرام یا بحث ومباحثہ نہیں ہوگا اور کورٹ رپورٹنگ صرف انفارمیشن کی صورت میں نشر/شائع کی جاسکے گی۔

13۔ کوئی بھی ایسی نشریات، ڈسٹری بیوشن یا آن لائن کوئی بھی ایسی چیز ممنوع ہوگی جس کے بارے میں پتہ ہوکہ وہ جھوٹ پر مبنی یا بے بنیاد ہے یا بدنیتی پرمبنی ہے یا اس کے جھوٹ، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہونے کایقین کرنے کے لیے کافی وجوہات موجود ہوں۔

14۔ کوئی بھی الیکٹرانک وڈیجیٹل چینل واخبار اپنی باقاعدہ لانچنگ کے بعد ایک سال کا نان سٹاپ آپریشن مکمل کرنے سے پہلے سرکاری اشتہار لینے کا حقدار نہیں ہوگا۔

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2021 کے مطابق کوئی بھی لائسنسن یافتہ، این اوسی، ڈیکلریشن، رجسٹریشن ہولڈر ادارہ یا فرد پر مذکورہ بالا کسی ایک بھی شرط کی پہلی بار خلاف ورزی ثابت ہونے پر تین سال قید کی سزا یا اڑھائی کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جاسکیں گی جبکہ دوسری بار خلاف ورزی ثابت ہونے پر پانچ سال قید یا 5کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جاسکیں گی۔

اگر پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے لائسنس، ڈیکلریشن، این اوسی، رجسٹریشن لیے بغیر کام جاری رکھنے والا ٹی وی چینل، ریڈیو چینل، اخبار، جریدے، نیوز ایجنسی، آن لائن اخبار، ویب سائٹ، بلاگ، فیس بک پیج، یوٹیوب چینل، نیٹ فلکس، ایمازون پرائم چینل وغیرہ یا ان میں کام کرنے والا فرد مذکورہ بالاشرائط میں سے کسی ایک بھی شرط کی خلاف ورزی کرے گا تو خلاف ورزی ثابت ہونے پر اس کو پانچ سال قید یا پانچ کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں سنائی جاسکیں گی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نئی اتھارٹی کے قیام سے میڈیا کی آزادی، غیر جانب داری اور صحافتی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

تاہم صحافی برادری  سول سوسائٹی اور اپوزیشن اس اتھارٹی کے قیام  کے شدید مخالف ہیں ۔ لگتا یوں ہے کہ یہ حکومت بھی  سابقہ روایا ت برقرار رکھتے ہوئے   میڈیا کے ساتھ کشیدگی کی جانب بڑھ رہی ہے اور لگتا یوں ہے کہ یہ خلیج اس وقت بڑھتی جارہی ہے ۔

ریاست پاکستان کو بیرونی اور اندرونی محاذ پر جن چیلینجز کا سامنا ہے اس دوران  حکومت کی جانب سے  میڈیا کے ساتھ بے وقت کی محاذ آرائی صرف ریاست کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے سیاست کو نہیں حکومت کو اس اتھارٹی کے اوپر صحافیوں کے تحفطات کو دور کرنا چاہیے اور موجود ریگولیٹری باڈیز کے سقم کو دور کرنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ محاذ آرائی کسی کے حق میں بھی  بہتر نہیں ہے ۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: