اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ ہے، اندر کوئی پریشانی ہے آپ میں؟ ڈپریشن؟ مراقبہ یا روحانیت؟||حسنین جمال

ٹھہریں، رکیں، بیٹھیں، سوچیں، لیٹ جائیں، جگہ نہیں ہے گھر میں تو باہر جا کے آسرا کر لیں کہیں لیکن رک جائیں۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیفیت ایک بڑی عجیب سی چیز کا نام ہے۔

یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بندہ فارغ ہو۔ دنیا جہان کے دھندے نمٹ چکے ہوں، ڈبل روٹی، انڈے، دہی لانے کی مجبوری نہ ہو، تین وقت کی روٹی پکانی اور کسی دوسرے کو نہ ٹھنسانی ہو، اپنا پیٹ بھرا ہو، ٹی وی خاموشی سے گھورتا ہو، موبائل پورا دن بجنے کے بعد سناٹے میں ہو ۔۔۔ تب کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

ہم انگریزی میں اسے موڈ نہیں کہہ سکتے۔ موڈ تو کسی بھی وقت کوئی نخرہ لے کر سامنے آ سکتا ہے۔ آپ سڑک پہ ہیں، کچن میں ہیں، دفتر میں ہیں، موڈ خود بہ خود طاری ہو کے اپنا کام کروا لے گا۔ کیفیت ہفتوں تک دروازے میں کھڑی آپ کو گھورتی رہے گی اور ذرا فرصت دیکھے گی تو دھم سے نازل ہو جائے گی۔

آپ نے کے ایف سی کھانا ہے، مووی دیکھنی ہے، کسی کو ملنے کا دل ہے، کہیں گھومنا ہے، شاپنگ کرنی ہے ۔۔۔ یہ سب موڈ ہیں، کیفیت ان کے درمیان میں جھلک دکھائے گی اور غائب، آئے گی تب جس وقت آپ اسے وقت دے سکیں گے۔

ہم لوگ اکثر سوچ رہے ہوتے ہیں، دوسروں سے بات کرتے ہیں، لکھ دیتے ہیں کہ ’کچھ ہے، کہیں کوئی کمی ہے، کیا ہے؟‘ سمجھ نہیں آتا۔

تو یہ جو چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ناچتے گاتے، ہنستے روتے پلے پڑ نہیں رہا ہوتا یہ کیفیت ہوتی ہے۔ یہ طاری ہونا چاہتی ہے، ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا، ہم غور کرنا افورڈ نہیں کرتے، ہم چلتی گاڑی میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر ایک دم جب گاڑی رکتی ہے تب چل پتہ جاتا ہے کہ اچھا، یہ کیس تھا۔ وہ جو ’کچھ‘ تھا، جو گڑبڑ تھی، وہ یہ تھی۔

موڈ سمجھیں کہ جیسے چھم چھم ناچ رہا ہے، جب دل ہو گا آ کے گلے لگا لے گا، کیفیت ضدی بچی ہے، کونے میں  کھڑی دیکھ رہی ہے پاس تبھی آئے گی جب پتہ ہو گا کہ ہاں، اب میری باری ہے۔

یہ جو رنگ رنگ کے نشے کیے جاتے ہیں، گولیاں پھانکی جاتی ہیں، دھمال ہوتے ہیں، بے خودی کو انوائٹ کیا جاتا ہے، یہ سب تھک ہار کے دعوت دیتے ہیں کیفیت کو، آؤ، کہ بھئی آؤ اور طاری ہو جاؤ۔ ہو گیا، بہت ہو گیا، تھک گئے، اب آ جاؤ۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کا دل ابھی زندہ ہے، جو کیفیت کو دعوت دیتا ہے اور وہ آ جاتی ہے پاس، جو سائیں ظہور کی ایک تان پہ واری صدقے ہو جاتے ہیں، جو اقبال حسین کی اداس عورت کا موڈ سمجھ سکتے ہیں، جو ناصر کاظمی کے ایک شعر کو چار دن طاری کیے پڑے رہتے ہیں، جو وارث کے چوہدری حشمت سے نفرت بھی کرتے ہیں لیکن بار بار وہی ڈرامہ بھی ڈھونڈتے ہیں، جو کسی درخت سے ملنے روز پارک میں جاتے ہیں، جو ننھے بچوں کی خوشیاں دیکھ کر خود بھی مست ہو جاتے ہیں، جو بہتے پانی میں خدا کی شان ڈھونڈتے ہیں، جو لمبا سانس لیں تو وہ ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔۔۔۔ خوش نصیب ہیں۔

یہ نعمت آپ کو وقت دیتا ہے لیکن کب؟ جب آپ خود وقت نکالیں اور سنیں کہ اندر سے آواز جو آ رہی تھی وہ ہے کیا؟

ٹھہریں، رکیں، بیٹھیں، سوچیں، لیٹ جائیں، جگہ نہیں ہے گھر میں تو باہر جا کے آسرا کر لیں کہیں لیکن رک جائیں۔

یہ جو مراقبے ہوتے تھے، قیلولہ ہوتا تھا، چلے کٹتے تھے، یہ اصل میں کیفیت کی گیم تھی۔ خود کو فرصت ملتی تھی تو یہ ضدی بچی آ کے گود میں بیٹھ جاتی تھی۔ ہم نے اسے روحانی سکون کا نام دے کے الگ سائیڈ پہ پھینک دیا۔ جس چیز کے ساتھ روحانیت لگ جائے اس سے نئے بچوں کو ویسے ہی بہت چڑ ہے، اور جائز ہے، تو، اس کا وہ ٹیگ ہٹا کے سوچیں۔

ہم نے لازم قرار دیا کہ بھئی کوئی مرشد ہو، کوئی استاد ہو، کوئی سکھانے والا ہو، کوئی گُر بتائے، اس کے گوڈے چھوئیں، پیر چومیں، اسے گرو کہیں، تب مراقبے کریں، تب کوئی منزلیں ملیں۔ ابھی کس کے پاس وقت ہے بابا لمبے چوڑے یہ سب بکھیڑے میں جانے کا؟

اس نام بازی کے چکر میں قیلولہ بھی ہم سے چھوٹ گیا۔ بڑوں نے کہہ دیا یہ فارغ لوگوں کی گیم تھی، ہم نے مان لیا۔ چلّے وغیرہ تو خیر ویسے ہی بدنام تھے، انہیں جانے دیں لیکن بنیاد یہی تھی۔ کیفیت سے ملاقات۔ اندر چل کیا رہا ہے، تھم کے، ٹھہر کے اسے دیکھنا اور پھر ایک وقت کے بعد کپڑے جھاڑ کے آگے نکل جانا۔ اس پریکٹس سے بہرحال انسان رکنا سیکھتا تھا، چیزوں کو دیکھ کے انہیں انجوائے کرنا، ان کے بارے میں سوچنا شروع کرتا تھا۔

غور کریں تو چوبیس گھنٹے اب ہم لوگ کمیونیکیشن میں ہیں۔ سوشل میڈیا مسلسل کسی نہ کسی سے کوئی بات، دفتر میں کولیگز سے بات، پڑھنے جائیں تو دوسرے کلاس فیلوز سے بات، گھر میں سب ساتھ والوں سے بات، میسیجز، دروازے کی بیل ۔۔۔ یہ سب کچھ ہمیں خود سے بات نہیں کرنے دیتے۔ کیسا فلمی سا ڈائیلاگ ہے، ’خود سے بات!‘

یہ مگر ضروری ہے۔

پہلے زمانے میں ہوتا یہ تھا کہ اتنی زیادہ کمیونیکیشن نہیں تھی، سکرینیں سرے سے ناپید تھیں تو بندوں کو آٹو میٹکلی وقت مل جاتا تھا بیٹھنے کا، سوچنے کا یا کم از کم قیلولہ ہی کرنے کا۔ دیکھیں کھانا کھایا دوپہر کا، آدھے پونے گھنٹے کو لیٹ گئے، نیند آئی تو سو لیے ورنہ سوچتے رہے، بعد میں اٹھ کے روٹین کام چالو کر دیے۔ کیا مزے کی زندگی نہیں تھی؟ مطلب آرام ہی تھا نا یار؟ کون نہیں چاہتا کرنا؟

تو، اس سارے آرام میں دماغ تھکا ہوتا تو سو جاتا ورنہ وہ سہ پہر تک کا اینالسس آپ کو پیش کر دیتا کہ آج یہ ہوا، یوں ہوا، اور اب اس کا نتیجہ ایسا ہو گا۔ پھر دن بھر میں وہ جو کیفیت آپ کو ڈھونڈ رہی ہوتی وہ اس وقت تھوڑی دیر کو طاری ہو جاتی ۔۔۔ روز کے روز آپ کیفیت کو بھگتا لیتے۔ جب زیادہ شدت ہوتی تو مراقبے کا رخ کر لیتے بزرگ، باقی معاملے وہاں طے ہو جاتے۔

ابھی یہ دکان ہم نے سرے سے بند کر دی ہے۔ ہمیں لوگوں کی تروڑ ہوتی ہے، ہم کمپنی ڈھونڈتے ہیں، چوبیس گھنٹے انگوٹھے چلاتے ہیں، دوست تلاش کرتے ہیں، اسے نہیں وقت دیتے جو اس انتظار میں ہوتی ہے کہ یہ فارغ ہو لاٹ صاب تو جاؤں اسے بتاؤں کہ بابو فلاں دن جو تم سڑک پہ اچانک گنگنانے لگ گئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ رات میں کہیں دور کسی گھر سے اس گانے کی آواز آ رہی تھی اور تم سنتے ہوئے بھی نہیں سن رہے تھے۔ وہ جو شام کو تمہیں رونے آئے جا رہے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ پرسوں کسی دوست نے اپنی جوان اولاد کے آٹزم نما مسئلے بتائے تھے اور تم اس وقت تو ڈسکس کر گئے لیکن وہ چیز، انسان کی لاچاری، باپ کی مجبوری تمہارے دماغ میں بیٹھ گئی تھی اور تب مغرب کے وقت تمہیں ڈپریشن ہوتا تھا یا پھر دو ہفتے پہلے جو کسی نے تمہیں سوشل میڈیا پہ طعنہ دیا تھا وہ اصل وجہ ہے جو آج تک تمہاری مسکراہٹ کے سوئچ نہیں آن ہو رہے۔

تو یہ طے ہوا کہ بس کچھ بھی نہ کریں، روز نہ سہی دو تین دن بعد وقت نکالیں، گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ اور بس سوچیں۔ خود کے بارے میں، کسی دوسرے کے بارے میں، کچھ بھی لیکن سکرینوں سے دور، باتوں سے دور، جہان سے دور اور اپنے قریب۔ اس میں پھر کیفیت اور موڈ کا فرق جو ہے مزید کھل کے سامنے آئے گا۔

ہاں، خود سے بھاگنا نہیں ہے، کہ سوچیں گے تو پھنسیں گے۔ نہیں سوچیں گے تو استاد زیادہ پھنسیں گے۔ اس معاملے کے لیے میڈیکل نام بہت سارے مشہور ہیں لیکن سیدھی بات ہے، اکو الف تینوں درکار!

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: