اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اقبال ارشد ۔ دکھوں کے موسم کو آخری سلا م ||جاوید اختر بھٹی

اقبال ارشد بڑے شاعر تھے ۔ ایسا غز ل گو ملتان میں پیدا نہیں ہو گا۔ کیا خوب صورت اور مرصع غزل ہوا کرتی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1976-77ء کا زمانہ تھا ۔ جب عاصی کرنالی صاحب سے میری ملا قات ہوئی۔ انہوں نے حسین سحر سے میری ملاقات کرائی اور ایک دن میں اور حسین سحر اندرون بوہڑ گیٹ بازار سے گزر رہے تھے کہ دیکھا سامنے سے اقبال ارشداور وفاحجازی آرہے ہیں۔ یہ ان دونوں سے میری پہلی ملاقات تھی ۔ حسین سحر نے جب کہا کہ یہ جاوید اختر بھٹی ہیں افسانے لکھتے ہیں تو وفا حجازی بولے جناب یہ تو معروف ادیب ہیں ۔ میں پریشان ہوگیا کیونکہ اُ ن دونوں مجھے میرے سوا کو ئی نہیں جانتاتھا۔ اقبال ارشد نے کہا ہماری تو تمہارے والد مرحوم سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جو شروع ہوا تو چل نکلا ۔ بابا ہوٹل مرکزی ٹھکانہ تھا۔ صبح شام کی بیٹھک تھی۔بابا ہوٹل میرے گھر کے قریب تھا۔ یہ ساری رونق اور سارے خوش گوار لمحات یادوں کا حصہ بن گئے۔

اقبال ارشد نے میرے افسانوں کے پہلے مجموعے ” چاند کے زخم ” (جنوری 1981ئ)کا دیباچہ بھی لکھا تھا اور انہوں نے بہت محبت اور جذباتی انداز میں میرے افسانوں کا دفاع کیا تھا ۔ اُ ن دنوں اقبال ارشد محکمہ خاندانی منصوبہ بندی میں ملازم تھے۔ ضیاء الحق نے اس محکمہ کو ختم کردیا اور بہت سے ملا زم نکال دیئے۔اور اقبال ارشد واپڈا میں افسر تعلقات عامہ بن گئے۔وہ کچھ عرصہ لاہور اور گوجرانولہ میں رہے اس کے بعد ملتان واپس آگئے ۔ وہ ملتان ہی سے سبکدوش ہوئے ۔ اب وہ بوہڑ گیٹ کی رہائش چھوڑ کر سمیجہ آباد آگئے۔ اقبال ارشد کی دو بیٹیاں ہیں ۔ اہلیہ اور نوجوان بیٹا عدنان حیدر ان کی زندگی میں ہی وفات پا گئے۔  بیٹے کی موت نے ان کی کمر توڑ دی ۔ انہوں نے اتنا گریہ کیا کہ آنکھیں چلی گئیں۔ چند برس پہلے ان کی بیگم کا انتقال ہواتو اس کے بعد ان میں دم ہی نہ رہا۔ گو یا موت کا انتظار کرنے لگے تھے۔زندگی کے سارے رنگ ختم ہو گئے تھے ۔زندگی کے آخری تکلیف دہ وقت میں ڈاکٹرمحمد علی ، تحسین غنی اور طاہر مامون رانا نے ان کی خدمت کی اور چھوٹی بیٹی نے تو خدمت کاحق ادا کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہی اس خدمت کا اجر دے سکتا ۔

اقبال ارشد 22اکتوبر 1940ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے ملتان میں قیام کیا ۔ ملتان سے انہیں بہت محبت تھی ۔ وہ ادبی تقریبات اور مشاعروں سے سر گرم رہتے تھے۔ان کے شعری مجموعوں میں نظر انداز، فیصل و پرچم ، منزل کی تلاش ، نو بہار ، سرمایہ حیات ، خماسی، چاندنی کی جھیل ، بادلوں کے تلے ، کہکشاں کے درمیاں اور دکھوں کا آخری موسم شامل ہیں  ۔ 4ستمبر صبح ان کا انتقال ہوا اور اسی شام دربار پیراں غائب کے قبرستان میں سپر د خا ک کیا گیا ۔ ان کے جناز ے میں ان کے دوست شریک ہوئے ۔ نئی نسل  کے شاعر ، ادیب نہیں شامل ہوئے ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اقبال ارشد نے طویل گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی ۔ ان کا را بطہ نئی نسل سے ٹوٹ گیا تھا۔ورنہ تو اقبال ارشد زندگی کی گرم جوشی کانام تھا ۔ وہ جب بابا ہوٹل سے پید ل گھر جاتے نوجوان شاعر بوہڑ گیٹ والے گھر تک ان کے ساتھ جاتے تھے ۔ جب وہ سمیجہ آباد چلے گئے تو وہ واپڈا کی گاڑی پر روزانہ  دوپہر کو اخبارات کے دفتر آیا کرتے (واپڈاکی خبروں کے سلسلے میں ) وہاں سے فارغ ہوتے تو گپ شپ کے لیے بابا ہوٹل پہنچ جاتے ۔ گفتگو کرتے شعر سناتے۔ وہ زند ہ دل ، محبت کرنے والے ، ہنس مکھ انسان تھے ۔ لیکن وہ بہت سے دکھ لے کر اس دنیا سے چلے گئے ۔ انہیں نظرانداز کیا گیا ۔ جو دوست ان کے لیے کچھ کرسکتے تھے ۔ انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ تنہا  رہ گئے تھے۔

بابا ہوٹل میں دوپہر اور شام کو حیدر گردیزی ، اقبال ارشد ، ارشد ملتانی ، اصغر علی شاہ ، ڈاکٹرمحمد امین ، سلمان غنی ، پروفیسر حسین سحر ، انور جمال ، ممتاز اطہر ، عامر فہیم روزانہ آتے تھے ۔ کبھی کبھی آنے والوں میں جابرعلی سید، بیدل حیدری ، وفا حجازی ، خادم رزمی ، مبارک مجوکہ او ر شوکت مغل تھے ۔

اس دور کے چند نوجوان شاعروں کو اقبال ارشد کی قربت حاصل رہی۔ اطہر ناسک ، اختر شمار، طارق اسد،  ناصر بشیر، برز م راقی انہیں گھیرے رکھتے تھے ۔ان کی گفتگوسے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ اقبال ارشد محفل کے آدمی تھے، وہ گفتگو خوب کیا کرتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کی گفتگو سے آپ خوش ہوجائیں۔ دوست ان سے ناراض بھی ہو جایا کرتے تھے ۔ حیدر گردیزی اور اقبال ارشد ہر وقت شعر کہنے میں مصروف رہتے تھے ۔ حیدر گردیز ی تو بہت زود گوتھے۔ روزانہ دو تین نظمیں، غزلیں یا مرثیے کے چند بند لکھ کر گھر جاتے تھے ۔ کچھ لوگ ان سے سہر ا لکھوانے بھی آتے تھے۔وہ سہرا  وہاں موجود تما م شاعر مل کر لکھا کرتے تھے۔ جب سہرا مکمل ہوجاتا  تو  ہجویہ سہرے کا دور شروع ہوجاتا اور اس میں ایسے ایسے عجیب و غریب شعر کہے جاتے کہ خدا کی پناہ ۔

ابا ہوٹل میں ایک صاحب صادق خان آیا کرتے تھے۔ان کی بہت سی زمین تھی ۔ جسے وہ ساری زندگی فروخت کرتے رہے ۔ ان کے ساتھ اقبال ارشد کا بہت مذاق چلتا تھا۔صادق خان ناراض ہوجاتے ، اقبال ارشد اسے راضی کرنے کے جتن کرتے ، معافی مانگتے۔ جب وہ مان جاتا ، تو مذاق کا ایک دور پھر شروع ہوجاتا ۔ اس میں حیدر گردیزی بھی حصہ لیتے تھے ۔ لیکن جب انور جٹ حصہ لیتے تھے تو انتہا ہوجاتی تھی ۔ پورا ہوٹل ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔ کیا کیا باتیں اور کیا کیا دانش وری سامنے آتی تھی۔ یہاں کانوں کو ہاتھ لگانے اور توبہ توبہ کرنے کا مقام باربار آتا تھا۔ اب یہ سب محفلیں خواب وخیال ہوئیں۔ نہ وہ ہوٹل رہا نہ وہ لو گ رہے۔ ابھی چند لوگ باقی ہیں اس کے بعد یہ ذکر بھی باقی نہیں رہے گا۔

اقبال ارشد بڑے شاعر تھے ۔ ایسا غز ل گو ملتان میں پیدا نہیں ہو گا۔ کیا خوب صورت اور مرصع غزل ہوا کرتی تھی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ۔ وہ شہرت کا تعاقب نہیں کرتے تھے ۔انہوں نے ہمیشہ اس سے گریز کیا اور لوگوں کو ناانصافی کا موقع مل گیا۔اقبال ارشد کی خاموشی نے ان لوگوں کو مزید طاقت بخش دی۔

ایک زمانہ تھا کہ جب ملتان میں پاک و ہند مشاعرے  ہوا کرتے تھے ۔اس میں جگر مراد آبادی ، جو ش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض ،احمد فراز ،احسان دانش ،احمد ندیم قاسمی ، قتیل شفائی، ساغر صدیقی اور بہت سے شاعر آیا کرتے تھے۔ ان مشاعروں میں نوجوان شاعر اقبال ارشد بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ اقبال نے ریڈیو پر لا تعداد پروگرام کیے۔ ریڈیو کازوال شروع ہوا تو وہ اس سے دور ہوگئے۔اخبارات میں ان کی غزلیں شائع ہوتی رہیں ۔معلو م نہیں انہوں نے ادبی رسائل کی طرف توجہ کیوں نہ دی ۔ چند انٹر ویو اخبارات نے ان سے کیے۔ ان پر آج تک کسی یونیورسٹی میں ڈھنگ کا کو ئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔اب معلوم ہوا ہے سرگودھایونیورسٹی سے ان پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔

اقبال ارشد کے چند شعر دیکھیے:

رگوں میں زہر کے نشتر اتر گئے چپ چاپ
ہم اہل درد جہاںسے گز ر گئے چپ چاپ

تو اسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند پر جاتی ہے ہر گھر میں اتر جاتاہے

میں نے توہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہوگیا

ایک لمحے کورُکا تھا سربازار حیات
آ گئے لوگ مرے قد کے برابر کتنے

اقبال ارشد نے  ”الوکیل ” کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا لیکن وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ انہوں نے اخبارات میں کالم لکھے ۔ ان کالموںمیں انہوں نے اپنی یادیں لکھیں اور پرانے ملتان کا ذکر کیا ۔ ان میں بہت سے لو گوںکا ذکرتھااورواقعات تھے ۔ میں نے اقبال ارشد کو ہمیشہ خوش باش اور زندہ دل انسا ن ہی دیکھا ۔

وہ عام طور ہر جگہ اردوبولتے تھے لیکن اپنے بیوی سے پنجابی میں گفتگو کرتے تھے ۔ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ان کے سُسر ڈاکٹر قتیل جعفری بھی ملتان کے معرو ف شاعر تھے ۔و ہ اردو، فارسی ، انگریزی اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔

مظفر گڑھ میں ایک شاعر عبدالمجید راحی ہوا کرتے تھے۔ وہ مشاعرہ باز قسم کی شخصیت تھے۔ وہ اپنی عمر 120 (ایک سوبیس ) برس بتایا کرتے تھے ۔ ان کے مشاعروں میں  شاعروں کی ویگن بھر کے جایا کرتی تھی۔ان میں حیدر گردیزی ، اقبال ارشد، حسین سحر اور ممتاز اطہر اکثر شرکت کرتے تھے۔ راستے میں حاضر مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ راحی مرحوم شاعروں کو بہت کم معاوضہ دیا کرتے تھے۔ شاعر اس مشاعرے میں شرکت ضرور کرتے تھے ۔ ایک پکنک کا سماں ہو ا کر تاتھا۔

واپسی پر کئی دن اس مشاعرے کی گفتگو رہتی تھی۔

اقبال ارشد کی زندگی دکھوں سے بھری تھی۔ انہیں آسودگی میسر نہ آئی لیکن ان کی زبان پر شکایت نہ آتی ۔ وہ صبر اور شکر کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ۔ نہ دولت کی ضرورت محسو س کی ، کرایے کے گھر میں رہے اور دنیا سے چلے گئے ۔ ملازمت ختم ہوئی تو اقبال ارشد کے پاس آمدن کا دوسرا کو ئی ذریعہ نہ تھا۔ وہ اپنی قلیل پنشن میں ہی گزارا کرتے رہے ۔ ان کی زندگی بہت محدو د ہو گئی تھی ۔ انہوں نے سفر کرنا چھوڑدیاتھا۔ ان کے پاس سواری نہیں تھی اگر ہوتی تو اسے کو ن چلاتا ؟ کوئی نوجوان شاعر انہیں مشاعرے میں لے آتا اور واپس پہنچا آتا ۔ چند بر س پہلے تک انہوں نے تقریبات میں گفتگو کی ۔ آخری بار وہ اپنے دوست حسین سحر کی وفات پر بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ا ور اس کے بعد اقبال ارشد بجھ گئے۔ بینائی ختم ہو چکی تھی۔ اب یاد داشت کمزور ہونے لگی تھی۔

جون ایلیا ء کا ایک شعر

اب وہ گھر ایک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اورمیں تنہا زندہ تھا

آدمی پیدا ہی مرنے کے لیے ہو ا ہے ۔ اسے مرنا ہی ہے ۔ لیکن جولوگ زندہ ہیں وہ اپنے دوستوں کو اچھے انداز میں یاد رکھیں فراموش نہ کریں اور ان سے ملتے رہیں تو مرنے والا کچھ دن اور زندہ رہ سکتا ہے  آخری دور میں اقبال ارشد کے دوست ان سے دور ہوگئے۔ اقبال ارشد نے زند گی ہمیشہ عارضی سمجھا یہی زند گی کی حقیقت ہے ۔

میں میر صاحب کے اس شعر کے ساتھ ہی قلم رکھتا ہوں۔

مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: