اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروفیسر شیخ عبداللطیف تپش ||جاوید اختر بھٹی

‘ ‘ پر وفیسر تپش صاحب کی ” تاریخی نثر ” بھی ایک لا ثانی ادبی شاہکار ہے جو نکتہ شنا س اہل علم سے ضرور خراجِ تحسین وصول کرکے رہے گا۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

          پروفیسر شیخ عبداللطیف تپش لاہور جیسے بارونق اور ادبی اعتبار سے بھرپور شہر سے ملتان تشریف لائے اور پھر ملتان ہی کے ہو گئے ۔ اسی سر زمین میں سپر د خا ک ہوئے ۔ میں پروفیسر تپش سے کسی حد تک بہت پہلے متعارف ہو گیا تھا ۔ جب میں نے اولاد علی گیلانی کی تاریخ ” مرقع ملتان ” (1938ء ) میں ان کی تصویر  اور دیباچہ دیکھا تھا ۔ ان کی تصویر پر لکھا تھا ۔ ” شیخ عبداللطیف تپش ۔ایم اے پرو فیسر ایمر سن کالج ” میری ایسے لوگوں سے ملا قات ہو ئی جو تپش مرحوم کے شاگرد تھے یا انہیں مشاعرے میں دیکھا ۔ ارشد ملتانی مرحوم نے اپنی ادبی زند گی کے ابتدائی دور میں ایک مشاعر ے میں شرکت کی تھی ۔ جس کے صدر تپش صاحب تھے ۔

پروفیسر شیخ  عبداللطیف تپش

            ” مر قع ملتان” کے دیبا چے میں تپش صاحب لکھتے ہیں ۔

            ”میرے محب صادق سید محمد اولاد علی گیلانی بھی اپنی مادرِ وطن کے فرزند رشید ہیں ۔ انہوں نے ملتان کی تاریخ لکھ صرف حق فرزند ی سے سبکدوشی حاصل نہیں کی ۔ بلکہ اس عَجوزَہ کہن سال کے لڑکپن اور شباب کی ساری داستانیں بیان  کردی ہیں۔  ملتان بہت قدیم شہر ہے ۔ سکندر بن فیلفوس کے زمانے میں یہ قوم مالی کا دارالخلافہ تھا اور اسی مالی قوم کی نسبت سے اس کانام ” مالی تان ” اور پھر کثرت استعمال سے ملتان ہوگیا ۔ مگر جنرل کنگھم کی رائے میں ملتان کی وجہ تسمیہ ” مول دیوتا” یعنی سورج کا مندر ہے ۔ 714ء میں جب محمد قاسم ثقفی نے اس شہر کو فتح کیا ہے تو وہ مندر موجود تھا ۔ بلا ذری (م۔ 875ئ) نے بھی سور ج کے بت کا ذکر کیا ہے ۔ ابن ہر قل 976ء میں کہتا ہے کہ بت آدمی کی شکل کا تھا ۔ اس کے بعد جب قرامطہ کا عمل دخل ہوا تو مند رکی جگہ کہتے ہیں مسجد بنائی گئی۔

            مبارک ہیں وہ ہستیاں جو اپنی راحت کے اوقات خاموشی اور خو د فراموشی میں نہیں ضائع کرتیں ۔ جو اطاعتِ الہی بسم اللہ کے گنبد میں اد انہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنے ابنائے جنس کی اصلاح قوم کی فلاح اور ملک کی خدمت کو اپنی پیدائش کا اصل منشا سمجھتے ہیں ۔محترمی سید محمد اولاد علی گیلانی صاحب کی ذات گرامی ملتان اور باشند گان مولتان کی شکریہ کی مستحق ہے کہ اس کے مٹے ہو ئے نقش و نگار ابھر آتے ہیں اور اپنے آباؤ اجد اد اور اپنے وطن کی ہو بہو شکل دیکھ سکتا ہے”۔

 سید اولاد علی گیلانی ،”مرقع ملتان ”میں پر وفیسر تپش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

‘ ‘ پر وفیسر تپش صاحب کی ” تاریخی نثر ” بھی ایک لا ثانی ادبی شاہکار ہے جو نکتہ شنا س اہل علم سے ضرور خراجِ تحسین وصول کرکے رہے گا۔

            شیخ محمد عبداللطیف صاحب تپش ایم۔ اے  (آنرز) ایم ۔ او ۔ ایل پر وفیسر السنہ شرقیہ ایمرسن گورنمنٹ کالج ملتان میرے نہایت ہی دیرینہ مخلص و مشفق برادرِ طریقت ہیں۔ وہ بالحاظ علم و ذوق دنیائے شعر و ادب میں مشہو ر و معروف ہیں  اور مستغنی عن التعریف و توصیف ۔ میں ان کا صدق دل سے ممنو ن ہوں کہ انہوں نے انتہائی مصروفیت اور محنت کو مدنظر رکھتے ہوئے  اس ضخیم کتاب کے مسودے پر نظر ثانی کرنے زحمت گوارا کی ۔ اگر وہ میر ی یہ امداد نہ کرتے تو غالباً اس کا م کی تکمیل میں اور زیادہ  تاخیر واقع ہو جاتی ”۔

            ” آ ہنگ تپش ‘ ‘ کے نام تپش صاحب کے کلیات لاہور سے ان کی وفات کے 51برس بعد 1994ء میں شائع ہوا۔ تپش صاحب کو تصوف سے گہر ی وابستگی تھی ان کا تعلق سلسلہ چشتیہ صابریہ سے تھا۔  ” آ ہنگ تپش ” احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وحید قریشی کے فلیپ اور تپش صاحب کے فرزند ابو ظفر حنیف کا پیش لفظ اور مضطر نظامی کا دیباچہ شامل ہے اور اس ماورا پبلشر رز لاہور نے شائع کیا ۔

            عبداللطیف تپش کا لاہور سے تعلق تھا ۔ ان کے والد کا نام شیخ امام الدین تھا۔ تپش صاحب سر شیخ عبدالقاد ر کے داماد تھے ۔ وہ مئی1895ء کو لا ہور میں پیدا ہوئے اور لاہور ہائی کورٹ میں مترجم کے عہدے پرکئی سال کام کرتے رہے ۔ 1928ء میں گورنمنٹ کالج پسرور میں فارسی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔

            1930ء میں ایم ۔ فارسی کیا ۔ شاعری میں وہ ذکی دہلوی کے شاگر د تھے ۔ 1933 ء میں گورنمنٹ کا لج ایمرسن کالج ملتان آگئے ۔ جب وہ پسرور میں تھے تو ادبی رونق اپنے عروج پر تھی ۔ ملتان آئے تو ان کے ساتھ یہ رونق ایمر سن میں آ گئی اور مشاعرے ہونے لگے ۔ جس میں کشفی ملتانی ، احسان دانش ، تلو ک چند محروم ، افسر میرٹھی ، حیرت وارثی ، غنچہ امروہوی، اسد ملتانی ، سلیم فارانی ، میلا رام وفا اور بہت دوسرے شاعر شرکت کرتے تھے ۔

            ان کے ملتان میں قیام کا وہی دور ہے جب ن م راشد ملتان میں تھے۔ لیکن تپش صاحب سے ان کی ملاقات کا ذکر نہیں ملتا ۔ علامہ اقبال کی وفات بھی ان کے ملتان میں قیام کے زمانے میں ہوئی ۔

            11جنوری1943ء کو مختصر علا لت کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر 48سال تھی ۔ ان کے صاحبزادے ابو ظفر حنیف ، صاحبزادی خالدہ ادیب خانم اور ملازم گل زمان ان کے پاس تھے ا ور ان کے سسر اور خوش دامن شیخ عبدالقادر اور لیڈی عبدالقادر بھی موجود تھے ۔وہ دور وز قبل بہاول پور سے آئے ہوئے تھے ۔ ان دنوں سر عبدالقادر بہاول پور ہائی کو رٹ میں چیف جسٹس تھے ۔ تپش مرحوم کے چھوٹے بھائی شیخ عبدالرشید ان کی میت لاہور لے کر جانا چاہتے تھے سر عبدالقادر نے کہا ۔ ” لطیف وصیت کرچکا ہے کہ اگر موت آجائے تو مجھے ملتان میں ہی دفن کیا جائے ”۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں ملتان کے حسن پروانہ قبرستان میں دفن کیاگیا ۔

            لا ہور میں تپش صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ۔ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ان کے اچھے مراسم تھے ۔ علامہ اقبال سے ان کی نیا ز مندی تھی۔

 تپش صاحب کا کلا م ہمایوں ، مخزن ، ادبی دنیا ، نیرنگ خیال ، رومان، ساقی ، زمانہ معارف اور نگار میں اکثر چھپتا تھا۔

            ان کے کلا م سے انتخاب پیش خدمت ہے تپش اردو اور فارسی میں شاعر ی کرتے تھے ۔

            اردو اشعار:

تپش شکرِخدائے لم یزل ہر وقت لازم ہے
کہ اس نے مرتبہ بخشا ہے تجھ کو اِک سخنداں کا

کھل جائے راز ہستی ناپائیدار کا
ٹوٹے کہیں طلسم مرے اعتبار کا

انجام ہے یہ خونِ تمنا کا اے تپش
دھباسا ایک دامن ِ قاتل میں رہ گیا

دستِ جنوں کو روک لیا بڑھ کے ضعف نے
ورنہ کچھ اس قدر تو گریباں نہ دور تھا

خاک آرام کی خواہش ہو وطن سے باہر
جب ہمیں چین تپش اپنے ہی گھر نے نہ دیا

مجنوں کے گریبان کے ٹکڑوں کو ملا کر
باندھی گئی سر پر مرے دستارِ محبت

پھر زاویہ نگاہ کا بدلا ہوا ساہے
پھر میں ہوں اور گردشِ دوراں ہے آج کل

فارسی اشعار:

زبان ِ مدعا چشم تماشا سنج گشت آخر
شکستم زیرِ لب آواز را ساز فغاں گم شد

امرِ حق است ولے فاش نہ گوئیم تپش
شرحِ معنی انا الحق بزبانم دادند

کشتگانِ نگہت انجمنے ساختہ اند
چشم بکشا اگرت سیل تماشائے ہست

تاریخ وفات حضرت علامہ اقبال :

سر اقبال آہ بچھڑے کارواں سے
فریب ہوش تھی بانگ درا آج

ہوئے آسودہ ، شہر خموشاں
نشان ِ منزل ہستی ملا آج

ترانے جس کے تھے بریزِ شکوہ
رہا وہ سازہوکر بے صدا آ ج

قفس سے آشیاں تک ہے اندھیرا
ہوا موقوف بجلی کی کوندنا، آج

تپش تاریخ کسی واقع ہے
چراغ برمِ مشرق بجھ گیا آج
1938ئ

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: