اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“ ماہان شاعر۔۔۔۔۔۔تلوک چند محروم”||تعارف احسان اعوان

ان کی پہلی شادی1910 ءمیں ہوئ۔ ایک لڑکی ودیا پیداہوئ پانچ سال بعد دوسری شادی کی جس سے ایک لڑکا جگن ناتھ آزاد 5دسمبر1918 ءمیں پیدا ہوا۔اس دوران ان کی 22 سالہ بیٹی نے سسرال میں اپنے جسم پر تیل چھڑک کر خود کو نذرآتش کر لیا۔

احسان اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“ ماہان شاعر۔۔۔۔۔۔تلوک چند محروم”
——————————————-
اردو اور فارسی کے معروف شاعر تلوک چند محروم دریاۓ سندھ کے کنارے عیسی خیل ( میانوالی) کے ایک چھوٹے سے گاؤں گاجراں میں جمعہ یکم جولائ 1887ء میں پیداہوۓ ۔ تلوک چند مشکل سے سال بھر کے ہوں گے کہ ان کا گاؤں دریا بُرد ہو گیا۔اس کے بعد ان کا خاندان کچہ نور زمان شاہ ( عمکان والا) منتقل ہو گیا۔تلوک چند نے ابتدائ تعلیم عیسی خیل میں حاصل کی۔ان کی مادری زبان سرائیکی تھی۔محروم کے والد بھگت رام سیال سرائیکی زبان میں کبھی کبھی کچھ موزوں کر لیتے تھے۔چچا لالہ دیال داس اردو اور فارسی سے واقف تھے۔
محروم نے 1902ء میں عیسی خیل سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ محروم کو شاعری سے بہت لگاؤ تھا، مگر یہاں ایسا ماحول تھا جہاں ادب تھا نہ ادیب۔ زمانہ طالب علمی میں محروم کی نظمیں ملک کے اخبارات اور رسائل میں شائع ہونی شروع ہو گئ۔ محروم نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ محروم نے بی اےاورSAVتک تعلیم حاصل کی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد معلمی کاپیشہ اختیار کیا ۔عرصے تک میانوالی ، کلور کوٹ اور میانوالی میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ مختصر عرصے کے لیے گارڈن کالج راولپنڈی میں اردو اور فارسی کے لیکچرر بھی رہے۔
ان کی پہلی شادی1910 ءمیں ہوئ۔ ایک لڑکی ودیا پیداہوئ پانچ سال بعد دوسری شادی کی جس سے ایک لڑکا جگن ناتھ آزاد 5دسمبر1918 ءمیں پیدا ہوا۔اس دوران ان کی 22 سالہ بیٹی نے سسرال میں اپنے جسم پر تیل چھڑک کر خود کو نذرآتش کر لیا۔
تُو مرنے پہ مجبور تھی تُو مرگئ جُل کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہم جینے پہ مجبور ہیں جل جل کے جئیں گے۔۔۔!۔!( محروم)
1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گۓ۔ وہاں پنجاب یونیورسٹی کے کیمپ کالج دہلی میں اردو پڑھاتے رہے.. محروم نے غزل کے علاوہ قومی ، سیاسی،اصلاحی اور نیچرل نظمیں بھی لکھیں۔ اس کے علاوہ بچوں کےلیے بھی نظمیں لکھیں ۔ محروم کی نظمیں ہمارے ملک پاکستان کے نصاب میں بھی شامل رہی ہیں ۔۔
تلوک چند محروم 6جنوری 1966ء کوولنگڈن نرسنگ ہوم دہلی میں اللہ کو پیارے ہو گۓ ۔میت اٹھانے والوں میں دو ہندو ایک مسلمان اور ایک سِکھ تھا۔ وفات کے دس دن بعد دسویں کی رسومات ادا کی گئ جس میں ہندوؤں نے مقدس کتاب “ گیتا” سکھوں نے “ گرنتھ صاحب”پڑھی اور مسلمانوں نے “ قرآن مجید” کی تلاوت کی۔
تصانیف۔۔۔۔۔۔
—————-
• گنج ِ معانی۔۔۔۔
•بچوں کی دنیا۔۔
• بہار طفلی۔۔۔۔۔
• شعلۂ نوا۔۔۔۔۔۔
• نیرنگِ معانی۔۔
• رباعیات محروم
• کلامِ محروم ۔۔
• کاروانِ وطن۔۔۔
• مہر شی درشن
• بہار نظم۔۔۔۔۔۔
تلوک چند محروم کے فن اور شخصیت پر بہت سی کتابیں لکھی گئ ہیں ۔
چند اشعار:۔۔۔۔۔۔۔
———————
مندر بھی ہم نے صاف کیے مسجدیں بھی صاف
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائ نہ ہو سکی۔۔۔۔۔۔!!
گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے۔۔۔
آخر شبِ تاریک کا انجام سحر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاھد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری۔۔!
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دین
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
فارسی قطعہ۔۔
——————
سی و پنج سال عمرم ملازمت بسر شد۔۔۔۔
سحرِ شباب خودرا ہمہ تیرہ شام کردم۔۔۔۔!!
چہ گوئمت چہ کردم دریں سی و پنج سالاں
بسگاں ادب نمو دم ، بخراں سلام کردم۔۔۔۔۔!
ترجمہ: میں نے پینتیس سال کاعرصۂ حیات ملازمت میں بسر کیا اور اپنی جوانی کی روشن صبح کو بالآ خر اندھیری شام میں بدل بیٹھا۔ تجھے کیا بتاؤں کہ میں نے ان پینتیس سالوں میں کیا کارنامے سرانجام دیے “کتوں کا ادب کرتا رہا اور گدھوں کو سلام کرتا رہا”
معروف ادیب وشاعر سید نصیر شاہ ( میانوالی )نے اس مشکل کام” بسگاں ادب نمودم، بخراں سلام کردم” کی وجہ سے ملازمت چند سال کرنے کے بعد استعفیٰ دےدیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:

احسان اعوان  دیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: