اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک خالص غیرسیاسی کالم||حیدر جاوید سید

خیر قصہ مختصر ہم ابھی امڑی کے شہر میں مقیم ہیں، ٹرانسپورٹ لاک ڈائون اٹھے تو رخصت ہوں۔ گھر اور رزق کی مجبوریاں واپسی کی متقاضی ہیں ورنہ اس جنت نشان جنم شہر ملتان سے جدائی کالے پانی کی سزا جیسی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لکھنے والے دوسرے دوستوں کا تو پتہ نہیں، ہمارے ساتھ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ موضوعات کی بھرمار کے باوجود لکھنے کو جی آمادہ نہیں ہوتا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں یہ حالات کا جبروستم ہے۔
عین ممکن ہے ان کی بات درست ہو، فی الوقت صورت یہ ہے کہ پنجاب کے 13اضلاع میں ٹرانسپورٹ لگائے گئے لاک ڈائون کی وجہ سے اپنے جنم شہر ملتان میں پھنسا ہوا ہوں۔ 4ستمبر کی شب پیشگی اعلان کے بغیر پنجاب حکومت نے اچانک صوبے کے 13اضلاع میں ٹرانسپورٹ لاک ڈائون کے نفاذ کے لئے نصف شب کے قریب پھرتیاں دیکھائیں اور متعدد شہروں میں انٹر سٹی ٹرانسپورٹ اڈے بند کروادیئے۔
اخباری دنیا میں ہونے کے باوجود میں اس اقدام سے لاعلم تھا۔ مقررہ وقت پر بس اڈے پر پہنچا تو لاک ڈائون منہ چڑارہا تھا۔ جیسے تیسے ملتان پہنچ ہی گیا۔ فقط پیپلزپارٹی کی دو مکالماتی نشستوں میں شرکت اگر وجہ سفر ہوتی تو سفر ملتوی کردیتا۔ ایک دو گھریلو نوعیت کی ذمہ داریوں سے عبارت کام تھے۔ پھر امڑی (والدہ) کے شہر جانے کی خوشی بھی۔
برسوں قبل ایک دوست نے جنم شہر میں چند سال قیام کے بعد حصول رزق کیلئے واجب ہوئی نئی ہجرت پر ایک تحریر میں لکھا تھا
’’شاہ جی کی حالت یہ ہے کہ ملتان سے لاہور کی طرف رخصت ہوتے ہیں تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے اور ساہیوال تک پیچھے ملتان کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی واپس لوٹنے کے لئے اشارہ نہ کررہا ہو۔‘‘
ایک بار ایسا ہوا کہ ملتان سے رخصتی کے وقت بس میں سوار ہوا، بس چلنے لگی تو آنکھوں سے رم جھم ساون کی جھڑی لگ گئی۔ دوسری طرف کی نشست پر بیٹھے ہوئے مسافر نے بے ساختہ کہا، محترم صبر اور حوصلے سے کام لیں، کس کی وفات ہوئی ہے کہاں جارہے ہیں؟
رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا، سئیں!
کسی کی وفات نہیں ہوئی یہ جنم شہر سے جدائی کا دکھ ہے اس شہر میں میری امڑی (والدہ) کی تربت بھی ہے اور پرکھوں کی قبریں بھی۔ میں جب شہر مادرِ مہربان سے رخصت ہوتا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے اپنا ہی جنازہ کاندھوں پر لئے رخصت ہورہا ہوں۔
مسافر نے ہمیں حیرانی سے دیکھا پھر زیرلب کچھ کہا۔ اندازہ ہوا کہ کہہ رہا ہے عجیب پاگل آدمی ہے، جنم شہر سے رخصت ہوتے ہوئے بچوں کی طرح رورہا ہے۔
ملتان آنا میرے لئے کائنات کی سب سے بڑی خوشی ہے اور اس شہر سے بچھڑنا کسی المیہ سے کم نہیں۔ گزشتہ ہفتہ بھر سے امڑی کے شہر میں مقیم ہوں۔ دوست ملنے آجاتے ہیں کیونکہ اسٹک کے سہارے چلنے پھرنے میں کچھ دقت محسوس ہوتی ہے۔ ملتانی منڈلی کا کٹھ حسب دستور ہوا اور منڈلی کے حافظ جی سوئے رہے۔
پروفیسر تنویر خان اور دوسرے دوستوں سے دو تین نشستیں بھی خوب رہیں۔ طالب علم کو اپنا مطالعہ تازہ کرنے اور یاداشت کا امتحان لینے کا موقع اکثر مل جاتا ہے۔
ملتان ملتان ہے، چھ سات ہزار سال کی تاریخ، تہذیب و تمدن کا وارث، میں اسے راجہ پرہلاد کے حوالے سے جانتا ہوں اور اس سے محبت کی کئی وجوہات ہیں۔
اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ میری امڑی (والدہ) کا شہر ہے۔ میرا اور میرے بہن بھائیوں کا جنم شہر بھی۔ والدین اسی شہر کے قبرستانوں میں آرام کررہے ہیں اور دوسرے بزرگ بھی۔
سفر حیات کے بہت سارے مہربان دوست اپنی اپنی عمر کی نقدی ختم کرکے رخصت ہوچکے۔ عمر کی نقدی بس ہماری بھی تمام ہونے کو ہے۔ کس لمحے یا کس موڑ پر تمام ہوجائے اس بارے پیشگوئی ممکن نہیں۔
آج کے اخبارات میں ڈھیر سارے موضوعات ہیں لیکن ان پر لکھنے کو جی نہیں کررہا۔ گزری شب حساب کتاب لگایا تھا کہ قبلہ مولانا فضل الرحمن کے حالیہ ارشادات پر لکھاجائے۔ کاغذٓ قلم لے کر بیٹھا تو ارادہ بدل گیا۔
بالائی سطور میں جو لکھا گیا یہ بلا ارادہ ہے۔ سیاستِ عصر پر پھر لکھ لیں گے۔ ابھی ملتان کی باتیں کرتے ہیں اور ملتانیوں کی۔ دو دن اُدھر کی شب ہمارے دوست پروفیسر تنویر خان نے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ عشائیہ اور نشست یعنی ٹو اِن ون پروگرام رہا۔ مختلف موضٗوعات پر چار گھنٹوں کی اس نشست میں خوب باتیں ہوئیں۔
شرکائے نشست نے سوال اٹھائے طالب علم بساط کے مطابق جواب عرض کرتا رہا۔
یہ بھی عرض کیا کہ تقابلی مطالعے کی اہمیت سے اساتذہ اپنے طلباء کو آگاہ کریں، یک رُخا مطالعہ بند گلی میں قید رکھتا ہے بندے اور سوچ دونوں کو۔ لازم ہے کہ ہماری نئی نسل دستیاب تاریخ پر سوال اٹھائے۔ غوروفکر کرے کہ تہتر سالوں کے دوران ہم انسان سازی کا ایک بھی ادارہ قائم کیوں نہیں کرپائے اس پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
مکالمے کی مسلمہ اہمیت سے انکار کو جہل اور مکالمے کے نام پر ملاکھڑوں کو بدترین تعصب سمجھا جانا چاہیے۔
یہ بھی عرض کیا کہ ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ نصابی تعلیم علم کے دروازے پر لے جاکھڑا کرتی ہے بذات خود علم نہیں ہے۔ تہذیب نفس اور تربیت میں نصابی تعلیم کا بنیادی کردار ہے لیکن ہمارے ہاں کی نصابی تعلیم تہذیب نفس اور تربیت کی روح سے خالی ہے۔
یہ صرف نوکریوں کے خواہش مند لشکر پیدا کرتی ہے اور لشکری سوچتے سمجھتے کہاں ہیں وہ تو احکام بجالاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ
ایک طرح کے کودن ہم تہتر برسوں سے تیار کرکے مارکیٹ میں ڈالتے آرہے ہیں اور اب مشترکہ تعلیمی نصاب ہماری اجتماعی قبر کھودے گا۔
ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کرچکا کہ اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو عصری شعوری کے ساتھ پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو پھر پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ تاریخ کی چھان پھٹک کے لئے کمیشن بنانا ہوگا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کمیشن کے ارکان اس امر سے بخوبی واقف ہوں کہ تاریخ زمین زادوں کی ہوتی ہے حملہ آور تو اس تاریخ میں مہمان اداکار ہوتے ہیں۔
ثانیاً یہ کہ تاریخ کا مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح مسلم تاریخ کا معاملہ ہے اس کی چھان پھٹک بھی ضروری ہے۔ میرے دیندار دوست اور شناسا مجھ پر خفا رہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ میں برصغیر کی مسلم متھ کا باغی ہوں اور میرے خیالات سے نئی نسل کے ذہنوں میں فاسد نظریات جنم لیتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ بغاوت وغیرہ تو نہیں ہاں برصغیر کی مسلم متھ ہماری تہذیبی روایات اور تاریخ سے متصادم ہے۔ بس اس طرف توجہ دلاتا رہتاہوں۔
مکالمے کی روایات پنپ نہیں پائیں اس لئے ہم جیسوں کی باتیں ان دوستوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔
خیر قصہ مختصر ہم ابھی امڑی کے شہر میں مقیم ہیں، ٹرانسپورٹ لاک ڈائون اٹھے تو رخصت ہوں۔ گھر اور رزق کی مجبوریاں واپسی کی متقاضی ہیں ورنہ اس جنت نشان جنم شہر ملتان سے جدائی کالے پانی کی سزا جیسی ہے۔
خیر یار زندہ صحبت باقی، اگلے کام میں سیاسی باتیں کرلیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: