مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنبھال کے رکھے جو خواب سارے ۔۔ ||گلزار احمد

مغرب کے نماز وہیں ادا ہوتی اور اس کے بعد کھانے کا دور چلتا۔آخر میں اپنی ہاتھوں کی بنی آئس کریم نوش جان کی جاتی اور پھر خیمے لپیٹ کے گھر روانگی ہوتی۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کا یہ ایک عشق رہا ھے کہ وہ صبح اور شام کے اوقات دریاۓ سندھ کے کنارے حاضر ہوتے ہیں ۔ کچھ محفلیں جمتیں ۔کہیں بانسری کی دھن۔کہیں ڈھول پر ڈانس۔کہیں کھانے پینے کی محفل اور کئی واک کے شوقین۔ شام کو ایک بازار سج جاتا جس میں گوشت پلاٶ۔بریانی۔قلفیاں ۔آئس کریم ۔چاۓخانے۔پھولوں کے ہار اور غبارے بیچنے والے آ موجود ہوتے اور ایک پھولوں کا میلہ سجتا۔ گرمیوں میں جمعتہ المبارک اور اتوار کے روز دریا کے کنارے دور دور تک شامیانے لگ جاتے اود دریاں بچھ جاتیں۔ یہ میلہ مقامی زبان میں دھاونی کہلاتا۔ایک طرف پیراک دریا میں نہا رہے ہیں کچھ لوگ جو تیراک نہیں تھے وہ ہوا بھری موٹر کی ٹیوب سے چمٹے نہاتے ۔کنارے پر میوزک اور شامیانے کے نیچے منچلے دریس شروع کر دیتے۔ کچھ لوگ تاش کھیلنے کے شوقین الگ چوکڑی جماتے۔ ہر شامیانے کے ساتھ کھانا پک رہا ہوتا اور مصالحوں کی خوشبو سے فضا مہک اٹھتی۔آم کھانے کا عجب طریقہ تھا۔ایک بوری جتنے جال میں ڈیرہ کے گاٶں پنیالہ کے آم دریا کے ٹھنڈے پانی میں ایک رسے سے باندھ کر پھینک دیتے اور ہر آدمی ایک ایک ٹھنڈا آم نکال کے چوس رہا ہوتا ۔ مغرب کے نماز وہیں ادا ہوتی اور اس کے بعد کھانے کا دور چلتا۔آخر میں اپنی ہاتھوں کی بنی آئس کریم نوش جان کی جاتی اور پھر خیمے لپیٹ کے گھر روانگی ہوتی۔ ہم یونیورسٹی کے طلبا دوست کسی پرسکون کونے میں شیکسپیر ۔ورڈزورتھ۔ارسطو۔افلاطون کو ڈسکس کرتے۔اور چاۓ کا لطف اٹھاتے۔بہت سا فلسفہ ہم نے دریا کے کنارے سیکھا۔ہم لوگ ان دنوں تین رسالوں کو بہت پڑھتے تھے۔Newsweek..Times.Readers digest.
زیادہ تر ہماری ڈسکشن کے موضوعات ان میگزین سے کشید کئے گیے ہوتے۔کبھی کبھی ہمارے کلاس کے لیکچر بھی زیر بحث آتے۔ ہمارے بہت سینئر پروفیسر عبدالستار عباسی بڑے یار باش تھے اور ہمیں دریا پر دیکھتے تو ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے۔وہ رات کو دیر تک کتابیں پڑھنے کے عادی تھے اور پھر چیدہ چیدہ چیزیں ہمیں بتاتے۔ خوشونت سنگھ کی دہلی ناول ۔۔تو سارا ہم نے دریا کے کنارے عباسی صاحب سے سنا تھا۔سردیوں میں دریا کے بہاٶ میں کمی ہو جاتی تھی اس لئے جھاز اور لانچیں الگ کھڑی کر دی جاتی اور کشتیوں کا پُل بن جاتا۔ ہم اس پل کو کراس کر کے دوسری جانب جا بیٹھتے اور درختوں پر اترتی رات کی سیاھی اور فاگ کا نظارہ کرتے۔چودھویں کے چاند کی کرنیں جب دریا کی موجوں پر پڑتیں تو موجیں تھرکنے لگتیں ۔ راج ہنس۔چڑیاں۔کوے ۔لالیاں۔فاختائیں اور مرغابیوں کی دلکش ٹکڑیاں اور صدائیں ایک سماں باندہ دیتیں ۔نیچے تصویر میں پرانے کشتیوں کے پل دکھایا گیا ھے جس کے دوسرے کنارے پر بیٹھ کر ہم ڈیرہ شھر پر اترتی رات کا منظر دیکھا کرتے تھے۔اس کے ساتھ SS JHELUM جو ڈیرہ کا ٹائیٹانک تھا تاج محل کی طرح نظر آ رہا ہے۔
؎ خواب تھا جو کچھ بھی دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔

%d bloggers like this: