نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خاک کربلا کی سرخ تسبیح اور ایک نیا نیا عقیدت مند||مبشرعلی زیدی

جس سال الیاس بھائی نے زنجیر لگائی، اسی سال النور پر کسی ڈاکو نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی۔ الیاس بھائی نے مزاحمت کی۔ ڈاکو نے انھیں گولی ماردی۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انچولی میں خدا جانے کس نے یہ روایت ڈالی کہ ہر پرچون فروش کو خالو کہا جاتا تھا۔ ہمارا کرائے کا مکان جس سڑک پر تھا، وہاں تین چار خالوؤں کی دکانیں تھیں۔

انچولی شیعہ اکثریت کا محلہ ہے۔ محرم نہ بھی ہو تو آئے دن مجالس ہوتی رہتی ہیں۔ میلاد بھی ہوتے ہیں۔ لوگ سارا سال نوحے سنتے ہیں۔ کربلا کی نسبتیں اور شیعہ محاورے بول چال کا حصہ ہیں۔ کسی متعصب غیر شیعہ کے لیے ایسے محلے میں رہنا آسان نہیں۔

ایک غیر شیعہ خالو بہت ملنسار اور خوش مزاج تھے۔ اب میں انھیں یاد کررہا ہوں تو علامہ تقی ہادی یاد آرہے ہیں۔ ویسا ہی چھوٹا قد، ترشی ہوئی خوبصورت داڑھی اور بوڑھی آواز۔ خالو شیعہ مخالف نہیں تھے لیکن متعصب شیعوں میں مسلسل رہنے کی وجہ سے کبھی کبھی ردعمل کا شکار ہوجاتے تھے۔ ہنسی مذاق بھی کرتے تھے۔

میں اکثر ان کی دکان پر جاتا تھا کیونکہ تازہ پان قریب پاس کہیں اور نہیں ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ امی خانیوال میں بنگلہ پان منگواتی تھیں لیکن کراچی میں سانچی پان زیادہ کھایا جاتا ہے۔ بنگلہ پان شاید کچھ تلخ ہوتا ہے۔

خالو اور ان کا پورا گھرانہ کٹر مذہبی تھا لیکن ایک بیٹے نے پتا نہیں کیسے راستہ بدل لیا۔ منو بھائی فنکار آدمی تھے اور زیادہ لوگوں سے میل جول نہیں تھا۔ کم از کم میں نے انھیں کبھی مجلسوں میں نہیں دیکھا۔ ایک دن سنا کہ وہ شیعہ ہوگئے ہیں۔ گھر والے یقیناً خفا ہوئے ہوں گے۔ پھر خالو انچولی چھوڑ کر کسی اور علاقے میں چلے گئے۔ اس بات کو بہت سال ہوچکے ہیں۔ خالو کا انتقال ہوچکا ہے۔ پرانے محلے کی نئی نسل کو ان کا نام تک معلوم نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ میں بھی انھیں بھول جاتا۔ لیکن ہر سال منو بھائی سے ایک ملاقات ہوتی رہی۔ وہ شب عاشور کو انچولی میں برآمد ہونے والے جلوس میں ضرور شرکت کرتے ہیں۔

الیاس بھائی فیڈرل بی ایریا بلاک سترہ میں کرکٹ گراؤنڈ کے سامنے رہتے تھے۔ انچولی یعنی بلاک بیس سڑک کے دوسری طرف ہے۔ ادھر متعصب شیعہ اکثریت اور ادھر متعصب سنی محلہ۔ سڑک کے پار لوگوں کی زیادہ دوستیاں نہیں۔

لیکن الیاس بھائی بھٹک کر اس طرف آگئے۔ نوے کا عشرہ تھا اور کراچی میں ڈبو کا زور تھا۔ یہ کیرم جیسا انڈور کھیل ہے۔ اس کا بورڈ کیرم سے دوگنا تین گنا بڑا ہوتا ہے۔ اسٹرائیکر بھی بھاری ہوتا ہے جسے دھکیلنا کیرم کھیلنے والوں کے بس کی بات نہیں۔ کوئن سرخ کے بجائے سبز اور ایک کے بجائے تین ہوتی ہیں۔ اس کوئن کو ڈبو کہا جاتا ہے۔

الیاس بھائی ڈبو کھیلنے کے شوقین تھے۔ ہر شام انچولی میں پائے جاتے۔ میں ان کا سراپا یاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ وہ تب ایسے تھے جیسا آج میں ہوچکا ہوں۔ چھوٹا قد، پیٹ نکلا ہوا، آنکھوں پر چشمہ۔ بال البتہ کالے تھے اور رنگ کچھ گہرا۔

ڈبو کا نشہ ہیروئن سے بھی شدت والا ہوتا تھا۔ کھیلنے والے تمام مصروفیات منسوخ کرکے ڈبو پر آجاتے تھے۔ لیکن محرم کے پہلے عشرے میں ڈبو بند ہوجاتا۔ شیعہ کھلاڑی مجلسوں میں چلے جاتے۔ الیاس بھائی کیا کرتے تھے، مجھے معلوم نہیں۔ معلوم ہے تو صرف اتنا کہ الیاس بھائی نے محرم میں سیاہ لباس پہننا شروع کردیا۔ وہ جلوسوں میں دکھائی دینے لگے۔ میں نے کبھی زنجیر کا ماتم نہیں کیا لیکن انچولی کی مین روڈ پر خون کا ماتم ضرور دیکھتا تھا۔ ایک سال دیکھا کہ الیاس بھائی قمیص اتارے زنجیر تھامے کھڑے ہیں۔ یاحسین کا نعرہ لگا تو انھوں نے زنجیر چلانی شروع کردی۔ میں حیرت سے انھیں دیکھتا رہ گیا۔

ممکن ہے کہ الیاس بھائی کی کوئی منت پوری ہوئی ہو۔ بہت سے لوگ منتی ماتم کرتے ہیں۔ یعنی میرے ہاں بیٹا ہوا تو خون کا ماتم کروں گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین کسی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔

لیجیے، علامہ ضمیر اختر نقوی پھر یاد آگئے۔ انھوں نے واقعہ سنایا تھا کہ ایک صاحب کے گیارہ بچے پیدا ہوکر مر گئے۔ بارہواں بچہ ہونے والا تھا۔ ماں باپ خدشات کا شکار تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ حسین کے در پر جاؤ اور منت مان لو کہ بارہویں کا نام بارہویں کے نام پر رکھوں گا۔ انھوں نے منت مان لی۔ بچہ پیدا ہوا اور جی گیا۔ والدین نے اس کا نام مہدی حسن رکھا۔ استاد غزل گائیک ساری زندگی انچولی میں رہے اور وہیں سے جنازہ اٹھا۔

اتفاق سے مہدی حسن کے دو بیٹے وارث اور عمران میرے کلاس فیلو تھے۔
ایک اور دوست تنویر اب بھی انچولی میں رہتا ہے۔ وہ بھی شیعہ نہیں۔ اس کے والدین کے ہاں بہت عرصے اولاد نہیں ہوئی۔ آنٹی نے منت مان لی۔ تنویر صاحب پیدا ہوئے تو ان کے کان میں بندہ ڈالا گیا جو شاید آج بھی پڑا ہے۔ وہ محرم میں کڑا پہنتا ہے اور حلیم کی نیاز کرواتا ہے۔

الیاس بھائی کا ذکر مکمل نہیں ہوا۔ ایک دن انھوں نے ڈبو کھیلتے ہوئے بتایا کہ ڈاکوؤں نے ان کے بھائی سے نئی موٹرسائیکل چھین لی۔ سب نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ الیاس بھائی نے کہا کہ ان کا بھائی ڈر گیا۔ وہ ہوتے تو ڈاکو موٹرسائیکل نہیں چھین سکتے تھے۔ دوستوں نے مذاق اڑایا۔

جس سال الیاس بھائی نے زنجیر لگائی، اسی سال النور پر کسی ڈاکو نے ان سے موٹرسائیکل چھیننے کی کوشش کی۔ الیاس بھائی نے مزاحمت کی۔ ڈاکو نے انھیں گولی ماردی۔
میں الیاس بھائی کے جنازے میں گیا تھا۔ بلاک سترہ سے زیادہ بلاک بیس کے لوگ انھیں الوداع کہنے آئے تھے۔
۔
میں نے ونڈسر پبلک اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ وہاں ایک کلاس فیلو شیعوں سے سخت نفرت کرتا تھا۔ اسے میرے بارے میں علم نہیں تھا۔ ایک دن انجانے میں اس نے میری سامنے خوب بھڑاس نکالی۔ زور اس بات پر تھا کہ شیعے معجزہ معجزہ کرتے رہتے ہیں۔ کدو کوئی معجزہ نہیں ہوتا۔

میں نے کہا کہ ہاں، مجھے بھی کوئی یقین نہیں۔ لیکن عاشور کے دن عصر کے وقت ذکر حسین کیا جائے تو خاک کربلا کی تسبیح سرخ ہوجاتی ہے۔ اسے اگر معجزہ کہا جائے تو یہ میں ہر سال دیکھتا ہوں۔ تسبیح کربلا کی مٹی کی نہ ہو تو سرخ نہیں ہوتی۔ عاشور کا دن نہ ہو تو سرخ نہیں ہوتی۔ عصر کا وقت نہ ہو تو سرخ نہیں ہوتی۔ ذکر حسین نہ ہو تو سرخ نہیں ہوتی۔

کلاس فیلو نے میرا مذاق اڑایا اور بات آئی گئی ہوگی۔ میں نے میٹرک کرلیا اور اس کلاس فیلو کا نام تک بھول گیا۔
بہت سال بعد ایک دن انچولی میں وہ شخص دکھائی دیا۔ عاشور کا دن تھا۔ عصر کا وقت تھا۔ ذکر حسین تھا۔ خاک کربلا کی تسبیح تھی اور ایک نیا نیا عقیدت مند تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author