سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں کورونا کے وار ایک مرتبہ پھر تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں جس پر حکومت پھر ایکشن میں نظر آرہی ہے اور پابندیاں مزید سخت اور بڑھانے کی باتیں کی جارہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کب خوابِ غفلت سے جاگیں گے کیونکہ کورونا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے وار ملک کو ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون کی طرف دھکیل رہے ہیں جس کا وطن عزیز کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا خاص طور پر اس وقت جب بدترین مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث عوام کے لئے زندگی ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔ ایسے میں جب حکومت کے پاس کورونا کی شرح میں اضافے کے باعث لاک ڈائون کے سوا کوئی دوسرا آپشن باقی رہے گا تو پھر کیا ہوگا کیونکہ عوام کی تو پہلے ہی کمر ٹوٹ گئی ہے اور کاروباری طبقہ کورونا کے باعث شدید دبائو کا شکار ہے کہ ابھی تک ان پر پابندیاں عائد ہیں اور اگر کورونا خدانخواستہ مزید بڑھتا ہے تو یا تو حکومت کاروباری مراکز، ہوٹل، ریسٹورنٹ سمیت دیگر چیزوں کو مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہوگی یا پھر اس کے اوقات کار میں مزید کمی کی جائے گی۔ اب تو کاروباری طبقہ خود اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہے ایسے میں مزید لاک ڈائون انہیں دیوار سے لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ اگر کاروباری طبقے کی یہ صورتحال ہے تو عام غریب آدمی کی کیا حالت ہوگی۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ عوام کی جانب سے کورونا کنٹرول کرنے کے لئے کسی قسم کی حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں کیا جارہا جس کے باعث کورونا کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف کورونا کے بعد دنیا کھلنے کی طرف جارہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون لگنے کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ لاک ڈائون کا نقصان وطن عزیز کو بھگتنا پڑتا ہے اور حکومت کے لئے بھی یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور مشکل فیصلہ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک کھلا سچ ہے کہ ابھی تک تو حکومت کی اچھی اور موثر کورونا پالیسیوں کی بنا پر وطن عزیز بڑی تباہی سے بچا رہا ہے لیکن اس کے باوجود کورونا نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ معیشت جو پہلے ہی ویٹی لیٹر پر زندہ ہو، کورونا کے ڈیڑھ برس میں ان کی کیا درگت بنی ہوگی، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔
یہ درست ہے کہ کورونا کو کنٹرول کرنا صرف اکیلے حکومت کا ہی فرض نہیں ہے بلکہ اس کے لئے سب کو اپنے حصہ کا قومی کردار ادا کرنا چاہیے تبھی جاکر کورونا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ کورونا سے جتنا تعلیمی شعبہ متاثر ہوا ہے اتنا شاید ہی کوئی دوسرا شعبہ متاثر ہوا ہو۔ ڈیڑھ برس گزرنے کے باوجود آج تک سکول، کالجز، یونیورسٹیاں صحیح سے کھل نہیں پائی ہیں جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو بالکل ہی ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔ کورونا سے قبل یہ تعلیمی ادارے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے تھے لیکن افسوس کہ حکومت کی جانب سے اس اہم سیکٹر کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اسی لئے تو آج بڑے بڑے تعلیمی ادارے ختم ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ایک طرف غربت کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں تو دوسری طرف کورونا نے غربت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے غربت کنٹرول کرنے کے لئے تاحال کوئی جامع لائحہ عمل مرتب نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے جواں پروگرام اور اپنا گھر سکیم جیسے عمدہ منصوبے تو شروع کئے لیکن سچ تو یہ ہےے کہ ان سے عوام اس طرح سے مستفید نہیں ہوپارہی جس کی توقع کی جارہی تھی جس کے باعث ان پروگرامز کی ناکامی کے خدشات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
حکومت کورونا کی روک تھام کے لئے اپنے تئیں اقدامات تو کررہی ہے لیکن اس حوالے سے میڈیا میں آگاہی مہم جس زوروشور کے ساتھ جاری رہنی چاہیے تھی ایسا نہیں ہوا جس کی بنیادی وجہ ہمارے لوگوں کا کورونا کو صہیونی سازش سمجھنا ہے۔ اور یہ تو بھلا ہو حکومت کا کہ اس نے کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کی سمیں بلاک کرنے کی تڑی لگائی وگرنہ لوگ تو شروع میں ویکسیی نیشن سے بھی کترارہے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر حکومت پاکستان کی کورونا کی پالیسیوں کو سراہا جارہا ہے تو توقع کی جارہی ہے وزیراعظم عمران خان اپنے عمدہ وژن کے باعث کورونا کی نئی لہر سے بھی کامیابی سے سرخرو ہوکر نکلیں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام بھی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے۔
ڈیڑھ برس کا عرصہ کوئی پالیسی بنانے کے لئے کافی ہوتا ہے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ حکومت کی جانب سے تعلیم، بیروزگاری، غربت اور کاروبار سمیت دیگر معمولات زندگی کو کورونا کی موجودگی میں کیسے نارمل رکھا جاسکتا ہے، بارے کوئی لائحہ عمل تاحال تیار نہیں کیا گیا حالانکہ ماہرین صحت چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کورونا کو مکمل طور پر ختم ہونے میں 7سے 8برس لگیں گے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ایک مرتبہ پھر لاک ڈائون کو ہی آخری آپشن سمجھے گی؟ وقت آگیا ہے کہ حکومت عوام کو یہ باور کروائے کہ اب انہیں کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنی پڑے گی خاص طور پر اس وقت جب کورونا کا واحد علاج صرف اور صرف احتیاط ہی ہے اس لئے حکومت پر لازم ہے کہ وہ عوام کو کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایت کرے اور عوام کو اس حوالے سے Incentive فراہم کرے اور وہ لوگ جو مسلسل ماسک اور سماجی فاصلوں کے اصولوں پر عمل کررہے ہیں ان کو سرٹیفکیٹ دے اور ان کے اعزاز میں تقاریب منعقد کرے تبھی جاکر عوام میں کورونا سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی خواہش بڑھے گی۔
مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میںعوام کو قوانین کی پابندی پر سراہا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان بھی اس قسم کی سرگرمیوں کو فروغ دے تاکہ عوام اپنے تئیں ہی کورونا کی حفاظتی تدابیر پر عمل کریں کیونکہ صرف لاک ڈائون لگاکر کاروباری مراکز کو بند کردینا کورونا جیسی طویل اور صبرآزما بیماری کا علاج نہیں بلکہ اس کے لئے حکومت کو جامع اور لانگ ٹرم پالیسی اپنانی چاہیے تاکہ کورونا سے ڈرنے کی بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ شہروں کی مقامی انتظامیہ کو پابند کرے کہ وہ اپنے دفاتر میں بیٹھنے کی بجائے عوام میں کورونا سے نمٹنے کے طریقے بتائیں کیونکہ اگر ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ کورونا بڑھتا ہے تو پھر حکومت لاک ڈائون کی طرف جائے گی جس کا حکومت اور عوام دونوں کو ہی بہت نقصان ہوگا اس لئے ضروری ہے کہ حکومت ایسی جامع پالیسیاں اپنائے کہ کاروبار بھی چلتا رہے، تعلیمی ادارے بھی کھلے رہیں اور کورونا بھی نہ بڑھے اس کے لئے حکومت کو ہر سطح پر عوام کو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دلوانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور میڈیا میں بھی روزانہ کی بنیاد پر کورونا سے بچائو اور اس کے اثرات کے حوالے سے کم از کم 2گھنٹے کے پروگرام نشر کئے جانے چاہئیں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی میٹنگ بلاکر ان سے کورونا کے حوالے سے سے کئے جانے والے اقدامات بارے بھی جواب طلب کرنا چاہیے جبکہ پولیس اور سماجی رضاکاروں سے سڑکوں پر ماسک کے بنا گھومنے والوں کے لئے ایسی اصلاحی سزائیں متعارف کروائی جائیں جیسے وہ شخص جو سڑک پر ماسک کے بغیر آئے اس سے ایک ہفتے تک بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری عائد کی جائے۔جبکہ دیگر کو 100پودے 5دن میں لگانےکا پابند کیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی دکانیں یا کاروباری مراکز کورونا کے ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے تو پھر انہیں عوام کو 10فیصد رعایت دلوانے دو یوم کے لئے دینے کی سزا دی جائے۔ اس قسم کی اصلاحی سزائوں سے کوروناکے کیسز میں یقیناً بڑی کمی آئے گی اور پاکستان ایک مرتبہ پھر عالمی برادری کی نظروں میں سرخرو ہوگا کہ کس طرح عمدگی کے ساتھ کورونا جیسی نگوڑی وبا کا مقابلہ کیا گیا وگرنہ گھی 16روپے سے 18روپے فی کلو اضافے کی آئے روز کی خبروں نے تو عوام کو زندہ درگور کر ہی دیا ہے اور رہی سہی کسر نان فائلر صارفین کو 25ہزار سے زائد بل پر 8ہزار روپے جی ایس ٹی شامل کرنے کا مقصد تو انہیں شاید خودکشی پر ہی مجبور کردے۔ حالات کی چکی میں پسے عوام تو پہلے ہی مہنگائی کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، لاک ڈائون کے بعد مہنگائی کے مزید اضافی بوجھ کو وہ کیسے اور کیونکر اٹھاپائیں گے اس بارے حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے اور عوام کو بھی کورونا سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بھی اسی وقت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک پائیں گے جب کورونا کے ایس او پیز پر اصلاحی سزائوں کے نفاذ کے ذریعے یقینی بنایا جائے گا، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ