نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نو گیارہ کے بعد کیا قیامتیں گزریں||رسول بخش رئیس

بڑی طاقتیں آکر جنگیں کریں اور روپیہ پیسہ بہائیں تو معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ کچھ ان کے ساتھ اور زیادہ تر مزاحمت میں شریک... امن و استحکام کیسے قائم ہوگا؟

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے اندر اور دوسرے ملکوں میں ایسے عام لوگوں اور دانشوروں کی کمی نہیں‘ جو آج تک یہ کہتے ہیں کہ نو گیارہ کے دن امریکہ میں حملے ”ٹوپی ڈرامہ‘‘ تھے۔ بعض تو سرے سے مانتے ہی نہیں کہ جن جن افراد کو ملوث قرار دیا گیا‘ اور جو جو نام سامنے آئے ہیں‘ واقعتاً اصلی ہیں۔ کہتے ہیں‘ فرضی نام اور چہرے ہیں۔ کئی ایسے لوگوں کو میں ذاتی طور پر ملا ہوں‘ جو کہتے ہیں یا کہتے تھے کہ واقعات تو ضرور ہوئے ہیں مگر جو دہشت گردی کا شور مچا رہے ہیں‘ انہوں نے یہ واقعات خود کرائے ہیں۔ بحثوں میں تو پڑنے کو کبھی جی نہیں چاہا اور نہ آج طبیعت مائل ہے‘ بلکہ میں تو طلبہ کو بھی تلقین کرتا ہوں کہ مذہب اور سیاست ایسے معاملات ہیں‘ جن پر بحث میں پڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان واقعات کو بیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج دنیا میں بحث اس بات پہ نہیں کہ مسافر جہازوں کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی بلندوبالا عمارتوں کے ساتھ ٹکرا کر تباہ کیا گیا تھا یا نہیں‘ بلکہ اس کے بعد امریکی رد عمل پر ہے۔ میرا محض خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ القاعدہ نے اس کی منصوبہ بندی کی‘ اسی کی قیادت نے خود کش بمبار تیار کئے تھے اور حکم ملنے پر انہوں نے نیو یارک اور پنٹاگون میں تباہی مچا دی تھی۔ اس سے پہلے یہی تنظیم مشرقی افریقہ میں امریکی سفارتخانوں اور عدن کے قریب بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا چکی تھی۔ یہ بات بھی زیرِ بحث رہی ہے اور رہے گی کہ دہشتگردی کے ذریعے القاعدہ کی قیادت کیا مقاصد حاصل کرنے کی متمنی تھی۔ آیا مقصد ادھر اُدھر حملے کرکے امریکہ سے اپنے وجود کو منوایا تھا یا اسے مجبور کرنا کہ دنیائے عرب میں جن ریاستوں کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے اٹھائی ہوئی ہے‘ اس سے دستبردار ہو جائے؟ سیاست کے بھی عجیب رنگ ہیں کہ جو کل بانہوں میں بانہیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سرخ فوج کو افغانستان میں خاک چٹا رہے تھے‘ اور جہاد کا علم بلندکر رکھا تھا‘ اب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھے؛ چنانچہ تاریخ کا سبق تو یہی ہے کہ عالمی سیاسی امور میں نہ مستقل دوست ہوتے ہیں اور نہ ہمیشہ کیلئے دشمن۔ مفادات ایک ہوں تو دوستی‘ شدید ٹکرائو ہو تو تصادم۔ سرخ فوج افغانستان سے پسپا ہوئی تو جہاد کا رخ مغرب اور امریکہ کی طرف ہو گیا۔
حوصلے بہت بلند ہو گئے تھے۔ ایک سپر پاور کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تو دوسری کیسے اپنے قدم عرب ممالک میں قائم رکھ سکتی۔ بنیادی اور اولین مقاصد عرب وسائل‘ اقتدار اور مقدر کو عرب بادشاہوں اور مغرب کے گماشتوں سے آزاد کرانا تھے۔ راستہ جو القاعدہ اور داعش نے چنا‘ وہ عسکریت پسندی‘ جنگ‘ ٹکرائو اور دنگے فساد کا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد‘ انقلابی نوجوانوں نے امریکی سفارت خانے پر ہلہ بولا‘ سفیر سمیت سارے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ ایک سال تک انہیں قید میں رکھا۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر عالمی میڈیا کے سامنے پریڈ کرائی جاتی۔ ہمارے ایرانی دوست فخر سے کہتے کہ انہوں نے ”امریکہ کی ناک خاک میں رگڑی ہے‘‘۔ تب امریکہ کے صدر معتدل‘ صلح جو اور شریف النفس جمی کارٹر صاحب تھے۔ انہوں نے یرغمالیوں کو چھڑانے کی ناکام کوشش کی‘ مگر جنگ چھیڑنے سے انہوں نے گریز کیا‘ اور ہزیمت ہضم کر گئے۔ نو گیارہ کے واقعات کی نوعیت زیادہ گھنائونی تھی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد امریکہ کی سرزمین پر یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ یہ کسی ریاست یا ملک نے نہیں‘ غیر ریاستی عناصر نے کیا تھا۔ تین مختلف مقامات پر تین ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ نیویارک میں سب سے زیادہ دوہزارسات سو۔ جو کچھ اس روز ہوا‘ اس کے بعد جو قیامت آئی‘ اس کی داستان مؤرخ لکھتے رہیں گے۔
امریکہ کی برائون یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز نے نو گیارہ کے بعد کی جنگوں کے بارے میں اموات‘ اخراجات اور بے گھر ہونے والے لوگوں کے اعدادوشمار عرق ریزی سے جمع کرکے اپنی ویب سائٹ پر نمایاں کئے ہوئے ہیں۔ براہ راست حربی حملوں میں گزشتہ بیس سالوں میں نو لاکھ انتیس ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں حملہ آور ممالک کے فوجی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے تین لاکھ ستاسی ہزار عام شہری ہیں‘ جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جنگوں سے اب تک تین کروڑ اسی لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان تمام جنگوں میں امریکہ کے سات ہزار باون فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ امریکہ کے جنگی اخراجات کا تخمینہ آٹھ کھرب ڈالرز کا ہے۔ کم و بیش پچاسی ممالک میں مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کئے گئے۔ افغانستان‘ عراق اور لیبیا پر فوجی حملے کرکے‘ وہاں کی ریاستوں پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کی گئیں۔ اپنے عوام اور دنیا کے سامنے بیانیہ یہ تھاکہ وہاں آمرانہ‘ انتہا پسند حکومت کو ختم کرکے آزاد رو جمہوری نظام قائم کرنا ہے۔ گھمنڈ میں تھے کہ ان ممالک میں نئی قومیں اور ریاستیں تشکیل دیں گے۔ کچھ زیادہ دیر نہ ہوئی کہ سمجھدار لوگوں کو اس بیانیے کی حقیقت معلوم ہونا شروع ہوگئی۔ افغانستان اور عراق کی دلدل میں ایسے پھنسے کہ نکلنا مشکل ہوگیا۔ امریکہ میں نوگیارہ کے حوالے سے بحث زوروں پر ہے اور ان جنگوں کی حکمت عملی کے علاوہ فیصلہ سازی اور جاسوس اداروں کی اطلاعات کی صحت کے بارے میں تیکھے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب جوبات کھل کر سامنے آ رہی ہے‘ وہ جھوٹ ہے‘ جوامریکہ کے ادارے اپنی سیاسی قیادت سے بولتے رہے۔ ان میں پنٹاگون اور سی آئی اے سرِفہرست ہیں بلکہ یہی دو تو ہیں‘ جنہوں نے امریکہ کو جنگیں جیت کران ملکوں میں جمہوری جنت کے خواب دکھائے تھے۔ افغانستان کی جنگ میں جو کچھ افغانوں کے ساتھ ہوا‘ اسکی داستان المناک ہے۔ امید ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے امریکہ کی رخصتی پر آنسو بہانے والوں کا ماتم ختم ہوگا اور افغان کبھی اپنے پیروں پہ کھڑے ہو سکے تو مظالم کی داستان لکھی جائے گی۔ کون سا اسلحہ‘ گولہ بارود اور کون سے بم تھے جو وہاں استعمال نہ کیے گئے۔ نہ جانے کتنے عقوبت خانوں میں بے گناہ شہری سسکتے سسکتے تنگ و تاریک کوٹھریوں میں جان کی بازی ہارگئے۔
جھوٹ صرف افغان جنگ میں پیشرفت کے بارے میں ہی نہیں تھا‘ عراق کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے دعوے سب سے بڑا جھوٹ تھے۔ افغانستان میں جوتباہی تھی‘ وہ توہو چکی‘ مگر مشرق وسطیٰ کی تین عرب ریاستوں کو بھی نوگیارہ کی آڑ میں تباہ کردیا گیا: عراق‘ شام اور یمن۔ شام میں خاندانی حکومت تو ابھی تک محفوظ ہے مگر بیرونی مداخلت اور خانہ جنگی نے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ لیبیا عرب ممالک میں کوئی واحد آمریت تو نہیں تھی۔ مغرب کے کئی قریبی دوست ممالک میں کون سی آئینی جمہوری حکومتیں قائم ہیں؟ یمن میں ابھی تک جنگ کی آگ کے شعلے بلند ہیں۔ ان میں کسی بھی تباہ شدہ ریاست کی تشکیل دوبارہ قومی مفاہمت اورہم آہنگی سے نہ ہو سکی۔ معاشروں اور ریاستوں کا ایک دفعہ توازن ٹوٹ جائے تو تعمیرِ نو کے امکانات ہی نہیں رہتے۔ بیس سال کے بعد دیکھیں‘ افغانستان اب کہاں کھڑا ہے؟ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اور امریکہ طالبان کوآسانی سے قدم جمانے نہیں دیں گے۔ آزادی‘ مزاحمت اور انسانی حقوق کے نعرے اس وقت ہی لگنے شروع ہو گئے تھے جب اشرف غنی دم دبا کر ڈالروں سے بھری گاڑیوں کو بغل میں لیے ملک سے بھاگ پڑے تھے۔ ان سب ممالک میں مددگار‘ حمایتی اور لٹھ بردار امریکہ نے خرید لیے تھے۔ اپنے ہی لوگوں کے خلاف مظالم ڈھاتے رہے۔ نقد کی چمک میں آلہ کار بنتے رہے۔ بڑی طاقتیں آکر جنگیں کریں اور روپیہ پیسہ بہائیں تو معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ کچھ ان کے ساتھ اور زیادہ تر مزاحمت میں شریک… امن و استحکام کیسے قائم ہوگا؟

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author