نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزاد کشمیر میں 2 ریفرنڈم کروانے کا عندیہ ۔۔ ؟||حیدر جاوید سید

کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم یہ خبر کہاں سے آئی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوٹلی آزاد کشمیر میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم یہ خبر کہاں سے آئی ہے۔
کوٹلی کے جلسہ میں ہی انہوں نے آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کروانے کا عندیہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ریفرنڈم میں کشمیری عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور دوسرے ریفرنڈم میں الحاق پاکستان یا آزاد ریاست کے طور پر رہنے کا فیصلہ۔
اسی خطاب میں انہوں نے سلامتی کونسل کی 1948ء کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے کا بھی ذکر کیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی 1948ء کی قرارداد کی بنیاد پر استصواب رائے اور وزیراعظم کی جانب سے آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کروانے کا عندیہ یکسر مختلف ہیں۔
سلامتی کونسل کی قرارداد میں بھی کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے سے قبل کئے جانے والے انتظامات والی شقیں لگتا ہے کبھی کسی کے زیرمطالعہ ہی نہیں آپائیں ورنہ عالمی ادارے کی جانبداری روز اول سے ہی دوچند ہوجاتی
ثانیاً یہ کہ یہ رائے شماری کشمیر کے دونوں حصوں میں ایک ہی وقت میں ہونی ہے قرارداد میں ایسی کوئی شق نہیں جس سے یہ تاثر لیا جائے کہ تقسیم شدہ کشمیر کے دونوں حصوں میں الگ الگ رائے شماری ہوگی۔
وزارت عظمیٰ کے منصب پرفائز شخصیت کو اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے تنازع کشمیر کے پس منظر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اور پاکستان کے دیرینہ قومی موقف کے ساتھ دیگر پہلوئوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئےتھا۔
انہوں نے آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کروانے کا جو عندیہ دیا اس کا تنازع کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں سارا معاملہ ہی اس سے یکسر مختلف ہے۔
پاکستان کا روز اول سے یہ موقف ہے کہ بھارت نے تقسیم برصغیر کے وقت ریاستوں کے الحاق کے حوالے سے طے ہوئے فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کو ترغیب دلواکر بھارت سے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کروائے۔
بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور کھلی جارحیت کے خلاف پاکستان یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے کر گیا جہاں 1948ء میں وہ قرارداد منظور ہوئی جس کی بنیاد پر گزشتہ بہتر سالوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ میں کئے گئے وعدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد سے انحراف کرکے خطے میں امن دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
گزشتہ روز کوٹلی میں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس آزاد کشمیر میں 2ریفرنڈم کروانے کی پیشکش کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے ان کے ناقدین الزام لگارہے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے انداز میں تقریباً وہی بات کہہ دی یا حکمت عملی بیان کردی جو بھارت پچھلی سات دہائیوں سے کہہ رہا ہے کہ اس کے زیرقبضہ کشمیر کا حصہ مہاراجہ کشمیر کے الحاق بھارت کی دستاویزات پر دستخطوں کی وجہ سے قانونی حیثیت رکھتا ہے جبکہ پاکستان کشمیر کے ایک حصہ پر قابض ہے۔
یقیناً یہ تحفظات "حقیقت پر مبنی” نہیں ہوں گے اور وزیراعظم کا بھی ایسا کوئی ارادہ یا سوچ نہیں ہوگی البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ سیاسی ہرکیات اور خارجہ پالیسی کی نزاکتوں سے کاملاً آگاہ نہیں ہیں اس لئے انہوں نے ایک ایسا بیان دے دیا جو مسئلہ کشمیر کے پس منظر اور پاکستان کے موقف ہر دو کے برعکس ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ قبل ازیں وہ گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن کے وقت بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کرکے اپنے ناقدین کی تنقید کی زد میں آچکے ہیں۔
اس وقت بھی ان کی توجہ اس امر کی طرف دلائی گئی تھی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی طرح متنازعہ علاقے ہیں ان تینوں کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح بھارت کا 5اگست 2019ء کا کشمیر کے حوالے سے فیصلہ غلط اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے یکسر برعکس ہے۔ اس طرح ان کی گلگت کو صوبہ بنانے اور اب آزاد کشمیر میں 2ریفرنڈم کروانے کا عندیہ بھی درست تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس امر کو بھی بہرطور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے آزاد ریاست کے طور پر قائم ہونے کا تصور کشمیریوں کی ایک سیاسی جماعت جموں و کشمیر محاذ رائے شماری نے پیش کیا تھا۔
1983ء میں حریت پسند رہنمامقبول بٹ کو بھارت میں دی گئی پھانسی کے بعد چلنے والی تحریک مزاحمت نے اس خودمختار کشمیر کے تصور سے جنم لیا تھا۔
اس تحریک مزاحمت میں الحاق پاکستان کی حامی تنظیمیں دوسرے مرحلہ میں شامل ہوئیں۔
اسی طرح آزاد کشمیر کے آئین میں بھی آزاد ریاست کے تصور کی کوئی گنجائش نہیں۔ وزیراعظم غالباً اس بات سے آگاہ نہیں کہ آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق الحاق پاکستان کا مخالف شخص یا جماعت ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔
یہ بجا ہے کہ آئین کی ان شق پر کشمیریوں کے ایک بڑے حلقہ کے تحفظات موجود ہیں لیکن گزشتہ پانچ چھ عشروں سے کسی بھی حکومت کے دوران اس ضمن میں کبھی کوئی دستوری ترامیم پیش نہیں کی گئیں یہی وجہ ہے کہ محاذ رائے شماری یا جے کے ایل این کے امیدواران ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں قانونی طور پر حصہ نہیں لے سکتے۔
حیران کن بات یہ ے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ہی منافی نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے آئین اور پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر موقف کے بھی یکسر منافی ہیں۔
اندیریں حالات ہم ان کی خدمت میں یہ درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ وہ حساس امور پر پبلک اجتماعات میں اظہار خیال سے قبل ماہرین سے مشاورت کرلیا کریں تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی بات نہ کہنے پائیں جو زمینی حقائق اور ریاستی موقف کے برعکس ہو
البتہ اگر 2ریفرنڈم کروانے کے حوالے سے ان کا عندیہ محض جذباتی تقریر نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا موقف ہے تو پھر خود ریاستی اسمبلی کے آج ہونے والے انتخابات پر سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے
کیونکہ آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے آزاد ریاست کے حامی متعدد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے
جبکہ وزیراعظم پاکستان اعلان کررہے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو یہ فیصلہ کرنے کا حق دیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست کی حیثیت سے کشمیر کی شناخت چاہتے ہیں۔
ہم مکرر ان کی خدمت میں یہ عرض کریں گے کہ ان کے حالیہ خطاب کی بعض باتوں خصوصاً 2ریفرنڈم کروانے کے عدندیہ سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ قومی و ریاستی موقف کی نفی ہوئی ہے۔
بدقسمتی سے اس پیشکش کو بھارتی ذرائع ابلاغ کشمیر پر بھارت کے موقف کی فتح کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
ہر دو باتوں سے کشمیری تحریک مزاحمت میں شریک جماعتوں کی پریشانی اپنی جگہ بجا طور پر درست ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان نے اپنے دیرینہ موقف میں کوئی تبدیلی کی ہے جیسا کہ وزیراعظم کے حالیہ خطاب سے تاثر مل رہا ہے تو بہتر یہ ہوگا کہ اس معاملے کو پاکستان کی پارلیمان کے منتخب ایوان میں زیربحث لایا جائے اور پارلیمنٹ حتمی فیصلہ کرے۔
ہمیں امید ہے کہ جناب وزیراعظم معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے آنے والے دنوں میں اس پیشکش کو دہرانے سے گریز کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author