اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دانش صدیقی کی موت، مودی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا؟||حسنین جمال

کیا اسے خدشہ تھا کہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے بالکل کھڈے لائن لگا دیا جائے گا؟ کیا وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ بھارت مرنے کے بعد اسے اون نہیں کرے گا؟ کیا اسے علم تھا کہ مودی جو ایک دن میں بارہ ٹوئیٹیں کھڑکاتا ہے، ایک بھی ٹویٹ اس کی جوان مرگ پہ نہیں کرے گا؟

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’آٹھ سیکنڈ تک میرے حلق سے کوئی لفظ باہر نہیں آیا، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہنے کو ہے کیا، پھر پہلے آنکھوں سے دو آنسو نکلے ان کے بعد میں نے پوچھا، یار یہ کیسے ہو گیا؟‘

شیراز بول رہا تھا اور میں اس کے چہرے پہ لکھا درد پڑھ رہا تھا۔ ’جب دفتر میں بیٹھے ہوئے میرے سامنے ایک دم یہ خبر آئی تو مجھے یقین ہی نہیں آیا، میں ڈیسک پہ زور سے ہاتھ مارا، شٹ، یہ کیسے ہو گیا، اور سر جھکا کے بس اسی وقت باہر آ گیا۔‘

ہمارے خطے میں جو صحافی بچ جاتا ہے وہ ساری زندگی اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی بے وقت موت پہ مرثیے لکھتا رہتا ہے۔ مر جاؤ، بھریا میلہ چھوڑ دو، یا مرنے والوں کو روتے رہو۔

’اس وقت مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کسے فون کروں، کون ہو جس سے دانش کی تعزیت کروں؟ میں نے اجمل جامی کو فون ملایا، ’آٹھ سیکنڈ تک میرے حلق سے کوئی لفظ باہر نہیں آیا، سمجھ نہیں آ رہی تھی کہنے کو ہے کیا، پھر پہلے آنکھوں سے دو آنسو نکلے ان کے بعد میں نے پوچھا، یار یہ کیسے ہو گیا؟‘

شیراز نے مجھے ایک تصویر دکھائی، شمشان گھاٹ تھا، لاشیں جل رہی تھیں، ایک طرف سائیکل ریڑھی پہ مزید لکڑیاں پہنچیں، انہیں اتارنے کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا، دو تازہ میتیں خود کو جلائے جانے کی منتظر تھیں، پانچ چھ لوگ کرونا سے بچنے والی پوری کٹ پہنے کھڑے تھے، ایک لواحقین نما انسان صرف ماسک پہنے سامنے گھورتا تھا اور باقی تین چار کے لیے شاید یہ کاروبار زندگی تھا۔ وہ تصویر اتنی طاقتور تھی کہ  اپریل 2021 میں جب آئی تو پورے بھارت کو ہلا کے رکھ دیا۔

ہر طرف سے یہ سوال اٹھا کہ اگر اتنی چتائیں ایک شمشان میں جلتی ہیں تو پورے بھارت میں کرونا سے مرنے والوں کے ٹھیک ٹھیک اعدادوشمار ہیں کیا؟

جو سب سے بڑا ظلم تھا اس کا ذکر محتاط ترین زبان میں بھی کروں تو یار جان دل دکھتا ہے۔ سنیں، شیراز ہی کی زبانی آگے سنیں پھر بتاتا ہوں۔

’جب یہ تصویر دانش کے ٹوئٹر پہ آئی تو میں نے اسی روز وہاں کمنٹ کیا۔ دانش بھائی، آپ کی فوٹوگرافک آنکھ کا بہت بڑا قدردان ہوں میں، لیکن یہ تصویریں مجھے بالکل توڑ گئیں۔ اپنی حفاظت کریں (کرونا سے)، مضبوط رہیں!‘

ابھی یہ کمنٹ شیراز نے تو وہاں کر دیا لیکن جیسے ہمارے یہاں محب وطن بھائی لوگ ہوتے ہیں ویسے ادھر بھی موجود ہیں۔ دونوں کی یہ محبت انسان دوستی سے کئی ہزار میل دور کسی چھپڑ کے نیچے قیام کرتی ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ 23 اپریل کے اس کمنٹ کا جواب 16 جولائی کے دن ملا کیا ہو گا؟

’شیراج بھائی، اگرچہ میں ان کی فوٹوگرافک آنکھ کا زیادہ بڑا قدردان نہیں ہوں لیکن یہ تصویر بہت توڑ دینے والی ہے۔ مضبوط رہیں اور اپنی حفاظت کریں۔‘ یہ لکھ کر ساتھ دانش صدیقی کی لاش والی تصویر ٹوئٹر کمنٹ میں لگائی گئی تھی۔

یار اتنی نفرت؟ کسی جوان جہان فوٹوگرافر کی موت پہ اس سے اتنی نفرت؟ وہ مسلمان تھا اس لیے؟ وہ لکھتا نہیں تھا، تصویریں کھینچتا تھا جو بولتی تھیں، اس لیے؟ اس قدر نفرت کہ دو ماہ پرانی پوسٹ کا ایک فین کمنٹ بھی لوگ نہیں بھول سکے؟

کئی اور کمنٹ آئے، شیراز کے اسی کمنٹ کے نیچے، کسی نے لکھا کہ وہ انڈیا میں سیف تھا، اسلامی ملک میں گیا اور مارا گیا، کوئی اسے ’کرما‘ کی کرامت کہتا، ایک نے افریقی ڈانس جنازے والی میوزک ویڈیو لگائی، دوسرے نے کہا 72 حوروں کے پاس چلا گیا، مطلب ایک انسان کسی کی میت والی فوٹو سامنے رکھ کے خوشی کیسے منا سکتا ہے؟

جنگیں ٹھیک ہوتی ہیں، بڑا ایٹم بم اس مسئلے کا حل ہے، نہ ادھر کوئی رہے نہ ادھر رہے، سب مر جائیں گے تو آخر وہ سب بھی نہیں ہوں گے جو ایک جوان ٹیلنٹڈ موت کا اس طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہم نہیں نہ سہی، طریقہ بس یہی ہے۔

یار اس ایک کو چھوڑیں، تصویریں جا کے دیکھیں تو سہی دانش کی، لگائیں گوگل اور جتنی ہو سکے دیکھیں، چند میں دکھا دیتا ہوں۔

یہ تصویر دیکھیں، بے تحاشا بگلے، صبح کا وقت، کوئی لینڈ کر رہا ہے، کوئی اڑنے کے لیے پر پھیلا رہا ہے، کوئی تیزی سے اپنا حصہ لینے کو لپکتا ہے، جیسے ائیرپورٹ ہے بگلوں کا، بے تحاشا پروازیں، ہر کسی کا اپنا پوز ۔۔۔ بابے کے ہاتھ میں دونوں تھیلیاں خالی ہیں، وہ جتنا دانہ لایا تھا سارا ڈال دیا۔ پرندوں کے لیے روز کی پریکٹس ہے، وہ بابے سے نہیں گھبرا رہے، بابا ان کے بیچ میں سے جا رہا ہے واپس۔

آرام، اطمینان، سکون، ٹھنڈک ۔۔۔ جو کچھ ہے اس تصویر میں ہے۔ میرے بس میں ہو تو اسے ’بابا جی، بگلے اور بھرویں راگ‘ کا ٹائٹل دے دوں کہ بہرحال یہاں وہ میوزک بلکہ پوری کیفیت بند ہے جو صبح کے اس راگ میں ہوتی ہے۔

30 اپریل 2019 ، سری لنکا کے شہر نیگومبو میں سکول کی ایک چودہ سالہ طالبہ وِشمی کے بستر پر پڑا ہوا یہ بیگ دکھائی دے رہا ہے۔ وِشمی، اس کی بہن اور ابو سباسچن چرچ میں ایسٹر کے روز بم دھماکوں کے دوران مارے گئے تھے۔ وشمی کی ماں چندیما یشوردنا زخمی ہو گئیں، بچ گئیں۔ ’میں اس لمحے کے بارے میں بتا ہی نہیں سکتی۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں نے چھوٹی وشمی کے جوتے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھے اور بڑی نے اس وقت جو نقاب اوڑھا تھا، وہ میرے پاس تھا۔ میں پورے ہسپتال میں پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی۔ مجھے نہیں یاد کتنے چکر میں ایسے ہی لگاتی رہی۔ مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میری بیٹیاں مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں، میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔‘ چندیما نے کہا، ان کا چہرہ ایک بڑے زخم کی وجہ سے اب بھی پٹیوں میں ہے۔ رائٹرز / دانش صدیقی

یہ تھا مرنے والا! کوئی لفظ خود سے نہیں لگائے، جو کیپشن تھی وہ ترجمہ آپ کے سامنے رکھ دیا۔ کچھ تصویروں کو دیکھنے والی آنکھ اور کچھ کو بتانے والا فوٹوگرافر چاہیے ہوتا ہے، وہ بندہ دونوں ہنر رکھتا تھا۔ انڈیا کا ایسا ہی عکس کار ایک اور بھی ہے، مائنک آسٹن صوفی عرف دلی والا۔ ادھار رہا ۔۔۔ دانش کی ایک اور تصویر دیکھیں۔

یہ والی بھی اسی روز مجھے شیراز  نے دکھائی۔  دیکھنے والی آنکھ نہیں تو مونا لزا کو بھی آپ پانی پہ لکھ دیں گے۔ اب یہ بس دنیا کا دھندہ ہے۔ یہاں سیدھے آپ کی نظر جائے گی خاتون کے سکرٹ سے نکلی ٹانگوں پہ، پھر آپ نے پیچھے بیٹھی موبائل سے کھیلتی دو خواتین کو نوٹ کرنا ہے۔ پھر نیلا دروازہ جو بالکل سینٹر میں ہے سب کے پیچھے، پھر سیڑھیاں ۔۔۔ اس کے بعد جا کے باری آئے گی اس فقیر کی جو نیچے کونے میں بدحال لیٹنے نما بیٹھا ہے۔ شاید آپ نے اس گوری ٹانگوں والی کے جوتے نہ دیکھے ہوں، وہ فقیر کے آگے جوتے جو ہیں، اسی کے ہیں۔ وہ بائیں طرف اڑتا کوا ۔۔۔ زندگی کی بے حسی، دولت کی بے نیازی، وقت کی بے ثباتی اور انسان کی مفلسی، ہے نا ادھر سب کچھ؟ دانش نے سب سے پہلے فقیر کو دیکھا ہو گا، بس یہ آنکھ ہے جو مرنے والے کی تھی۔

دانش صدیقی کو اس کی فوٹو گرافی نے پلٹزر پرائز دلوایا، اس نے روہنگیا مسلمانوں کی تصویریں بنائیں، وہ نسلی دنگے فساد میں ہندوؤں کے ہاتھوں مار کھاتے نہتے مسلمانوں کی شکلیں دنیا کے سامنے لایا، مسلمان طلبہ جب دہلی میں احتجاج کر رہے تھے، ان کی فوٹوئیں بنائیں اور میڈیا کو بتایا کہ وہ پرامن ہیں ۔۔۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، اس نے ہندو نانگے سادھوؤں کی، مٹکا پھوڑتے پنڈتوں کی، ہولی مناتے نوجوانوں کی، بنارسی شاموں کی، مندروں میں پوجا پاٹ کی فوٹوگرافی کیوں کری؟

کیا اس لیے کہ وہ بھارتی مسلمان تھا اور اپنی سیکولر پہچان چاہتا تھا؟ کیا اسے خدشہ تھا کہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے بالکل کھڈے لائن لگا دیا جائے گا؟ کیا وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ بھارت مرنے کے بعد اسے اون نہیں کرے گا؟ کیا اسے علم تھا کہ مودی جو ایک دن میں بارہ ٹوئیٹیں کھڑکاتا ہے، ایک بھی ٹویٹ اس کی جوان مرگ پہ نہیں کرے گا؟ امریکی صدر ٹویٹ کرے گا، اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل کرے گا، افغان حکومت کرے گی، طالبان جن پہ اسے مارنے کا الزام ہے وہ کریں گے، نہیں کرے گا تو اس ملک کا وزیر اعظم نہیں کرے گا جہاں دانش صدیقی رہتا تھا؟ دانش صدیقی جو کوئی عام تام بندہ نہیں تھا ملک کا منا پرمنا فوٹو جرنلسٹ تھا ۔۔۔ بلکہ ایسا نیوز فوٹوگرافر جو دنیا میں بھارت کی پہچان تھا۔

دانش کی لاوارث موت نے مجھے ایک چیز سمجھا دی، مرنے کے بعد دنیا میں بھی آدمی اپنی اصل پہ ہی اٹھائے جائیں گے۔ وہ مسلمان تھا، لاکھ نیوٹرل ہو جائے، لبرل ہو جائے، اس کی ہلاکت مودی رجیم میں اسی طرح ان اکنالجڈ رہنی تھی۔ بہتر ہے وہی بن کے رہو جس کا ٹھپہ لگ چکا ہے!

خیر، اپنے یہاں بھی حالات یہی ہیں۔ عین اسی طرح بلوچ، سرائیکی، سندھی، پٹھان مذہبی اقلیتیں سب مارجنلائزڈ ہوتے ہیں ۔۔۔ وہ ہ ہ ہ ہ ہ دووووور نکڑ میں دیوار سے لگے ہوئے۔ چاہے نوبیل جیت لائیں، بھلے کسی وزارت تک پہنچ جائیں بلکہ فوج تک میں اعلیٰ عہدوں پہ جا پہنچیں، پہچان وہی رہتی ہے جو آپ لے کر پیدا ہوئے تھے!

تو شیراز بھائی، خیر ہو مرشد ۔۔۔ کہانی آپ کی تھی، قصہ خوانی میرے حصے میں آ گئی، باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں!

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: