مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چلو چلو تخت سلیمان چلو||گلزار احمد

ڈیرہ میں گزشتہ روز 48ڈگری سینٹی گریڈ گرمی تھی ۔لوڈ شیڈنگ پر کچھ کہنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ میں آج صبح سے بھورے basement میں چھپا بیٹھا ہوں کیونکہ بجلی اب بھی نہیں ہے۔ سوچا آپ کو میں بھی خواب دکھلا دوں تاکہ کچھ ٹھنڈک کا احساس تو ہو۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔
ڈیرہ میں گزشتہ روز 48ڈگری سینٹی گریڈ گرمی تھی ۔لوڈ شیڈنگ پر کچھ کہنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ میں آج صبح سے بھورے basement میں چھپا بیٹھا ہوں کیونکہ بجلی اب بھی نہیں ہے۔ سوچا آپ کو میں بھی خواب دکھلا دوں تاکہ کچھ ٹھنڈک کا احساس تو ہو۔
ڈیرہ اسماعیل خان شھر کے مغرب میں کوہ سلیمان تقریبا” ایک سو کلو میٹر پر واقع ہے جب ہم چھوٹے تھے تو آلودگی کم تھی اور یہ پہاڑ ہمارے گھروں سے صاف نظر آتے ۔سردیوں میں برف سے لدی چوٹیاں عجیب نظارہ پیش کرتیں ۔ پھر تخت سلیمان سے جڑی جنوں پریوں کی کہانیاں ہمارے رومانس کو بڑھاوا دیتیں۔ بہت عرصہ پہلے میں چترال لواری ٹاپ سڑک کے ذریعے جاتا اور لواری ٹاپ کی چوٹی پر کھڑا ہو کے سوچتا کہ یہ چوٹی تخت سلیمان سے کم بلند ہے مگر وہاں موسم تبدیل ہوجاتا ہے اور تیز ہوا۔گلیشیر لواری ٹاپ کا حسین نظارہ پیش کرتے مگر تخت سلیمان کو کوئی نہیں پوچھتا۔پھر میں نے تخت سلیمان پر لکھنا شروع کیا تو یہاں کے دانشوروں اور مقامی لوگوں نے دلچسپ معلومات دیں۔ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے حکومت اربوں روپے کرپشن اور بے کار منصوبوں پر سالانہ خرچ کرتی ہے اور productive
منصوبوں کو صفر سے ضرب دیتی ہے جس کی وجہ سے ہم مسلسل قرضوں کے جہنمی دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ چلیں چھوڑیں دل کو کیا اداس کریں آپکو تخت سلیمان کا اصل قصہ سناتا ہوں۔
تخت سلیمان ڈیرہ اسماعیل شھر کے مغرب میں درازندہ کے مقام پر ایک پہاڑ پر واقع ہے جس کی بلندی 11440 فٹ ہے۔ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفرنامے میں اس کا ذکر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کا اڑتا تخت یہاں اترا تھا اس لیے اس پہاڑ کا نام بھی ان سے منصوب ہوا۔سنا ہے ایران کے مغربی آذربائجان کا ایک مقام تخت سلیمان سے مشھور ہے جبکہ کرغستان میں بھی ایک کوہ سلیمان موجود ہے۔اس کے علاوہ ایک بزرگ سید محمد حمزہ گیسودراز اپنے خاندان سمیت یہاں دفن ہیں۔لیکن بعض مورخ سید محمد حمزہ گیسودراز کی آخری آرام گاہ حیدر آباد دکن انڈیا بتاتے ہیں۔ مسلمان اس تخت کی جگہ چڑھ کر نفل بھی ادا کرتے ہیں۔ ہندووں کے ایک بھگت جس کا نام بھگت شری پرھلاد ہے بھی یہاں قریب رہے ہیں ۔اس طرح پارٹیشن سے پہلے ہندو اور مسلمان اکٹھے گرمیوں کے موسم میں تخت سلیمان پر زیارت کے لیے جاتے تھے۔ دو انگریزوں
major Maclvor and captain.AH Mcmohan
28 جون 1891ء کو اس چوٹی پر گیے اور بعد میں 1909ء تصاویر بھی بنائی گئیں۔تخت سلیمان کے سلسلے میں جب میں نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تو پیر نمیر نے کافی معلومات مزید مجھے دیں۔انہوں نے کہا شیرانی قبائل کا یہ علاقہ ہے شیرانی انتہائی پرامن اور مہمان نواز اور اچھے لوگ ہیں اور درازندہ اس علاقے کا بڑا شہر ہے۔ یہاں مار خور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور پٹھانوں کے جد امجد قیس عبدالرشید کا مزار بھی ہے۔۔قیس عبدالرشید کے متعلق قاضی جمیل صاحب نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہو ے لکھا کہ وہ صحابی تھے کیونکہ حضرت خالد بن ولید ؓ کے کہنے پر حجاذ جا کر اسلام قبول کیا تھا۔ پیر نمیر آگے لکھتے ہیں کہ تخت سلیمان پر صدیوں پرانے چلغوزے کے جنگلات ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے اگر آپ تخت سلیمان دیکھنے جانا چاہتے ہی تو اس کے بیس تک پہنچنے کیلئے تقریباً دو گھنٹے لگیں گے جو 105 کلومیٹر دور ہے اور آگے پھر روڈ نہیں ہے وہاں سےاپ کو اونٹ کرایہ پر پکڑ کے اوپر پہاڑ کی طرف جانا ہو گا اور سات آٹھ گھنٹوں میں آپ اوپر چوٹی پر پہنچیں گے ۔ پانی اور خوردونوش کا سامان ساتھ لے جائیں گے ۔۔البتہ پانی کا ایک چھوٹا تالاب وہاں موجود ہے لیکن بارشوں کے سیزن میں اس میں پانی ہوتا ہے اس کے علاوہ نہیں ہوتا ۔ ایک چھوٹا کمرہ بھی بنا ہوا ہے اگر بارش ہو جا ے تو اس کے اندر جاکر بارش سے بچا جا سکتا ہے ۔ اس کمرے اور تالاب سے متعلق کلاچی سے محمد شعیب صاحب نے بتایا کہ صدر ایوب کے خلاف تحریک کے زمانے میں حق نواز خان شھید گنڈہ پور نے تخت سلیمان پر تین مہینے گزارے تھے اور کمرہ اور تالاب انہوں نے بنوایا تھا اور ان کے استعمال میں آنے والے برتن بھی اب تک وہاں رکھے ہیں۔ یہ وہی حق نواز ہیں جن نے نام پر ڈیرہ کا حق نواز پارک ہے۔۔۔تخت کے اوپر انتہائی خوبصورت نظارے ہیں اونچے اونچے چلغوزے کے صدیوں پرانے درخت ہیں جو مسحورکر دیتے ہیں۔اب بے دردی سے کٹ رہے ہیں۔ ۔بہت سے اور دوستوں نے اپنی آرا پیش کیں ان کا کہنا تھا کہ اگر اس تخت سلیمان پر سڑک بن جاے تو لوگ کاغان اور ناران جانا بھول جائیں گے اور سیاحوں کا رش اس طرف ہو جاے گا۔ڈیرہ اسماعیل خان سے یہ تقریبا” 120 کلو میٹر فا صلہ بنتا ہے اور اب اس کے قریب CPEC بھی گزر رہی ہے۔ KPK کی حکومت ہر سال سیاحت کے فروغ کے لیے اربوں روپے مختص کرتی ہے لیکن اس رقم کا زیادہ حصہ ھزارہ اور سوات میں خرچ ہو گا۔البتہ فیصل امین خان گنڈہ پور نے شیخ بدین سڑک کے لیے خطیر رقم منظور کروائ ہے ۔اس پر کام بھی شروع ہے مگر تخت سلیمان سے متعلق ابھی تک خیر خیریت کی رپورٹ ہے۔ KPK کے موجودہ نئے بجٹ میں بھی ڈیرہ کا نام کم ہی آیا۔

%d bloggers like this: