نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علامہ صاحب کے کتب خانے کو دیمک کیسے لگی؟||مبشرعلی زیدی

اتنا کہہ کر ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے اور اپنی کتاب کا وہ صفحہ غور سے دیکھنے لگے جس پر انھوں نے علامہ کا نام لکھ کر دستخط کیے تھے۔ میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوا کہ علامہ صاحب کے بارے میں بدگمانی کی۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیس سال سے کتابیں جمع کررہا ہوں۔ چند دن پہلے خیال آیا کہ بہت سی کتابیں ننگ دھڑںگ پڑی ہیں۔ اخبارات کے وہ صفحات، بچوں کے وہ رسالے اور بڑوں کے وہ ڈائجسٹ سوکھے جارہے ہیں جن میں اپنا نام چھپا ہے۔ اور بھی بہت سے کتابچے اور پیپر بیک بکس ہیں۔ کیوں نہ ان کی جلدبندی کروالی جائے۔ اس طرح سب کی زندگی بڑھ جائے گی۔

یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ڈاکٹر ہلال نقوی کا فون آیا۔ انھیں کسی مضمون کی تلاش تھی جو ایک جید کالم نگار کی کتاب میں چھپا تھا۔ میں نے کہا کہ میں وہ کتاب آپ کو پیش کروں گا۔ یہ بتائیں کہ کیا آپ کے پاس افکار کا جوش نمبر ہے؟ گزشتہ ہفتے میں نے پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے سے خریدا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بے قرار ہوگئے۔ کہنے لگے، ’’مبشر صاحب! وہ پرچہ کسی کو مت دیجیے گا۔ مجھے اس کی ضرورت ہے۔‘‘

ڈاکٹر ہلال نقوی نے جوش ملیح آبادی کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے۔ انھیں جوش صاحب کا شاگرد سمجھیں۔ انھوں نے جوش صاحب کی شاعری اور خاص طور پر مرثیوں کی کئی کتابیں مرتب کی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انھوں نے ایک غیر معمولی کام یہ کیا کہ جوش صاحب کی آپ بیتی ’’یادوں کی برات‘‘ کے کھوئے ہوئے اوراق ڈھونڈ نکالے اور جوش صاحب کی تحریر کے عکس کے ساتھ چھاپے۔ بہت جلد وہ یادوں کی برات کا نیا ایڈیشن شائع کرنے والے ہیں جس میں گم شدہ اوراق بھی شامل ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحب کا تعلق بھی سادات امروہا سے ہے اور اس بندہ ناچیز کا بھی۔ پہلے میں کراچی کے جس علاقے میں رہتا تھا، وہ بھی وہیں قیام پذیر تھے۔ برسوں ایک علاقے میں رہے بلکہ ایک گلی میں لیکن کبھی ہمت نہ ہوئی کہ ان کے دروازے پر دستک دوں۔ پھر وہ کہیں اور منقتل ہوگئے اور میں ان کا پتا نہیں جانتا تھا۔ اب میں کہیں اور رہتا ہوں اور مکان کہیں اور بنا رکھا ہے۔ میں ابھی تک اپنے مکان میں منتقل نہیں ہوسکا۔ ایک دن پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب بھی تو وہیں رہتے ہیں۔ سو گز کا بھی فاصلہ نہیں۔

 

کسی بہانے سے تعارف ہوا اور اب گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ میں جب ڈاکٹر ہلال نقوی کے پاس جاتا ہوں، میرے پاس ایک بستہ ہوتا ہے۔ اس میں آٹھ دس کتابیں ہوتی ہیں۔ یہ بستہ میں ان کے گھر جاکر خالی کردیتا ہوں۔ وہ کتابیں ان کی نذر کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب اسے دوسری کتابوں سے بھر دیتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔

 میں کل ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت کالم نویس کی کتاب پیش کی۔ وہ خوش ہوئے۔ لیکن جب میں نے 1961 میں چھپے ہوئے افکار کے جوش نمبر کے دو ایڈیشن بستے سے نکالے تو وہ بھونچکے رہ گئے۔ ’ہمیں ایک نہیں مل رہا اور آپ دو لے آئے۔‘

 میں نے بتایا، بلکہ میں نے کیا بتایا، انھیں معلوم تھا کہ افکار کے جوش نمبر کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگیا تھا۔ چند ماہ بعد دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ مجھے ایک ہی ٹھیلے پر دونوں ایک ساتھ رکھے مل گئے۔ اس پر کسی نے بال پین سے ایک نام بھی لکھا ہے۔ نسیم بانو زیدی۔ جناب عالی، ایک زیدی کا مال و اسباب دوسرے زیدی کو مل گیا۔ حق بہ حق دار رسید۔

 ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے پاس افکار کا جوش نمبر تھا لیکن کوئی مہمان آیا تو انھوں نے اسے پیش کردیا۔ اس کے بعد مدت سے انھیں اس کی تلاش تھی۔ لیکن دل کو یقین تھا کہ کہیں نہ کہیں سے ضرور مل جائے گا۔ ایسا دل مجھے کہاں سے ملے گا؟ ایسا ایمان اور یہاں کس کا ہے؟

 ابھی ڈاکٹر صاحب کی حیرت کم نہیں ہوئی تھی کہ میں نے اپنی زنبیل سے ایک اور کتاب نکالی۔ یہ ان کی اپنی کتاب تھی، ’’ بیسویں صدی اور جدید مرثیہ‘‘ انھیں اس مقالے پر تیس سال پہلے کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا تھا۔

 میں نے ان الفاظ میں افسوس کا اظہار کیا، ’’ڈاکٹر صاحب! دیکھیں، لوگ کتنے قدر ناشناس ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ کتاب ایک علامہ صاحب کو تحفتۃً دی تھی۔ اس پر ان کا نام اور آپ کے دستخط موجود ہیں۔ وہ اسے سنبھال کر نہیں رکھ پائے۔ نہ جانے انھوں نے یہ کتاب ردی فروش کو بیچی یا کہیں پھینک دی۔ اس پر پانی گرا ہوا ہے اور اکڑی ہوئی حالت میں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس بار میرا نام لکھ دیں۔ ایک بار پھر اس پر اپنے دستخط کردیں۔ میں علامہ نہیں ہوں اس لیے وعدہ کرتا ہں کہ اسے سنبھال کر رکھوں گا۔ آئندہ یہ کتاب گھوم پھر کے آپ کے پاس نہیں آئے گی۔‘‘

 ڈاکٹر صاحب وہ کتاب دیکھ کر رنجیدہ ہوگئے۔ گھر کے اندر گئے اور اسی کتاب کی ایک اور کاپی لے آئے۔ اسے دستخط کرکے مجھے عطا کیا۔ پھر کہا، ’’مبشر صاحب! اس کے عوض یہ نسخہ مجھے دے دیں۔‘‘

 اس کے بعد انھوں نے ایک دلچسپ لیکن بہت تکلیف دہ واقعہ بیان کیا۔

 ’’مبشر صاحب! آپ جانتے ہیں کہ یہ علامہ صاحب بھی ہمارے امروہے ہی کے ہیں۔ کتابوں کے عاشق ہیں۔ ایسے ویسے نہیں، بہت بڑے عاشق۔ برسوں عشروں سے کتابیں جمع کررہے ہیں۔ اور کیسی کتابیں؟ نادر و نایاب کتابیں۔ انھیں ہر کتاب کا پہلا ایڈیشن چاہیے۔ آپ کے پاس دس بیس سال، چالیس پچاس سال پرانی کتابیں ہوں گی۔ ان کے پاس سو ڈیڑھ سو سال پرانی کتابیں بھی ہیں۔ میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ان کے کتب خانے سے استفادہ کرکے مکمل کیا۔ جب آپ کہتے ہیں کہ آپ نے کسی کتاب کا 2014 کا ایڈٰیشن دیکھا تو اور بات ہے۔ جب آپ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ 1914 کا ایڈیشن دیکھا تو کچھ اور بات ہے۔

 تو جناب ایک دن علامہ صاحب نے سوچا کہ پچاس سال سے کتابیں جمع کررہا ہوں، کیوں نہ ان کی جلدبندی کروالی جائے۔ اس طرح ان سب کی زندگی بڑھ جائے گی۔

 

وہ کتابوں کا ایک ڈبا بھر کے کسی دکان پر پہنچے اور مدعا بیان کیا۔ دکان میں فوٹوکاپی کی کئی مشینیں لگی ہوئی تھیں اور ایک دو جلدساز بھی بیٹھے تھے۔ گاہک بہت تھے۔ صاحب دکان نے کہا کہ ڈبا چھوڑ جائیں۔ کل پرسوں تک کام ہوجائے گا تو آکر لے جایئے گا۔ علامہ صاحب خوش خوش رخصت ہوئے۔

 چار دن بعد اس دکان پر پہنچے تو دکان دار کو کچھ یاد نہ تھا۔ اس نے کبھی اِس سے پوچھا، کبھی اُس سے پوچھا، سب نے کہا، کون سا ڈبا؟ معلوم ہوا کہ دکان میں رش رہتا ہے، شاید کوئی شخص وہ ڈبا اٹھاکر لے گیا۔ علامہ صاحب نے سر پیٹ لیا۔

 اب انھوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی کتاب دکان پر نہیں چھوڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی جلدساز میرے گھر آکر کام کردے تو مناسب معاوضہ دوں گا۔ ایک جلدساز تیار ہوگیا۔ وہ ان کے گھر آنے لگا۔ کتابیں بہت تھیں۔ کام زیادہ تھا۔ علامہ نے اسے لائبریری میں بٹھا دیا۔

 جلدساز ایک بیگ ساتھ لاتا تھا۔ اس میں بھی کتابیں بھری ہوتی تھیں۔ انھوں نے ایک دن پوچھا کہ یہ کس کی کتابیں ہیں۔ جلدساز کہتا، یہ لوگوں نے جلد باندھنے کو دی ہیں۔ یہاں آتے ہوئے راستے میں لیتا آتا ہوں۔ ان کا کام رات کو گھر پر کرتا ہوں۔ علامہ مطمئن ہوگئے۔

 ایک دن جلد ساز غائب ہوگیا۔ علامہ نے اس کا انتظار کیا۔ کئی دن نہ آیا تو اپنے کتب خانے کی خبر لی۔ پتا چلا کہ ان کی ساڑھے چار سو قیمتی کتابیں غائب ہیں۔ وہ جلدساز اپنے بیگ میں عام کتابیں بھر کے لاتا رہا۔ ان کی جلدیں باندھ کر کتب خانے میں رکھتا اور قیمتی کتابیں ساتھ لے جاتا۔

 علامہ صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا۔ وہ حال ہوا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا نہیں کہ کتابوں کا وہ قدر شناس کہیں بھاگ گیا۔ انھیں اس کا گھر معلوم تھا۔ وہ وہاں پہنچ گئے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کے کہا، غریب آدمی ہوں، کتابیں بیچ کر پیسے کھا گیا۔ اب جی چاہے تو معاف کردیں، جی چاہے تو سزا دیں۔‘‘

 اتنا کہہ کر ڈاکٹر صاحب خاموش ہوگئے اور اپنی کتاب کا وہ صفحہ غور سے دیکھنے لگے جس پر انھوں نے علامہ کا نام لکھ کر دستخط کیے تھے۔ میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوا کہ علامہ صاحب کے بارے میں بدگمانی کی۔

 واپسی آتے ہوتے راستے بھر یہی سوچتا رہا کہ مبشر صاحب، نہ آپ ایسے علامہ ہیں کہ کتابیں بار بار کھول کے دیکھیں، نہ دل کے اتنے مضبوط کہ نقصان برداشت کرسکیں، نہ اس قدر پیسے والے کہ دوبارہ اتنی کتابیں جمع کرسکیں۔ اپنے کتب خانے کی کتابیں ننگی بَچی ہی بھلی۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author