مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایسے زمانے میں داخل ہوگئے ہیں جہاں مابعد سچ (پوسٹ ٹروتھ) کی اصطلاح فرسودہ (کلیشے) ہوچکی ہے۔
اسے "سچائی کے مشترکہ معیار کا تحلیل ہونا” سے تعبیر کیا گیا اور یہ اصطلاح 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب اور برطانیہ کے بریگزٹ ریفرنڈم کے عرصے میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوئی۔
اسے 2016 کے اختتام تک اتنا زیادہ بولا گیا کہ آکسفرڈ لغات نے اسے سال کا سب سے اہم لفظ (ورڈ آف دا ائیر) قرار دیا۔
اب پانچ سال بعد یہ خیال کہ ہم مابعد سچ دور میں جی رہے ہیں، پرانا ہوکر دلچسپی کھو چکا ہے۔
شاید اس کا سب سے پریشان کن پہلو اس صدمے کا ختم ہوجانا ہے۔ سب لوگ کندھے اچکا دیتے ہیں: اب ہم ایسی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔
نیو ہیومینسٹ کے تازہ شمارے میں اس بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈیوڈ ہٹ نے سوال اٹھایا ہے: کیا واقعی ہم ایسے دور میں موجود ہیں جو دیوانے پن کی سوچ اور سازشی نظریے کا جلد شکار ہوجاتا ہے، یا ہمیشہ سے ایسا ہی تھا؟
اور دنیا بھر میں سازشی نظریات کی یکسانیت اور تضادات ہمیں ہمارے سیاسی نظاموں کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟
اس کے علاوہ جیم بارتھولومیو انٹرنیٹ پر معلومات کی جنگوں (آن لائن انفارمیشن وارز) کے اگلے محاذوں تک گئے ہیں اور گمراہ کن ذرائع کا انسداد کرنے والی صنعت (اینٹی ڈس انفارمیشن انڈسٹری) کے فروغ کا جائزہ لیا ہے۔
حقائق کو جانچنے کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
اور بدنیتی پر مبنی جھوٹ کی بڑی لہر، جسے پھیلانے میں صرف بے نام ٹرولز نہیں بلکہ نمایاں سیاست دان بھی شریک ہوں، کو روکنے کے لیے کیا سختی سے تردید کا کوئی فائدہ ہے؟
ہم اکثر ایسے نظام انصاف کے بارے میں سوچتے ہیں جو غیر جانب دارانہ حقائق کا کھوج لگانے کی بنیاد پر قائم ہو۔ لیکن بیرسٹر گیان سماراسنگھے کے علم میں ایک ایسا پریشان کن طریقہ آیا ہے جس کے ذریعے عدالت میں "سچ” کا مبینہ تعین کیا جاتا ہے، یعنی لوگوں کے صرف چہرے دیکھ کر۔ انھیں اعتراض ہے کہ اس سے ناانصافی کا خدشہ ہوتا ہے۔
اگر آپ انٹرنیٹ کے زمانے میں سچ اور جھوٹ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو ہمارے پوڈکاسٹ ودھ ریزن میں پولرزائشن لیب، ڈیوک یونیورسٹی کے کرس بیل کا انٹرویو سنیے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ ہم اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کیسے درست کرسکتے ہیں۔
ایڈیٹر سمیرا شیکل کا اداریہ
نیو ہیومینسٹ، 2021 موسم گرما
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر