اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بٹوارے کے 74سال بعد۔۔۔؟||حیدر جاوید سید

فقیر راحموں تو کہتے ہیں عقیدے تاریخ سے رزق پاتے ہیں۔ بات یہ بھی درست ہے حالانکہ تاریخ بذات خود ا یک شناخت ہے ۔ ہمیں اسے عقیدے کی عینک سے یا بٹوارے میں ٹوٹے ہوئے شیشوں کے پیچھے سے گھور گھار کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصولی طورپریہ کالم چند دن قبل تحریر کرنا چاہئے تھا تاکہ 14اگست کے دن اس کی اشاعت ہوتی۔ اچھا ویسے اس ملک میں کوئی اصول ‘ ضابطہ رہا یا ہے ؟ اس بارے بھی کبھی کبھار سوچ لینا صحت کیلئے اچھا رہے گا گزشتہ شب عبدالحسن معروف کی ای میل موصول ہوئی انہوں نے لکھا وہ مردان کے ایک گاوں سے تعلق رکھتے ہیں اب امریکہ میں ہوتے ہیں۔ اپنے آبائی علاقے اور صوبے کے لوگوں کی خیر خیریت جاننے کے لئے پشاور سے شائع ہونے والے اخبارات کا پچھلے بیس برسوں سے نیٹ پر مطالعہ کرتے ہیں۔ غالباً یہ مطالعہ ہی مجھ قلم مزدور سے ذریعہ تعارف بنا ہو گا ۔ ورنہ ہمیں تو کل پھر فقیر راحموں نے پہچاننے سے انکار کر دیا تھا ۔ خیر یہ الگ "شٹوری” ہے پھر کبھی سہی ‘ فی الوقت عبدالحسن معروف کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "پاکستان کو جناح صاحب کی 11 اگست 1947ء والی تقریر سے رہنمائی لینی چاہئے تھی ( وہ خطاب جو دستور ساز اسمبلی میں کیا گیا ، اصل میں ریاست کے لئے پالیسی بیان تھا۔) اس سے انحراف نے ہمیں یعنی اہلِ پاکستان کو دکھوں اور مصائب کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مارشل لاوں کے نام پر احتساب سے مذاق اور جمہوریت کے نام پر جمہور کی توہین ہوتی ہے ۔ معروف کے خیال میں پاکستان کو بدلتے ہوئے حالات میں نئے دستور کی ضرورت ہے ۔ جمہوریت پسند نئی دستوری ضرورت کو جتنی جلدی تسلیم کر لیں گے اپنے لوگوں کا بھلا کریں گے” ۔ معروف یہ بھی لکھتے ہیں کہ "غیر طبقاتی نظام بھی فیڈریشن کے مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے ‘ موجودہ نظام چند محکموں اور طبقات کا محافظ ہے اس لئے عام آدمی کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے” ۔ اپنی ای میل کے آخر میں انہوں نے لکھا "یقیناً میں سفر زندگی مکمل کرکے اپنے بزرگوں کے پہلو میں آبائی قبرستان میں تدفین کا خواہش مند ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میرے بچے اپنے نئے وطن میں ہی مجھے محفوظ کر لیں گے "۔ عبدالحسن معروف مکتوب کے تازیانے برسانے کا عمل جاری ہے ‘ اس تحریر نویس کے لئے تو اس میں اختلاف والی کوئی بات نہیں مادر وطن سے دور برسوں اور عشروں سے آباد لوگ کھلی فضا اور بہتر نظام میں آزادی کے ساتھ سوچ سمجھ سکتے ہیں ان کے مشوروں ‘ خیالات اور آراء پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے ہمیں کھلے دل سے غور کرنا چاہئے ۔ ایک طویل عرصہ سے میں یہی سمجھتا ہوں کہ جس دن ہمیں آزادی اور بٹوارے کا فرق سمجھ میں آجائے گا ہم آزادی کیلئے جدوجہد کریں گے اب یہ فرق ہمارے بعد کی نسل سمجھتی ہے اس سے اگلی اس بارے پیشنگوئی مشکل ہے۔
پچھلے دو تین عشروں سے جب بھی وقت ملا اس بات پر غور ضرور کیا کہ یہ خطہ جس پر پاکستان بنا اس کی قدیم اقوام کے حصے میں کیا آیا؟ جو بات سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے حصے میں بٹوارے کے دکھ چار مارشل لاء ‘ شدت پسندی اور اطاعت کے سوا کچھ نہیں آیا ۔14اگست 1947ء سے قبل ہم عوام تھے اس کے بعد سے اب تک رعایا ہیں۔ رعایا کا کام فقط اطاعت بجا لانا اور مشقت کرتے رہنا ہوتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی جو چیز سب سے زیادہ مرغوب ہے وہ بٹوارے کی نفرت ہے ‘ اس سے ایک نہیں درجنوں مسائل پیدا ہوئے ۔ بالادست طبقات نے ہمیں غلط راہ پر لگا کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ ہر پانچ دس سال بعد پرانی شراب نئی بوتل میں فروخت کی گئی بظاہر مالک نیا تھا اور ہے لیکن فرنچائزری وہی پرانے ہیں۔ آپ 2018ء کی مثال پر غور کر لیجئے ۔ ساری کہانی سمجھ میں آجائے گی اب دیکھنا یہ ہے کہ مالکان آنے والے برسوں میں کس "سودے” کی منڈی لگوائیں گے ۔
جو بات ہم انفرادی اوراجتماعی طورپر سمجھنا نہیں چاہتے وہ یہ ہے کہ ریاست ‘ مساوات ‘ انصاف ‘ عوام کے حق حکمرانی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے قائم رہتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ دنیا کی زیادہ نہیں تو کم و بیش دو ہزار سال کی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے ‘ اب یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے یہاں تاریخ عقیدوں سے رزق حاصل کرتی ہے ۔
فقیر راحموں تو کہتے ہیں عقیدے تاریخ سے رزق پاتے ہیں۔ بات یہ بھی درست ہے حالانکہ تاریخ بذات خود ا یک شناخت ہے ۔ ہمیں اسے عقیدے کی عینک سے یا بٹوارے میں ٹوٹے ہوئے شیشوں کے پیچھے سے گھور گھار کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل سوال یہ ہے کہ اس بٹوارے نے انڈس ویلی کی اقوام کو کیا دیا؟ زیادہ جذباتی نہ ہوں اور ناہی معاشرتی علوم کے رٹے ہوئے اسباق کی چند سطور کو لاٹھی بنا کر برسانے کا شوق پورا کرنے کی کوشش کریں۔ نیم مردہ معاشرے میں بھی سوال سانسوں سے زیادہ بلند ہوتے ہیں ۔ پچھلے74برسوں میں اگر اس ملک میں عادلانہ نظام مساوات جمہور کا حق حکمرانی دستور(جیسا بھی ہے) کی بالادستی قائم کیوں نہیں ہو پائی؟ اس میں بدقسمتی سے دو آراء ہیں مالکان کے وفادار ان سارے جرائم کو سیاستدانوں کے کھاتے ہیں میں ڈالتے ہیں طالب علم ان سے متفق نہیں۔ پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ چوہتر برسوں میں سیاستدان کتنے ہوئے اس ملک میں جب تک یہ حساب نہ ہو جائے سیاستدانوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔
برطانوی استعمار کی تربیت یافتہ اسٹیبلشمنٹ اور حاکم طبقات چہرے بدل بدل کرہی مسلط ہوئے اور اب بھی ہیں مثلاً یہ خان ‘ سردار ‘ چوہدری ‘ سید ‘ مخدوم ‘ کھچی ‘ ٹوانے ‘ لغاری ‘ کھوسے ‘ یہ تو مالکان کے مالکوں کی لگائی ہوئی پنیریاں ہیں۔ عرض یہ کرنا مقصود ہے کہ وطن سے دور بیٹھ کر اگر عبدالحسن معروف جیسے زمین زادے اپنے لوگوں کو درپیش مسائل کی وجوہات کا تجزیہ کرکے حل پیش کر سکتے ہیں تو ہمیں آپ کو سوال اٹھانے ‘ تجزیہ کرنے اور اپنی فہم کے مطابق حل پیش کرنے سے کس نے روکا ہے؟۔
یہ ملک اس میں آباد تمام لوگوں کا ملک ہے لیکن بعض وجوہات اور اعمال و افعال کے ساتھ پالیسیوں سے یہ تاثر پختہ ہو گیا ہے کہ یہ ملک محض چند طبقات کا ہے ۔ یہ تاثر کیسے دور ہو گا۔ یہ اصل سوال ہے ۔
اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ دستور پر عمل ہو بہرصورت کسی محکمے یا ادارے کو دستور سے تجاوز یا من مانی تشریحات کی اجازت نہ ہو۔ من مانی تشریحات کی دو تازہ مثالیں عرض کی جا سکتی ہیں لیکن ان دنوں سرکار ہر اس شخص کو ملک دشمنوں کی فہرست میں ڈال رہی ہے جو دستور اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے ۔
اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم غور کریں کہ 74سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: