مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حمزہ حسن اور قیدی ۔۔۔||گلزار احمد

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟ جہاں زندگی کی قید انسان کو کئی نیی راہوں اور منزلوں سے روشناس کراتی ہے وہیں زندگی کی کہانی دریا کی موجوں کی طرح رواں دواں رہتی ہے

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمزہ حسن شیخ ڈیرہ کے وسیب کا ایسا نوجوان ہے جو پوری بارہ کتابیں لکھ چکا ہے اور اس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔ حال ہی میں شائیع ہونے والی کتاب..قیدی ۔۔ اس کے افسانوں کا مجموعہ ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ اس نے انگریزی شاعری میں تین کتابیں لکھیں۔
انگریزی نثر میں اس کا ایک ناول ہے اور دوسری کہانیوں کی ایک کتاب۔ اس کے علاوہ اس نے امرتا پریتم کی پنجابی نظموں کا انگریزی ترجمہ کر کے ایک کتاب اور کامل داود کے فرانسیسی ناول کا ترجمہ ۔۔موسی کا مقدمہ شایع کیا۔ اردو نثر میں اس کی پانچ کتابیں جن کے نام ہیں۔ مٹی کی خوشبو ۔آکاش کا جھومر ۔ بن پنکھ کے پنچھی ۔ کاغذ ۔اور قیدی ۔
حمزہ حسن اس وقت ملائیشیا سے انگریزی ادب میں Phd کر رہا ہے۔ وہ ڈیرہ گھر والوں کو ملنے آیا اور اب کوویڈ کی وجہ سے فلایٹیں بند ہوئیں تو پھنس گیا اور ہمارے ساتھ یونایٹڈ بک سنٹر پر بیٹھک لگاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستانیوں کی عادت ہے ہمارے دوست بھی اس کو مزید کتابیں لکھنے کا مشورہ تو نہیں دیتے بلکہ شادی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔کیونکہ یہاں بیٹھنے والے سارے ادیب شاعر صحافی شادی شدہ ہیں اور سارا دن ڈیرہ کی گرمی اور گرد میں رُلتے رہتے ہیں اس لیے ان ادیبوں کو حمزہ حسن کی پر سکون زندگی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور چاہتے ہیں وہ بھی شادی کر کے ان کی مانند دُھپ سڑی کا نمونہ بن جاے۔ حالانکہ اتنی کتابیں لکھنے اور غیر ممالک میں ڈیرہ کا نام روشن کرنے پر اس کو داد دینا چاہیے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان میں کتابیں لکھنا تو بہت مشکل کام ہے مگر اس نوجوان نے یہ معرکہ بھی سر کر لیا ہے۔زیر نظر قیدی کتاب میں کچھ قیدیوں کی کہانیاں ہیں۔کچھ تو پیار و محبت کے قیدی تھے کچھ دہشت و خوف کے تو کچھ غربت کے قیدی تھے۔زندگی بھی ایک قید خانہ ہےاور ہم سب اس میں قیدی کی حیثیت سے زندہ ہیں۔مرزا غالب بھی کہ گیے ہیں ؎ قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں ..
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟ جہاں زندگی کی قید انسان کو کئی نیی راہوں اور منزلوں سے روشناس کراتی ہے وہیں زندگی کی کہانی دریا کی موجوں کی طرح رواں دواں رہتی ہے۔ اس کتاب میں حمزہ شیخ نے سولہ افسانے لکھےہیں جو دراصل ہماری اردگرد کی زندگی کا عکس ہیں۔ عالمی دھشت گردی ۔ کشت وخون ۔ قتل و غارت اور معاشی ناانصافی وہ موضوعات ہیں جن پر قلم اٹھانا ایک مشکل ادبی فن تھا جس کو حمزہ نے بخوبی نبھایا ہے۔
یہ کام وہی ادیب کر سکتا ہے جس کا دل انسانی ہمدردی سے پُر ہو اور وہ انسانی دکھ کی واردات کو دل پر محسوس کرتا ہو۔ امید ہے حمزہ حسن کی اس نئی کتاب ۔قیدی ۔کو ادبی اور عوامی حلقوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہو گی۔

%d bloggers like this: