اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

احمد رضوان کی اردو غزل|| مرتضی زاہد

ملتان جو کہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے، یہاں سے احمد رضوان کے منتروں کی آواز اردو غزل میں ابھری ہے. خود کلامی کرتی ہوئ ان کی شاعری کا بیس سال کا مراقبہ،، طلوع شام،، کی صورت طلوع ہوا ہے
مرتضی زاہد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی وسیب سندھ وادی کا دل ہے. دلوں کی یہ سرزمین اپنے منتروں کی وجہ سے قائم و دائم ہے. اس کے مرکزی شہر ملتان جو کہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے، یہاں سے احمد رضوان کے منتروں کی آواز اردو غزل میں ابھری ہے. خود کلامی کرتی ہوئ ان کی شاعری کا بیس سال کا مراقبہ،، طلوع شام،، کی صورت طلوع ہوا ہے. اس بیس سال کے مراقبے میں اس نے زندگی کو کیسا پایا،کہتے ہیں،
کسی نے پوچھا تھا زندگی کا سوال
جواب میں ہم نے پھول بھیجے ہیں
ان کی رمز صوفیوں کی رمز سے جا ملتی ہے ،اگرچہ ان کے محبوب نے رومانس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے. ایسے لگتا ہے کہ جیسے مخاطب ہونے کے باوجود ان کا کوئ مخاطب نہ ہو !
میں اس کے پاس گیا اور ہم کلام ہوا
جو درمیاں تھا وہ فاصلہ اٹھا لایا
زمیں سے دور سر لا مقام رہتا تھا
یہاں بھی اس کا دلوں میں قیام رہتا تھا
میں تیر ے سامنے تنہا کھڑا ہوں حسن ازل
کبھی کلام سے ہٹ کر کلام کر مجھ میں
گفتگو ختم اس کلام کے بعد
کچھ نہیں ہے تمہارے نام کے بعد
جس کے نام پر گفتگو ختم ہو رہی ہے اس کے نام کا
کوئ پتہ نہیں،اسی کیفیت کا اظہار مرزا غالب یوں کرتے ہیں،
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
یعنی بلندی کا ایک احساس ہے اور وہ بلندی اس کے محبوب کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن پھر بھی ایسے لگتا ہے کہ وہ بلندی کے نرم دبیز پردے کو کھولنا نہیں چاہتے یا سمجھتے ہیں کہ پس پردہ کچھ بھی نہیں،
لہو کو زندگی کا ساز دے کر
کہاں ہو تم مجھے آواز دے کر
ان کی شاعری میں شاعری کا خاص وصف شعری حسیاتی لطافتیں کمال کو چھوتی نظر آتی ہیں. ان کے شعر میں لطف بہت زیادہ ہے لیکن مغز کے ساتھ !. یہی ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے. ہم ان کی شاعری کو اداسی کی شاعری نہیں کہھ سکتے . البتہ یہ بات ہمارے ذہنوں میں اس لیے اٹھتی ہے کہ ان کی شاعری کا رومانس سنجیدگی طلب کرتا ہے. ان کے منتر دلوں کی دوا بنتے ہیں تو ذہنوں میں بھی اوشا پیدا ہوتا ہے یعنی دل و دماغ کے درمیان اعتدال . اس لیے تو دن اور رات کے ملاپ میں ان کی شام طلوع ہوئ ہے. دھرتی کی بوباس لیے ہوئے،ان کے شعر کے میں ایسا مٹھاس کہ جیسے سرسوں کے پیلے پھولوں سے شہد کی مکھیوں نے رس لے کر شہد بنایا ہو. منتروں کی بنت ایسی کہ قاری حیرت کی مہک سے سرشار ہونے لگتا ہے. سب سے پہلے تو ان کی کتاب کا نام ،، طلوع شام،، پر حیرت کے رومانس کی یہ مہک محسوس کی جا سکتی ہے.
کہتے ہیں کہ مادی خلش اور محرومی کے بغیر اظہار کا پیمانہ پیدا نہیں ہوتا. یہ وہ بات ہے جو اعلی
تخلیق پیدا کرتی ہے. لگتا ہے احمد رضوان کو اس کا شعور ہے ، کہتے ہیں
کیا میں بھی کھینچ لیتا شاعری سے ہاتھ
کیا میں بھی اپنی ضرورت کو دیکھتا
وہ اپنے محبوب کو محبوب رکھتے ہیں ان کا محبوب برائے فروخت نہیں. اسی کیفیت سے ملتی جلتی کیفیت کا اظہار وہ اپنے ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں ،
کسی نے مجھ سے کہا تھا میاں! عشق کرو
اسے پتہ تھا کوئ کام بھی نہیں کرتا
ان کی شاعری میں موٹے، کھردرے اور مشکل الفاظ کا استعمال بھی نہیں ہوا ہے جو شعر کے منتر کو غائب کر دیتے ہیں بلکہ انہوں نے عام بول چال میں بولے جانے والے الفاظ میں اپنے وجد کا اظہار کیا ہے اور ایسا منتر تخلیق کیا ہے کہ قاری حیرت اور اسرایت کے رومانس کی مہک محسوس کرنے لگتا ہے.
میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
رات بھر خواب کی گلیوں میں کوئ بولتا ہے
دیکھتا ہوں تو مر ے پاس کوئ اور نہیں
بولتا ہوں تو مرے ساتھ کوئ بولتا ہے
میں نے اے دوست پکارا تو نہیں ہے تجھ کو
یہ تو بے ساختہ اندر سے کوئ بولتا ہے
اک پرندہ میں جسے دیکھ نہیں سکتا ہوں
روز آتا ہے کوئ بات نئ بولتا ہے
چھاوں دیتے ہیں جو صحرا میں کسی کو احمد
دل میرا ایسے درختوں کو ولی بولتا ہے
مولانا ابوالکلام آزاد ایک جگہ لکھتے ہیں،، ایک مذہب تو موروثی مذہب ہے کہ باپ دادا جو کچھ مانتے آئے ہیں،مانتے رہیے، ایک جغرافیائ مذہب ہے کہ زمین کے کسی خاص ٹکڑے میں ایک شاہ راہ عام بن گئ ہے سب اسی پر چلتے ہیں،آپ بھی چلتے رہیے. ایک مردم شماری کا مذہب ہے کہ مردم شماری کے کاغذات میں ایک خانہ مذہب کا بھی ہوتا ہے اسی میں اسلام درج کرادیجیے . ایک رسمی مذہب ہے کہ رسموں اور تقریبوں کا ایک سانچا ڈھل گیا ہے اسے نہ چھیڑیے اور اسی میں ڈھلتے رہیے،لیکن ان تمام مذہبوں کے علاوہ بھی مذہب کی ایک حقیقت باقی رہ جاتی ہے، تعریف و امتیاز کے لیے اسے حقیقی مذہب کے نام سے پکارنا پڑتا ہے اور اسی کی راہ گم ہو جاتی ہے،، احمد رضوان بھی اسی راہ کا مسا فر ہے اور کہتا ہے،
جہاں سے آگے کوئ راستہ نہیں جاتا
میں اس مقام پہ پہنچا ہوا مسافر ہوں
اس مقام پر پہنچ کر راستے خود بنانے پڑتے ہیں.احمد رضوان پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھ گیا ہے،اب انہیں نئ راہیں خود بنانی ہیں لیکن وہ اس ذمہ داری سے پریشان نہیں لگتا بلکہ اسے اپنی ذم داری کا احساس ہے، تبھی تو کہتا ہے
اب اس سے آگے بنائیں گے راستہ کوئ
یہاں تلک تو ہمیں راستہ اٹھا لایا
May be an image of ‎text that says '‎طلوع شام احمدرضوان‎'‎
،،طلوع شام،، ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور ان کے پہلے ہی مجموعے نے اپنا قاری تلاش کر لیا ہے اور یہ کسی بھی تخلیق کار کی اتم خوبی ہے.

اے وی پڑھو:

مرتضٰی زاہد دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: