اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218انتخابی حلقے||حیدر جاوید سید

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج کے مطابق حکمران پی ٹی آئی نے ملک بھر میں 63، (ن) لیگ نے 58، پیپلزپارٹی نے 17نشستیں حاصل کیں۔ 58 نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے۔ 10پر ایم کیو ایم، 7پر جماعت اسلامی، اے این پی اور بی اے پی نے 2،2نشستیں جیتیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج کے مطابق حکمران پی ٹی آئی نے ملک بھر میں 63، (ن) لیگ نے 58، پیپلزپارٹی نے 17نشستیں حاصل کیں۔ 58 نشستوں پر آزاد امیدوار جیتے۔ 10پر ایم کیو ایم، 7پر جماعت اسلامی، اے این پی اور بی اے پی نے 2،2نشستیں جیتیں۔
پیپلزپارٹی پنجاب، بلوچستان اور سرائیکی وسیب سے کوئی نشست نہ جیت پائی۔ اتوار کی شب چند جیالوں اور جیالیوں نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ ملتان اور بہاولپور میں جیتنے والے پی پی پی کے حمایت یافتہ ہیں۔ کچھ نے وہی پرانے دکھڑے سنائے۔ جنرل ضیاء کے دور میں بنایا گیا ماحول اب بھی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں موجود ہے۔
پی پی پی نے 17میں سے تین نشستیں خیبر پختونخوا سے حاصل کیں۔ 1 ایبٹ آباد اور 2پشاور، پشاور سے البتہ پی ٹی آئی صاف ہوئی۔ لاہور، راولپنڈی اور سیالکوٹ میں (ن) لیگ واضح برتری سے جیتی۔ ملتان میں اسے ایک نشست ملی۔
باقی کے 9امیدوار آزاد تھے۔ ان کے حوالے سے دو دعویدار ہیں اولاً فواد چودھری اور ثانیاً پیپلزپارٹی کے یہ ہمارے ہیں۔
بلاول بھٹو گزشتہ روز ہی سرائیکی وسیب کا کامیاب دورہ کرکے واپس گئے ہیں۔ کیا وہ ملتان میں موجود مرکزی قائدین اور مقامی قیادت سے پوچھیں گے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج میں پیپلزپارٹی کہاں کھڑی ہے؟ اصولی طور پر سوال بنتا نہیں ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کھڑی ہی نہیں تھی، کیوں؟ اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔
جب آپ عقیدت مندوں، تعلق داروں اور سپانسرڈ کو محبان پیپلزپارٹی بناکر پیش کریں گے تو بچے کھچے کارکن نظرانداز ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں کارکنوں کے بل بوتے پر آگے بڑھتی ہیں عقیدت مندوں، تعلق داروں اور انویسٹروں کی وجہ سے ہرگز نہیں۔
اسی طرح محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہمیں آج بھی ضیائی رجیم کا سامنا ہے۔ تنظیمی عمل 2008ء سے تو مکمل طور پر نظرانداز ہے دوسری جماعتوں کی طرح نامزدگیوں سے کام چلایا جارہا ہے۔ ہر سطح کے عہدیدار نامزد ہوتے ہیں بلکہ ذیلی تنظیموں تک کے۔ ایسے میں دعویداریاں تو ہوتی ہیں حقیقت کچھ نہیں۔
پنجاب میں ہی سہی (ن) لیگ نے ایک بار پھر اپنا سیاسی وجود ثابت کردیا۔ اب آپ یہ کہیں کہ جیسے پی ٹی آئی کو 2018ء میں قبضہ دلایاگ تھا ویسے اب (ن) لیگ کو کنٹونمنٹ بورڈز میں قبضہ دلوایا گیا ہے تو لوگ آپ کی ذہنی حالت پر ہنسیں گے۔
حکمران پی ٹی آئی کی 63 نشستیں غیرمتوقع ہیں وجہ روزمرہ کے مسائل ہیں جو حل ہونے کے باوجود ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ پھر بھی متعدد بورڈز میں اس کی کارکردگی اچھی رہی۔ یہ کارکردگی اگر دھاندلی اور ” تعاون ” کی بدولت ہے تو مخالفین کیسے جیت پائے ؟
کراچی میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی بہتر رہی پچھلے الیکشن میں اس کے پاس کنٹونمنٹ کی 4نشستیں تھیں اس بار 11 ہیں۔ ایم کیو ایم بہادر آباد اور پی ٹی آئی بھی موجود ہیں بلکہ کراچی میں پی ٹی آئی کے 14امیدوار جیتے ہیں۔
یہ بجا ہے کہ محدود علاقوں پر مشتمل کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج ملکی سیاست پر اثرانداز نہیں ہوتے یہ الگ ہی دنیا ہے لیکن چونکہ یہ انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہوئے ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کو ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنا ہوگا۔
اسی طرح اے این پی کے ذمہ داران کو بھی غوروفکر کرنا چاہیے۔ پچھلی شب سے سوشل میڈیا پر پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ ایسی ایسی تاویلات پیش کی جارہی ہیں کہ اگر ہٹلر کا وزیر اطلاعات گوئبلز ان تاویلات کو جان پاتا تو ان تاویل پسندوں کی شاگردی میں آن بیٹھتا۔
پنجاب میں (ن) لیگ نے جماعتی سطح پر کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو سنجیدگی سے لیا کیونکہ یہ اس کا بیس کیمپ ہے۔ پی ٹی آئی نے جماعتی حکمت عملی سے زیادہ حکومت میں ہونے کے تاثر کو کیش کر وایا۔
صوبائی سطح پر اس کی کارکردگی بری ہرگز نہیں البتہ جو پشاور میں ہوا وہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پچھلے آٹھ برسوں سے پی ٹی آئی کا راج ہے۔ اس راج کا طلسم بکھر رہا ہے کیوں؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ناقص کارکردگی کے ساتھ وہ مسائل ہیں جو لوگوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔
2018ء کے انتخابی نتائج میں سے ذرا کنٹونمنٹ کے صوبائی اور قومی حلقوں کے نتائج نکال کر دیکھ لیجئے، مزید وضاحت کے ساتھ یہ کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کنٹونمنٹ بورڈز کے علاقوں سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے پائی تھی۔
اب کیا ہوا یہ اس کی قیادت کو سوچنا ہے۔ کھلے دل سے یہ بات ماننا ہوگی کہ (ن) لیگ نے وسطی پنجاب میں اور خصوصاً راولپنڈی، لاہور اور سیالکوٹ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لاہور اس کی طاقت کا مرکز ہے نتیجہ تقریباً یہی ہونا چاہیے تھا۔ پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی صدر وسطی پنجاب قمر زمان کائرہ اور دوسرے عہدیداران نے اپنے عہدوں کے عرصے میں پی پی پی کو منظم کرنے کی بجائے دانشوری پر گزارا کیا۔ حالانکہ سیاست اور خصوصاً عوامی سیاست کے تقاضے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے حالیہ انتخابی نتائج نے سرائیکی وسیب میں منعقد ہونے والے پی پی پی کے حالیہ ورکرز کنونشنوں، جلسوں، ریلیوں سے بنی فضا کو متاثر کیا۔
خیر چھوڑیں اس سے زیادہ عرض کرنے میں امر مانع بھی ہے وہ یہ کہ سیاسی جماعتیں اگر تجزیہ نہ کرنا چاہیں تو آپ زبردستی انہیں اس راہ پر نہیں ڈال سکتے۔
بہاولپور کا نتیجہ دلچسپ ہے یہاں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کا پورا پینل بری طرح شکست سے دوچار ہوا ان سے ناراض اور ان کے متاثرین دونوں طرح کے لوگوں نے اپنا وزن چیمہ گروپ کے مخالفین کے پلڑے میں ڈالا۔
ملتان وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر مملکت عامر ڈوگر کا آبائی شہر ہے اس شہر کے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج سے یہ حقیقت دوچند ہوگئی کہ معاملات اتنے سادہ بھی نہیں جیسا تاثر دیا جارہا ہے البتہ ان لوگوں کا کچھ نہیں ہوسکتا جو یہ کہتے ہیں یہاں پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی تھی۔ یعنی جس کو ٹکٹ نہیں ملا وہ آزاد حیثیت میں جیت گیا۔
ایسا ہے تو ٹکٹیں تقسیم کرنے والوں کو قلعہ کہنہ قاسم باغ کے دمدے پر کان پکڑوانا چاہئیں۔
41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 218حلقوں میں اتوار کو کانٹے دار مقابلے ہوئے۔ ماضی کی روایات کو دیکھیں تو حکمران گروپ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ کامیاب آزاد امیدواروں کی ترجیح بھی ہمیشہ حکومتی جماعت ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتی گروپ میں شامل نہیں ہوتے تو اپنے حلقوں میں کام نہیں کرواسکیں گے۔
بہرطور اتوار کو منعقد ہوئے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات اور نتائج مجموعی طور پر بہت زیادہ حیران کن ہرگز نہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ جنہیں پنجاب اور سرائیکی وسیب سے امیدوار نہیں ملے انہیں دوسروں پر پھبتیاں کسنے کی بجائے اپنی تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں پر غور وفکر کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: