نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیدہ ھما جعفری کے نام ایک خط||عامر حسینی

ایک مولانا ہیں شوکت علی سیالوی ، تم سے ملاقات ہونے سے پہلے وہ میرے دوست ہوا کرتے تھے اور ان کو اہل حدیث جنھیں عرف عام میں وہابی کہا جاتا ہے کی جانب سے بار بار کوفہ کی علمی حثیت کو چیلنج کیا جانا بہت برا معلوم ہوتا تھا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدہ ھما جعفری کے نام ایک خط

 

السلام علیک یا ابا عبداللہ الحسین ،

 

میں نے تمہیں خط لکھنے کا ارادہ کیا تو کافی دیر میری انگلیاں کيی-بورڑ پہ چلنے سے رکی رہیں۔ سوچ رہا تھا کہ اس مہینے کے پہلے عشرے کی پانچویں رات کو ابتداء میں آپ کو مخاطب کروں تو کیسے کروں؟ پھر خیال آیا کہ تمہارا طریق تو یہ تھا کہ تم ان راتوں میں کسی اور کو مخاطب تو کیا ہی نہیں کرتی تھیں اور ایک ہی ہستی تھی جسے تم سب سے پہلے مخاطب کرتیں اور تخاطب کیا تھا ، سلام ہوا کرتا تھا اور میں نے بھی خط کا آغاز اسی طرح سے کر ڈالا۔

میں دل میں بہت سی باتیں لیے بیٹھا ہوں ۔ یہاں کسی سے کرنے کی ہمت جوڑ نہیں پایا اور سوچا کہ اپنے کنویں کے پاس جاؤں اور دل میں جو ہے وہ کہہ ڈالوں۔ لکھنؤ ہندوستان میں مقیم قاضی زکریا صاحب ہیں ۔ میں نے شرم کے مارے ان سے ان کی عمر تو نہیں پوچھی لیکن مجھے وہ ساٹھ سال یا کچھ اوپر کے لگتے ہیں ۔ ان کا ایک اشاعتی ادارہ ہے انھوں نے مجھ سے کتاب "کوفہ۔۔۔۔۔” کا اضافہ شدہ ڈرافٹ منگوایا- میں نے اسے بھیج دیا اور انھوں نے پڑھنے کے بعد اس کو وہاں سے چھاپنے کی حامی بھرلی ۔ مجھے مجوزہ ٹائٹل بھی بھیج بھی وٹس ایپ کیا۔ یہ پپیشکش ایک ایسے وقت میں ہوئی جب میں پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت دوم کے حوالے سے حالات کی ستم ظریفی کا شکار تھا۔ ایک دو ناشروں سے کہہ کر شرمندگی اٹھا چکا تھا۔ اور اب یہ بات یقینی ہے کہ "کوفہ ۔۔۔۔۔۔۔” کی اشاعت دوم پاکستان سے پہلے ہندوستان میں ہوگی ۔ میں اسے نجف اشرف کے مکین کی کرامت سمجھتا ہوں اور کوفہ کی ان پاک طینت روحوں کی نظر التفات خیال کرتا ہوں جن کا میں وکیل صفائی بنا۔

ایک مولانا ہیں شوکت علی سیالوی ، تم سے ملاقات ہونے سے پہلے وہ میرے دوست ہوا کرتے تھے اور ان کو اہل حدیث جنھیں عرف عام میں وہابی کہا جاتا ہے کی جانب سے بار بار کوفہ کی علمی حثیت کو چیلنج کیا جانا بہت برا معلوم ہوتا تھا۔ ہم دونوں کو ان دنوں اہلسنت بریلوی مفتی صاحب کے بہت شاندار کتب خانے تک رسائی تھی – ان کا نام تھا مفتی محمد اشفاق رضوی- اللہ ان کو غریق رحمت کرے ۔ ان کا بڑا بیٹا محمد جمیل میرا اسکول اور جماعت نہم و دہم کا ساتھی تھا۔ آج کل پاکستان آیا ہوا ہے ویسے وہ برطانیہ میں رہنے لگ گیا ہے اور خود بھی اب صوفی عالم ہوگیا ہے۔ ابھی چند روز پہلے اس کی وٹس ایپ پہ آئے وائس میسجز پہ آواز سنی۔ خیر مولانا شوکت علی سیالوی جو اب "وکیل احناف” سمیت کئی مسجع و مقفع القاب سے اپنے مداحوں کے حلقے میں یاد کیے جاتے ہیں ایک روز مجھے کہنے لگے کہ ہمیں کوفہ کی علمی جلالت بیان کرنے کے لیے اردو میں ایک کتاب لکھنا چاہئیے۔ وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ہم شوکت علی سیالوی میرے اصرار پہ تراویح کے نوافل ترک کرکے روز کالونی نمبر دو میں اپنے زمانے کے معروف کاتب صدیق فانی (اللہ ان کی بھی مغفرت کرے) کے گھر جاتے اور ان کی بیٹھک جہاں پہ چاروں طرف کتب ہی کتب ہوا کرتی تھیں صدیق فانی سے کہچری کیا کرتے تھے۔ وہ ہمیں دیکھتے تو شوکت سیالوی کو ” سنت فا۔۔۔۔۔۔ کا بھگوڑا ” آگیا کہہ کر مخاطب کرتے اور مجھے "کارل مارکس کا چودا” کہتے اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ ہم نے ان کو "کوفہ۔۔۔۔” بارے اپنا منصوبہ بتایا تو وہ ہمارا منصوبہ سن کر پھڑک اٹھے ۔ کہنے لگے مجھے ۔۔۔۔۔ بھگوڑا لگتا نہیں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچادے گا۔ اس وقت تو مجھے برا لگا تھا لیکن جب سیالوی صاحب نے اپنے منصوبے کو نماز میں رفع یدین کرنے بارے مذہب ابوحنیفہ کے اثبات میں ایک مختصر سے کتابچے تک اصل منصوبے کو محدود کردیا تو مجھے صدیق فانی کی فراست مومنانہ پہ یقین لانا پڑا۔ میں نے اپنے آپ سے عہد کرلیا کہ میں کوفہ کی تاریخ پہ کام جاری رکھوں گا۔ اس وقت تک مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں جو مواد اس موضوع پہ اکٹھا کرتا چلا جارہا ہوں وہ تدوین کے بعد کیا شکل اختیار کرے گا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں سعید عالم کی کلاس میں تمہارے سے متعارف ہوں گا اور پھر مجھے کوفہ کی اس جہت پہ کام کرنے کی طرف تم مائل کروگی جس جہت کے منفی پہلو کا میں آپ بھی شکار تھا۔ میں نے کوفہ شہر کے بارے میں اپنے مطالعہ کا آغاز تاریخ طبری سے کیا تھا اور پھر میں نے تاریخ ابن کثیر، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن خلدون، تاریخ البلازری، تاریخ یعقوبی میں مفتی اشفاق صاحب کی لائبریری سے استفادہ کرتے ہوئے کوفہ کی تاسیس سے لیکر 60 ھجری تک کے واقعات کے نوٹس بنائے اور متعلقہ متون کی فوٹوکاپیاں کرالیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ و مصنف عبدالزراق سمیت مجموعہ احادیث میں جہاں جہاں جنگ جمل، نہروان، صفین کا زکر آیا انہیں بھی محفوظ کرلیا۔ اس وقت تک واقعہ کربلا کے بارے میں میرا خیال بھی یہ تھا کہ یہ واقعہ ان لوگوں کی بے وفائی اور عہد شکنی کے سبب پیش آیا جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ سے خط لکھے اور ان کو بلایا اور خود پھر ان کی مدد کو نہ پہنچے اور بعد ازاں مگرمچھ کے آنسو بھی بہائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اہلسنت کے واقعہ کربلا بارے سب سے مشہور عالم مولانا شفیع اوکاڑوی تھے جن کی تقریروں میں بھی بار بار واقعہ کربلا سناتے ہوئے کوفیوں پہ لعن طعن کی جاتی اور کلمہ عموم میں ان کو بے وفا اور عہد شکن کہا جاتا۔ اور تو اور ان دنوں میں، مجھے جن شیعہ عالموں، ذاکروں کی تقاریر مجالس عزا میں سننے کا موقعہ ملا وہ سب بھی کوفہ کے رہنے والوں کو کلمہ عموم سے بے وفائی کا طعنہ دیتے تھے۔ اور سب کوفہ کی یک رخی تصویر پیش کرتے تھے اور میں بھی اس یک رخی تصویر کو ہی سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ بار بار کربلا میں شہید ہونے والوں کی داستانیں سنا تو کرتا لیکن ان کے شہروں کا مجھے پتا نہ تھا۔ حیرت انگیز طور پہ امام علی علیہ السلام کی خلافت کے دوران ان کی جنگوں کا احوال  بنیادی کتب تاریخ سے پڑھنے کے دوران بھی کبھی بھولے سے مجھے کوفہ کی کلمہ عموم کے ساتھ بے وفائی کے مقدمے کے یک رخی ہونے پہ زرا شک نہ ہوا۔ مجھے کئی سالوں تک تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کوفہ میں قبائلی تقسیم کے ساتھ محلوں کی تقسیم میں کتنے محلے آل محمد کے باوفا عشاق قبائل کے محلے تھے جن کی پہچان ہی ان کا آل محمد سے عشق تھا۔ ایک اور حقیقت جو سامنے تھی مگر کبھی دھیان نہ گیا وہ تھی کوفہ کی تاسیس بطور عربوں کی چھاؤنی اوراس شہر کا واقعہ کربلا سے بھی بعد بنوعباس کے دور تک عرب اکثریت کا شہر ہونا جہآں 300 سے زیادہ جید مہاجر و انصار صحابہ سب سے پہلے آکر آباد ہوئے تھے جن کے آگے سینکڑوں شاگرد( تابعین) اور پھر ان کے شاگرد (تبع تابعین) رہا کیے۔ تم وہ پہلی شخصیت تھیں جس نے پہلی بار کوفہ کی یک رخی تصویر پہ سوالیہ نشان لگایا تھا۔ تم وہ پہلی شخصیت تھیں جس نے مجھ سے یہ سوال کیا تھا کہ مولا علی المرتضی جب مدینہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ کتنے ہزار کا لشکر تھا؟ میں جو تاريخ طبری سے لیکر تاریخ یعقوبی تک بار بار اس عبارت کو پڑھتا ہوا گزرا تھا جس میں تعداد بیان کی گئی تھی تمہارے سوال کی تہہ تک پہنچ نہ سکا تھا اور پھر اماؤس کی رات کو کراچی کے ساحل کے ایک دور ویرانے میں ایک پتھر پہ بیھٹے بیٹھے تم نے مجھے بتانا شروع کیا تھا تو اسے سننے کے بعد جیسے مجھے پتا چل گیا تھا کہ کوفہ کو لیکر مجھے کس ڈسکورس کو اختیار کرنا ہے اور کس بیانیہ کی ردتشکیل کرنی ہے۔ تم نے مجھے حر بن یزید ریاحی اور اس کے لشکر کی امام حسین اور ان کے ساتھیوں سے پہلی بار سامنے آنے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امام حسین حر بن یزید ریاحی سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے لکھے خطوط میں دعوت پر ہی آئے ہیں تو حر کا جواب تھا

إنا والله ماندري ما هذه الكتب التي تذكر ولسنا من هؤلاء الذين كتبوا اليك وقد أمرنا اذا نحن لقيناك أن لا نفارقك حتى نقدمك على عبيد الله (اللہ کی قسم مجھے بالکل نہیں معلوم ان خطوط کا جن کا آپ نے تذکرہ کیا اور نہ ہی ہم ان میں سے ہیں جنھوں نے آپ کو خطوط لکھے اور ہمیں تو بس یہ کہا گیا ہے کہ جب ہماری آپ سے ملاقات ہو تو آپ سے الگ نہ ہوں یہاں تک کہ آپ کو عبیداللہ کے پاس لے آئیں) تم نے مجھے کہا تھا کہ بصرہ میں عبیداللہ ابن زیاد نے اپنے ساتھ جن لوگوں کو ساتھ لیکر کوفہ کا رخ کیا تھا طبری کہتا ہے کہ ان میں سوائے اس کے غلام مہران کے باقی سب نے تھکاوٹ کا بہانہ کرکے سفر کی رفتار آہستہ رکھی تھی تاکہ اس تاخیر میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی کوفہ میں داخل ہوجائیں۔ اور وہ راستے ہی میں عبیداللہ ابن زیاد کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اور تم نے مجھے کہا تھا کہ مسلم بن عقیل کی مخبری کرنے والا عبیداللہ بن زیاد کو شیعان علی میں سے کوئی نہیں ملا تھا تب ہی ت اس نے اپنا غلام معقل جھوٹا محب اہل بیت بناکر کوفہ میں شیعان علی کی جاسوسی کے لیے بھیجا تھا اور وہ مسلم بن عوسجہ، شریک اعور، ہانی بن عروہ تک جاپہنچا تھا لیکن ان میں سے ایک نے بھی مسلم بن عقیل سے غداری نہ کی اور ان کا ساتھ چھوڑا۔ عبیداللہ بن زیاد کے اردگرد ہمیں جتنے لوگ نظر آتے ہیں وہ سب کے سب علی اعلان اموی حکومت کے ساتھ تھے اور وہی تھے جو لشکر میں بھی سب سے آگے تھے۔ شیعان آل محمد کے وہ بڑے نامورزعما جو سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر پہ جمع ہوئے تھے ان میں سے شریک تو امام حسین کی کربلا آمد سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔ ہان بن عروہ بھی شہید کردیے گئے تھے جبکہ مسلم بن عوسجہ ، حبیب ابن مظاہر سمیت 100 کے قریب لوگ کربلا میں امام حسین کے ساتھ کوفہ سے شریک ہوئے تھے۔ جبکہ سلیمان بن صرد الخزاعی و مختار ثقفی سمیت دیگر لوگ گھروں یا قید خانے میں نظر بند تھے۔ تم نے مجھے کہا تھا کہ کوفہ اپنی تاسیس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں سماجی- سیاسی اعتبار سے تقسیم ہونا شروع ہوگیا تھا اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کے آخری چھے سالوں میں یہ تقسیم باقاعدہ کئی ایک سماجی- سیاسی کیمپوں میں بدل گئی تھی ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں ایک گروہ تو وہ تھا جو خفیہ طور پہ اہل شام سے رابطے میں تھا جن کا تعلق زیادہ اشراف القبائل سے تھا ان میں ایک نمایاں نام اشعث کا تھا جو بعد ازاں حضرت علی کے قتل کی سازش میں بھی شریک پایا گیا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو صفین میں تحکیم کے نام پہ آپ سے اعلانیہ الگ ہوا اور نھروان کی جنگ کے بعد بھی اس کے لوگ کوفہ سمیت عراق کے دیگر علاقوں میں موجود رہے۔ جبکہ شیعان علی جن کو تم نے کہا کہ وہ خالص حب اہل بیت میں آل محمد کے حامی تھے ان ميں ایک طرف تو ایسے بہادر اور جری تھے جو جب تک زندہ رہے لڑتے رہے اور اعلانیہ مزاحمت کرتے رہے جبکہ دوسری طرف عوام الناس تھے جن کو طبری بازار کے آدمی /دکاندار، دستکار وغیرہ کہتا ہے ان میں سے اکثر کو جبر کے سامنے مجبوری میں خاموش رہنا پڑا اور وہ اپنی بے بسی پہ دل ہی دل میں بڑے نادم بھی رہے۔ تم نے مجھے مخاطب کرکے کہا تھا کہ کوفہ میں آل محمد سے دل میں محبت رکھنے والوں کو سنگین جبر کے سائے میں خاموش رہنے پہ "بے وفائی” کی مستقل مہر لگانے والوں یہ سوال تم نے کبھی کیا کہ مدینہ والوں کی اکثریت نے یزید کی بیعت کیوں کیے رکھی تھی؟ بیعت کرنے والوں میں عبداللہ بن جعفر طیار، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر جیسے بھی شامل تھے اور یقینی بات ہے کہ اہل مدینہ کی اکثریت نے یہ بات خوشی سے تو نہ کی تھی ۔ یہاں تک کہ جب واقعہ کربلا کی خبر اہل مدینہ تک پہنچی تو انھوں نے یزید کی بعیت توڑی تو عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر طیار ، کل بنو ہاشم یہ سب مدینہ کی پہاڑیوں میں جارہے اور ان کو امان بھی دی گئ تھی توجتنا عتاب شیعان آل محمد کے کمزور دل کوفیوں پہ آج تک کیا جارہا ہے ویسا عتاب وہاں کیوں نظر نہیں آتا؟ تم نے کہا تھا کہ "دل میں برا جاننے والوں” کو آل محمد نے بھی کبھی ظالموں میں شمار نہیں کیا تھا اور تم نے مجھے امام علی علیہ السلام کا اہل کوفہ کو نہج البلاغہ میں ایک وصیت نما خطاب دکھایا تھا جس میں انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے بعد تم پہ ایسے ظالم مسلط ہوں گے جو مجھے اور میرے خاندان والوں کو برا بھلا کہنے پہ مجبور کریں گے تم تم جان بچانے کے لیے ایسا کردینا لیکن دل سے ایسا مت کرنا۔ میں تمہاری اسلام کی ابتدائی تاریخ کے اس اہم ترین موضوع پہ گہری نظر کا معترف ہوگیا تھا۔ اور حیران تھا کہ جیسے تم تاریخ کو پڑھ رہی تیں ویسے میں پڑھنے کے قابل کیوں نہ تھا؟ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ امام علی کے دور میں طبری علوی کیمپ کو شیعان علی اور ان کے مخالف کیمپوں کو شیعان عثمان و معاویہ لکھتا ہے اور دور یزید میں شیعان یزید کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے اور تمہارا کہنا تھا کہ شیعان علی ایک وسیع تر اصطلاح تھی جس میں صرف امامی شیعہ ہی نہیں تھے بلکہ اس میں غیر امامی شیعہ بھی تھے۔ اور انہی غیر امامی شیعہ کو پروٹو سنّی جمہور کہا جاسکتا ہے جس نے بعد ازاں اہل الحدیث و اہل الرائے اہل سنت کے جمہور کی شکل اختیار کی ۔ اور تم نے مجھے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ کبھی غور سے اور احتیاط سے دوسری صدی ہجری میں اہل سنت کے علم کلام میں بڑے نظریاتی کیمپوں میں شامل محدثین، فقہا، مفسرین، ماہر علم الرجال کا نظریاتی رجحان دیکھنا وہ سب کے سب تمہیں امام علی اور دیگر سادات آل محمد کے حامی اور آل امیہ و آل عباس کی ملوکیت کے شدید مخالف نظر آئیں گے۔ اور فقہ کے باب میں امام ابوحنیفہ ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور امام محمد ادریس شافعی بھی آل محمد کے حامی ہی تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ناصبیت ، خارجیت اور ملوکیت تینوں سے الگ رکھا ۔ تمہاری اس بصیرت کے ساتھ میں نے جب امتداد زمانہ سے بچ جانے والے ان متون کو دیکھا جن کی بنیاد پہ ہی طبری سے لیکر یعقوبی تک نے اپنی کتب تواریخ میں پہلی اور دوسری صدی ہجری بڑے اسلامی شہروں کی سماجی و سیاسی و مذہبی تاریخ کا بیان کیا تھا تو میں تمہاری روشن بصیرت کا قائل ہوتا چلا گیا۔ تم نے ہی مجھے کہا تھا کہ شیعان آل محمد کو ابومخنف، نصر بن مزاحم کوفی اور محمد بن عمر واقدی و ابن سعد طاحب الطبقات مدنی کا شکر گزار ہونا چاہئیے کہ اس تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کیا جس کے بغیر تاریخ تحریک آل محمد بشمول جمل و صفین و کربلا کو محفوظ کرنا ممکن ہی نہ ہوتا اور تحریک نصب و ملوکیت چھا جاتی ۔ ویسے محدثین امام بخاری و مسلم و نسائی، ابن ابی شیبہ، عبدالرزاق، حاکم، امام احمد بن حنبل نے بھی ایسا قیمتی احادیث کا ریکارڈ چھوڑا جو براہ راست اسلام کی پہلی صدی ھجری کی تاریخ سے متعلق ہے۔ میں تم سے کئی بار پوچھتا تھا کہ تم امامی شیعہ متون کو زیربحث کیوں نہیں لیکر آتیں؟ تمہارا جواب ہوا کرتا تھا کہ امامی شیعہ کے ہاں نصب کبھی داخل نہیں ہوا- اور تم نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ پہلی اور دوسری صدی ھجری کے کبّار امامی شیعہ کے ہاں کوفہ کی شیعی تحریک اور اس کے اولین معماروں کو کبھی بے وفائی اور دھوکہ دہی کی نظر سے دیکھا نہیں گیا۔ یہ مسئلہ تمہارے خیال میں طبری کی کتاب سے شروع ہوا اور پھر آٹھویں اور نویں صدی ھجری سنّی مورخین ہی نہیں بلکہ شیعہ مورخین کے ہاں بھی راہ پاگیا۔ اور تم نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ نوآبادیاتی دور سے قبل مسلم دنیا کی تین بڑی سلطنتوں ‏عثمان ترک سلطنت، صفوی ایرانی سلطنت اور مغل سلطنت کی جو درباری سرپرستی میں تواریخ نکھی گئیں ان میں پہلے پہل یہ رجحان آیا کہ لفظ شیعہ اورسنّی یہ رافضیت اور ناصبیت کے ہم معنی ٹھہرایا جانے لگا اگرچہ سرکاری اثرسے ہٹ کر امامی و سنّی ماہرین تاریخ کے ہاں "شیعہ اور سنّی” ان دونوں کے متنوع اطلاقات جاری و ساری رہے۔ اور پھر نوآبادیاتی دور کی تاریخ نویسی ماقبل نوآبادیاتی دور کی درباری تاریخ سے ان دونوں اصطلاحوں کے عموم کو ختم کرنے کی پوری کوشش ہوئی ۔ آج میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سرکاری ملاں تاریخ کے معروضی مطالعے اور تحقیق کی آزادی کو بلاسفیمی، توہین اور فرقہ واریت کی دہائی دے کر سلب کرنے کے درپے ہیں ۔ یہاں ایسے قوانین بن چکے ہیں جن کے تحت امام بخاری و مسلم ، نسائی ، حاکم، ابن ابی شبیہ، عبدالرزاق، احمد بن حنبل ، ابن کثیر، ابن اثیر، ذہبی سمیت پہلی آٹھ ہجری کے اکثر مصنفین اگر زندہ ہوتے تو وہ بلاسفیمی و توہین کے الزام میں سینکڑوں مقدمات کا سامنا کررہے ہوتے۔ امیر شام کے متعلق کتب احادیث و فقہ میں جو عبارات موجود ہیں ان کی بنیاد پہ وہ سب "گستاخ صحابہ ” کے زرمے میں شامل ہوجاتے اور کسی مشتعل ہجوم نے ان کو مار ڈالنا تھا۔ ناصبیت آل امیہ اور آل عباس کے بادشاہوں اور گورنروں کو مقدسات میں شامل کرنے پہ زور لگارہے ہیں ۔ مولفۃ القلوب کو وہ مہاجر اور انصار صحابہ کرام کے مقابل اور یہاں تک کہ ان کو آل محمد سے بھی اوپر کا درجہ دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ  وہ ان کو مقدسات میں شامل کرتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو ان کو تاریخ میں درجہ حاصل ہے اس پہ اصرار کرنے والوں کو وہ گستاخ اور بے ادب قرار دیتے ہیں۔ مقدسات کی یہ فہرست اب بڑھتی جارہی ہے ۔ اس میں آب مروان اور آل مروان، حجاج بن یوسف بھی؛ شامل ہوچکے ہیں اور وہ اسے حقیقی سنّی اسلام کہتے ہیں ۔ یہ سنّی اسلام کی جمہوری روایت سے شیعیت کو خارج کرنے اور ناصبیت و ملوکیت کو داخل کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ تمہارے زمانے میں ایک "محمود عباسی” تھا تو اب درجنوں ہیں اور یہ ریاست پہ حاوی ہیں۔ تمہیں ضیاء الحق کا بنایا چیف منسٹر نواز شریف یاد ہوگا۔ اس کا خاندان محرم میں اپنے ایک لڑکے کی شادی کررہا ہے اور یہ وہی خاندان ہے جس نے تمہیں یاد ہوگا احسان اللہی ظہیر کی کتاب "البریلویہ” کا جواب لکھنے والے صوفی سنّی اسکالر کودس لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا اور تمہیں شریف خاندان کے صوفی سنّی خاندان ہونے کی قسمیں اٹھاتے آمریت مخالف مولانا نورانی کو نیچا دکھانے والے بریلوی پیر اور مولوی یاد ہوں گے۔ وہ وہاں عالم برزخ میں تمہیں ملیں تو ان کو بتانا کہ نواز شریف کے نواسے کی شادی محرم میں طے ہونا پائی ہے اور یہ بھی انھیں خبر کرنا کہ ان کے مربی چوہدری ظہور اللہی کا بھتیجا چوہدری پرویز اللہی پنجاب اسمبلی سے ایک ایسا قانون منظور کرانے کی کوشش میں تھا جس کے بعد اہل بیت اطہار کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنا قابل دست اندازی پولیس جرم بن جانا تھا۔ پاکستان میں ایسے لبرل،سوشلسٹ، کمیونسٹ ہونے کے دعوے دار بھی پیدا ہوگئے ہیں جو کرسمس،ہولی،دیوالی، بیساکھی کے تیوہاروں کا سواگت کرتے ہیں لیکن محرم اور اس سے جڑی غم کی ثقافت ان کو روشن خیالی و ترقی پسندی کے خلاف لگتی ہے۔ تم وادی حسین کی ایک قبر کی ساکن ہو اور مجھے معلوم ہے کہ تمہیں وہاں عالم برزخ میں مجالس عزا میں شرکت کی مصروفیت ہوگی۔ تمہاری کاسمولوجی میں تو عالم مادیت ہی میں نہیں عالم روحانیت ، عالم مثالیت اور عالم برزخ میں بھی عزاداری کا اہتمام ہوتا ہے ایسے میں میرا اتنا طویل خط تمہارے اشغال میں کھنڈت ڈالنے کے مترادف ہے۔ لیکن میں کیا کروں؟ مجھے تمہارے جیسی روح یہاں میسر نہیں ہے جس سے یہ سب باتیں کرکے میں اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو کم کرسکوں ۔ اب مجھے اجازت دو۔ تمہارے جواب کا منتظر رہوں گا بے شک نو ربیع الاول کے بعد جواب دے دیجیے گا۔

 

والسلام

تمہارا عامی

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author