اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کلیات ڈاکٹر خیال امروہوی ||جاوید اختر بھٹی

ڈاکٹر انقلابی نظریات کے شاعر تھے ۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ اپنا تعلق آفاقیت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے  وہ کسی خاص نظریے کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ لیہ میں رہے وہا ں وہاں انہوں نے ادبی حلقے کو تقویت دی ۔ اچھا شعر کہنے والے شاگر د تیا ر کیے۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

       ڈاکٹر خیال امروہوی قادرالکلام شاعر تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی لیہ میں بسر کی ۔ ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ادب کی خدمت کررہی ہے ۔ جو چراغ انہوں نے جلائے ان کی روشنی آج بھی قائم ہے۔ جسار ت خیالی کو ان کی شاگردی کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے برسوں بعد اپنے استاد کوخراجِ عقیدت پیش کیا ۔ فراموشی کی عادت اختیار نہیں کی اپنے استادکے کلام کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے ایک بڑا کا رنامہ سرانجام دیا ۔ خیال صاحب کے آٹھ شعری مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے ۔ جسارت صاحب نے اسے ” کلیات خیال امروہوی ” میں یکجا کر دیا ۔ ان آٹھ مجموعوں کی ترتیب یوں ہے۔

1۔مقتل ِجان (1967ئ)

2۔گنبدِ بے در(1973ئ)

3۔لمحوں کی آنچ (1975ئ)

4۔عصرِ بے چہرہ (1982ئ)

5۔خلیج طبقات (1983ئ)

6۔تلخاب (1988ئ)

7۔ملوکیت شکن (1996ئ)

8۔ طلوع ِ فردا (2005ئ)

kuliat-e-khial-amrohi_jehed

خیال صاحب 10دسمبر 1930ء میں ضلع بٹیر ، حیدر آباد دکن بھارت میں پیدا ہوئے ۔1942ء میں جامعہ حیدرآباد دکن سے فاضل علوم السنہ شرقیہ کاامتحان پاس کیا ۔1943ء میں انگریزی کا پرچہ دے کر مدرسہ فوقانہ عثمانیہ ضلع بٹیر سے میٹرک کیا ۔ 1944ء میں حید رآباد دکن سے اردوفاضل کیا ۔ 1945ء میں ایف اے1947ء میں بی اے اور1949ء ایم اے فارسی کیا ۔ 1969ء میں ایران چلے گئے ۔ اور” عقائد متروک” کے موضو ع پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا ۔ 2009ء میں خیال صاحب کا انتقال ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر 79 بر س کے قریب تھی۔ وہ فارسی ادب کے استاد تھے ان کے حالات کبھی اچھے نہ رہے ۔ وہ گورنمنٹ کالج لیہ سے ریٹائر ہوئے اور بھٹو کی پانچ مرلہ اسکیم میں اپنا گھر تعمیر کرایااور یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ممکن ہوا۔

گنبدے بے در (1973ئ)کے دیباچے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ۔

” شاعری کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے ۔ کہ اسے آفاقی حیثیت کا حامل ہونا چاہیے ۔ شاعر کبھی کسی بھی ازم یا تحریک سے وابستہ رہ کر آفاقی شاعر نہیں کہلا سکتا ۔ شاعر آفاقی تمدن کا جراح بھی ہے اور مرہم اندازبھی!وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہرملت کے افراد اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔

اس مجموعے سے چند اشعار:

زوال ِ ملت مظلوم کس سے مخفی تھا ؟
اس حادثے سے کئی لو گ بے خبر بھی ملے

جس شکل سے ہیں راہنما دست و گریباں
اس حشر میں تعمیر کی امید اٹھا رکھ

مزے کا تصور بھی صحرائے وفا میں
اس وقت میں اڑتی ہے مگر خا ک زیادہ

چند معروف شعراء کی رائے۔

خیال صاحب کی شاعری عام طور پر علم و فکر اور منطق کی شاعری ہے جسے وہ احساس اور جذبات سے مزین کر کے قاری کے دل لوٹ لیتے ہیں۔ زبان کے بارے میں وہ بہت محتاط ہیںاور اپنے اظہار میں لفظوں کے انتخاب اور دردبہت کاخیال رکھتے ہیں۔(ظہیر کاشمیر ی)

khial-amrohi_poet_jehed

”ڈاکٹر خیال امروہوی اپنی انفرادی انا اور پسند کے اس شدت سے طرف دار اور محافظ ہیں کہ اس ضمن میں کسی لائق ، تمنا اختلاف یا دوستانہ مشورے کو لفٹ دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے”       (عدم)

خیال کے یہاں کہیں کہیں شدت احساس جب شدت اظہار کی انتہائی حدوںمیں قدم رکھتی ہے توان کا فنی جمال متاثرہوتا ہے”              (عاصی کرنالی)

عصرِ بے چہرہ (1982ئ)میں رئیس امروہوی ،ڈاکٹر انور سدید ، رشید قیصرانی، اور نسیم کی آرا درج ہیں ۔

رئیس امروہوی لکھتے ہیں ۔

عصرِ بے چہرہ ان کا تازہ مجموعہ کلام ہے ۔ خیال کو شعر پہ جو گرفت اورمعانی و اسالیب کا جو عرفان حاصل ہے ۔ وہ اس مجموعے میں پوری تاب وتوانائی سے نظر آتاہے ۔ وہ اپنے کو ایک ایسے عصر اور عہد کے روبر و پاتے ہیں ۔ جس کے خدوخال مدہم اور نقش و نگار دھند لا چکے ہیں۔

چند اشعار۔

چلیں گے بزم میں یو ں اجرتوں کے پیمانے
کھنک میں ان کی نیا سازِ گفتگو ہو گا

تاریخ اچھالے گی اس مردِ جری کو
عظمت کا نشان جس کے لیے ٹاٹ رہا ہے

یک عمل ہو کے عمارت کا اٹھاؤ ملبہ
تاکہ صدیوں کی روایا ت کا انبار اُٹھے

ڈاکٹر انقلابی نظریات کے شاعر تھے ۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن وہ اپنا تعلق آفاقیت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے  وہ کسی خاص نظریے کا اقرار نہیں کرتے۔ وہ لیہ میں رہے وہا ں وہاں انہوں نے ادبی حلقے کو تقویت دی ۔ اچھا شعر کہنے والے شاگر د تیا ر کیے۔

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: