اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ساری کے نام ۔۔۔۔||عامر حسینی

یہ کہہ کر کَٹوبیگم نے مجھے گھمبیر نظروں سے گھورا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں - میں نے یہ سب احوال اپنے دوست کو سید مبارک شاہ کے ان اشعار کے ساتھ لکھ بھیجا،

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری کے نام
ہیلو، کیسی ہو؟ بہت دن ہوئے نہ مجھ سے کچھ لکھا گیا اور نہ ہی تم نے کچھ لکھ کر مجھے بھیجا- حالانکہ بے روزگاری اور مفلسی نے مجھے بہت وقت دیے رکھا اور اس دوران مجھے تو سر آسمان کی اور رکھنا چاہیے تھا چاہے پاؤں کیچڑ میں ہی کیوں نہ ہوتے- تمہیں کوئی دس پندرہ خطوط لکھ مارتا اور روز عزا خانے میں جاکر تمہارے فراق میں سوزخوانی کرتا اور نثری مرثیے لکھتا- ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا- ہاں اس دوران تمہارے اور میرے درمیان تعلق کی پہلی اور آخری وجہ بننے والے شعبہ فلاسفی کراچی یونیورسٹی کے ایک سابق استاد ڈاکٹر عالم شاہ نے مجھے اپنا ایک فلسفیانہ مقالہ اردو ترجمے کے لیے بھیج دیا- میں اُسے ان دنوں ترجمہ کرنے میں لگا ہوا ہوں – میں نے اُس سے ترجمہ کرنے کا ایڈوانس ایک وجہ سے نہیں مانگا- مجھے اُس نے پہلے پہل ایک مترجم ڈھونڈنے کو کہا- اتفاق سے انہی دنوں مجھے میرے ایک انتہائی محترم دوست جو ماسکو میں ہوتے ہیں کے بیٹے نے درجواست بھیج رکھی تھی کہ اگر ترجمے کا کوئی کام ہو تو اُسے یاد رکھیے گا-ساتھ میں وہی بے روزگاری اور احتیاج کی بات- میں نے اُن کے والد کی فرض شناسی اور مستقل مزاجی پہ انھیں قیاس کرلیا اور اپنے پیارے بھائی ڈاکٹر عالم شاہ کو کہہ دیا کہ اُس سے ترجمہ کروائیں – انھوں نے ایڈوانس رقم بھیج دی اور پھر دن گزرت گئے، ایک کے بعد ایک وعدہ اور پھر ایک دن مکمل خاموشی چھاگئی – بھلے مانس ڈاکٹر عالم شاہ نے اس صورت حال پہ مجھے کوئی دوش نہ دیا – پھر ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ اُن کو لگتا ہے کہ اُن کا یہ مقالہ آپ کے سوا اور کوئی اچھے طریقے سے اردو میں ڈھال نہیں سکے گا- آپ ہی ترجمہ کریں، معاوضہ بتائیں- اب بھلا میں کیسے اُن سے معاوضہ طے کرتا اور کس منہ سے ایڈوانس رقم مانگتا، میں نے ترجمے کی حامی بھرلی اور ترجمہ شروع کرنے بیٹھا تو میرے چاروں طبق روشن ہوگئے – تُم مجھے بہت یاد آئیں – تمہیں یاد ہے نا کچھ فلسفیوں اور کچھ فلسفیانہ اصطلاحات کو سمجھنا اور اُن پہ دو لفظ لکھنا یا کہنا میرے لیے کس قدر مشکل تھا- میرے لیے تو اُن کا تلفظ ادا کرنا بھی کار دارد تھا- ان میں ایک فلسفی مارٹن ہیڈیگر اور اُس کی کتاب "سین اینڈ زیٹ” تھی- فلسفہ وجودیت یا موجودیت اور ایسے ہی ہیڈیگر کی اپنی ایجادکردہ جرمن اصطلاحات جن میں ڈزائین، میٹ سین، میٹ ڈزائین، ڈس کلوژر، ڈاس مین، ڈاس ویلٹ – ڈر اور ان کے مختلف قسم کے "ہست/وجود” اور پھر "زمانی مکانی جہان/دنیا” سے ڈزائین کے تعلقات، اتھینٹک /نان اتھینٹک وجود ہا سے ڈزائین کے تعلق بارے فلسفیانہ مباحث، مجھے یاد ہے کہ تم نے ایک بار ڈزائین کی موت بارے اینگزائٹی اور خود اپنے دنیا میں ہونے کو بذات خود ایک مسئلہ قرار دینے والی بات کو لیکر حالت سرشاری میں بہت سی باتیں کی تھیں اور پھر ڈزائین کی بذات خود واحد متکلم حاضر /فرسٹ پرسن اور اور واحد متکلم غائب /تھرڈ پرسن میں تقسیم اور اس اعتبار سے وجود کی موضوعیت /سبجیکٹیوٹی جیسے انتہائی مشکل موضوع پہ بات کرتے ہوئے میری کافی کلاس لی تھی- سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس موضوع سے سخت نفرت تھی اور میں اس سے بہت دور بھاگتا تھا- مجھے ویسے بھی پوسٹ ماڈرن ازم سے سخت نفرت تھی مجھے یہ مارکس ازم کا دشمن فلسفہ لگا کرتا تھا- لیکن عجیب بات ہے کہ جب میں ڈاکٹر عالم شاہ کے مقالے کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا تو مجھے کچھ زیادہ دشواری پیش نہیں آئی – جو اصطلاح بھی سامنے آئی، فلیش بیک کی طرح تمہاری آواز میرے کانوں میں گونجنے لگی اور میں ترجمہ کرتے چلا گیا- ایک رات تو ایسا ہوا کہ میں جب نیند کی آغوش میں پہنچا تو ایک طویل خواب دیکھنے لگا- میں کلاس روم میں تھا- سامنے سعید عالم تھے اور وہ ہیڈیگر کے تصور ڈزائین /وجود انسان کی ڈایالوجیکل سبجیکٹیوٹی /مکالمہ جاتی موضوعیت اور مونولاگ اور ڈائیلاگ کو لیکر ڈایالوجیکل ڈائیلاگ اور ان کاؤنٹر جیسی حالتوں پہ لیکچر دے رہے تھے، صبح پانچ بجکر تیس منٹ پہ میری آنکھ کھلی تو مجھے سارا لیکچر لفظ بہ لفظ یاد تھا لیکن مجھے یہ یاد نہ آیا کہ استازی سعید عالم نے یہ لیکچر ہمیں دیا بھی تھا کہ نہیں – مجھے خواب میں سعید عالم کی طرف سے ہسرل کے کہے گئے اقوال بھی یاد تھے- تمہیں یاد ہے نا سعید عالم مجھے مقتول ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے شجر علم تلے بیٹھنے سے بار بار منع کرتے تھے – وہ کہا کرتے تھے کہ ظفر عارف نوجوانوں کے اندر چھپے فلسفی کو گمنامی میں ہی مار ڈالتے ہیں اور اُس کے اندر کے سیاسی ایکٹوسٹ کو باہر نکال لاتے ہیں جو کارل مارکس کے اقوال کو الہامی آیات سمجھ کر حفظ کرتا اور وقت بے وقت اُن کی جُگالی کرتا رہتا ہے- سچی بات ہے وہ مجھے اُس وقت بہت بُرے لگتے تھے کیونکہ کارل مارکس ہمارا دیوتا تھا اور ظفر عارف اُس کے سچے اوتار – اُس زمانے میں ہمارا ایشیا، لاطینی امریکہ، افریقہ سب ہی بس سُرخ، سُرخ تھا اور ہمیں سُرخ اور سیاہ کے درمیانے کوئی گرے لائن سرے سے نظر نہیں آتی تھی- غیر ڈاکٹر عالم شاہ کے مقالے کا دیباچہ، پہلے دو باب میں ترجمہ کرچکا ہوں، دیباچہ ڈاکٹر عالم شاہ کو بھیج دیا ہے – میں نے ایک رات اور خواب میں ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو دیکھا، اُن کی باچھوں اور گردن پہ خون لگا ہوا تھا اور وہ مجھے غصے اور تاسف سے دیکھ رہے تھے – بولے کچھ نہیں بس دیکھا کیے گئے- اور اُن کے پیچھے سعید عالم کھڑے مسکراتے پائے گئے – اس دوران خواب میں تُم نظر نہ آئیں اور نہ تمہاری آواز سُنی حالانکہ حالتِ بیداری میں تُم مجھے فلیش بیک میں اپنے پورے سراپا کے ساتھ ہیڈیگر کے فلسفے کی ایک ایک رمز پہ بات کرتے نظر آتی رہیں – ویسے کیا وہاں عالم مثال میں یا حظیرۃ القدس میں کوئی ایسا پردہ ٹانگ دیا گیا ہے جو وہاں تک میری رسائی کو روکے ہوئے ہے؟ وادی حسین میں تمہاری قبر کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کبھی مجھے اجازت نہیں ملی اور تو اور تمہارے نام میرے لکھے آخری خط کی خوبصورت اور اثرانگیز آواز میں ریکارڈ کرکے ساؤنڈکلاؤڈ ایپ پہ اَپ لوڈ کرنے والا سید عمران علی نقوی اُس کے بعد مشکل سے دو ماہ زندہ رہا اور پھر ایک حادثے میں وہ بھی چل بسا اور تمہاری طرح قبر کے اندر جب سے پہنچا خاموش ہے اور میرے خوابوں میں بھی نہیں آتا –
آج عیدالاضحٰی ہے اور میں صبح پانچ بجے کا جاگا ہوا ہوں – میرے موبائل پہ وٹس ایپ ، ایس ایم ایس میسنجر، فیس بک میسنجر پہ تہنیت و مبارکباد کے پیغامات کا تانتا بندھا ہوا ہے- بہت سارے لوگ کال کرتے رہے لیکن میں نے کسی کی کال پِک نہیں کی – میں تہبند باندھے، ننگے بدن مونج کی بُنی چارپائی پہ بیٹھا ہوا ہوا تھا اور بے دھیانی سے وٹس ایپ، فیس بُک میسنجر اور ایس ایم ایس میسنجر کے نوٹیفکیشن پڑھے جاتا تھا- ایسے میں ایک اینی میٹڈ وڈیو کلپ مجھے ایک دوست نے فاروڑ کیا اور ساتھ ہی وائس میسج بھی – میرا دوست ناستک ہے – وہ بولا کہ عیدالاضحیٰ اینی میٹڈ ویڈیو کلپ اُسے اُس کی سَالی نے بھیجا ہے جو ایم ایس سی میتھ گولڈ میڈلسٹ ہے اور ایک گورنمنٹ سیکنڈری اسکول میں پڑھاتی ہے- میرے دوست نے اپنی سالی کو جواب میں لکھا:
"تُم معصوم جانوروں کا خون بہانے کو عید کا دن کہتی ہو، میتھ میں ایم ایس سی ہو، اتنا پڑھ لکھ بھی ایسی دقیانوسی سوچ……
میں اپنی بیگم سے یہ بات کبھی نہیں کہہ سکتا، وہ بہت ہی دردمند، محبت کرنے والی اور میری بہترین رفیق حیات ہے لیکن اُس نے علمی و فکری سطح پہ وہ کچھ نہیں پایا جو کالج اور یونیورسٹی جاکر پایا جاسکتا تھا یا میری طرح دنیا بھر کے بڑے اسکالرز سے مل کر سیکھا جاسکتا تھا، اس کے پاس تو لے دے کر حیبب بھائی اور دعوت اسلامی کے سبز طوطے ہیں…… تو اُسے سو خون معاف مگر تمہیں نہیں ہیں……”
(This is just between you and me)
مجھے سمجھ نہ آئی کہ اُسے جواب میں کیا لکھوں، ٹھیک اُسی لمحے میری” کَٹو بیگم” کچن میں کام مکمل کرنے کے بعد باہر نکلی اور مجھے کہنے لگی،
” عامر میاں! نہ تُم عیدین کی نماز پڑھنے جاتے ہو، نہ جمعہ، نہ ہی الوداع کا جمعہ… نماز پنجگانہ تو خیر سے تمہیں پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، بچوں کی کیا تربیت کررہے ہو، وہ بھی اپنے چچاؤں اور ماموؤں سے کہنے لگے ہیں، بابا نہیں جاتے تو ہم کیوں جائیں؟”
میں تھوڑا سٹپٹایا اور پھر سفید جھوٹ بولا کہ تم سورہی تھیں تو میں نماز عید پڑھ کر آگیا…. بولی،” جانتی ہوں خوب تمہیں، آنٹی (میری والدہ) کہتی ہیں کہ آٹھ سال کا تھا عید کی صبح سویرے کہتا عید کی نماز فلاں جگہ پڑھے گا، اس کے ابا کو شک ہوا تو وہ تعاقب میں گئے، ایجنسی سے تین چار اخبار خرید کر موصوف ایک چائے کے ڈھابے میں جاکر بیٹھ گئے- اس کے ابا کو اس کے دادا اور نانا نے نجانے کیا کہا ہوا تھا وہ ااے نہ تب کچھ کہتے تھے نا اب…. ” یہ کہہ کر کَٹوبیگم نے مجھے گھمبیر نظروں سے گھورا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں – میں نے یہ سب احوال اپنے دوست کو سید مبارک شاہ کے ان اشعار کے ساتھ لکھ بھیجا،
نارسائی
کسی بت کدے کا نہ در کھلا، نہ کلیدِ بابِ حرم ملی
کہیں سوزِ دوزخِ بے اماں، نہ امانِ کُنجِ ارم ملی
دلِ خُوش گُماں کو نزولِ مصحفِ آگہی کے فریب میں
نہ نشانِ کرب طُرب ملا، نہ نویدِ راحت غم ملی
ویسے بساطِ غم دنیا اس درجہ شکستہ ہوا کہ مجھ جیسوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ ہمیں مات کہاں ہوئی ہے،
مکمل کیسی ناکامی ہوئی ہے
ادھورا کام سارا رہ گیا ہے
ویسے جب جب مذھبی رسمیت سے ہمارے فرار کا قصہ کسی اپنے کی زبان پہ آتا ہے تو بے اختیار یہ شعر میری زبان پہ آجاتے ہیں،
بس حدیثِ دوزخ اب ناتمام رہنے دے
کچھ خدا کا سینوں میں احترام رہنے دے
لوگوں نے تابوت کو اٹھتے دیکھا ہوگا
میں نے اپنے گھر سے جاتا رب دیکھا ہے
یی سب باتیں اپنی جگہ میں یونہی آستک اور ناستک ہونے کے بین بین حالات کے سمندر میں غوطے کھاتا رہوں گا جیسے تمہارے نابود ہونے سے پہلے تمہارے زمانہ است میں رہا کرتا تھا اور تم "نہج البلاغہ” کے جملے اور کلمات القصار میرے اوپر پھونکا کرتی رہتی تھیں – ایک دوست نے تمہارے نام لکھے میرے خطوط پڑھ کر مجھے لکھ بھیجا،
"کامریڈ عامر” حسینی”(نجانے اُس نے حسینی واوین میں کیوں لکھا، پوچھنے پہ قہقہہ لگاتا ہے بتاتا کچھ نہیں) تُم نے یہ خطوط کسے لکھے ہیں؟ منتشر عناصر حیات کو جو مٹی میں مل کر فاسفورس بن گئے ہیں اور اُن کو تُم کس نظریہ /عقیدے سے ایک شخصیت سمجھتے ہو یا مابعد الموت وجودِ مثالی کو جو عالم مثال میں ایک اور حیات سے سرفراز ہوتا ہے جسے ناستک تو سرے سے مانتا نہیں اور آستک تو تُم ہو نہیں، پھر یہ خطوط تُم نے کسے لکھے ہیں؟ وادی حسین میں بنی قبر میں جس ساری کو اتارا گیا وہ تو کامریڈ عامر کے نزدیک فاسفورس میں بدل گئی ہوگی نا؟ مجھے لگتا ہے یہ خطوط "محمد عامر حسینی” نے لکھے ہوں گے جس نے "کوفہ” لکھی ہے، اور اُس حالت میں "کامریڈ عامر” کو تُم نے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا ہوگا، اُس وقت تو شہر بانو کے عشق میں گرفتار تم محض عامی بن گئے ہوں گے یا وہ "عامی” جو ناظم آباد کے ایف بلاک کی کوٹھی میں "ہما جعفری” کے سامنے” مستجاب حیدر” بن کر بیٹھا ہوتا تھا – اُس وقت تُم "تھیسس آن فیوروباخ”،” کریٹک آن جرمن فلاسفی” اور کارل مارکس کی مثالیت پسندی کی دشمن جدلیاتی مادیت پرستی” کے آسیبوں کو کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ہی اپنے کمرے کے اندر بکھری کتابوں میں بند چھوڑ کر آجایا کرتے تھے- یہ خطوط لکھتے وقت بھی تُم نے ایسا ہی کیا ہوگا………. ویسے مجھے لگتا ہے کہ ان خطوط میں تمہاری مخاطب محض وادی حسین میں دفن” ھما جعفری” ہی نہیں بلکہ کوئی "جیتی جاگتی” موجود ساری بھی ہے جسے تم نے کمال مہارت سے کسی بھی جگہ دوسروں پہ منکشف نہیں ہونے دیا اور اُس جیتی جاگتی ساری نے تُم سے پوچھا بھی ہوگا کہ اُسے قبر میں جیتے جاگتے تم نے اتار کیوں دیا؟ اُس نے تمہیں بزدل، کائر، ڈرپوک، دبّو قرار دیا ہوگا، کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارا اس کے عشق میں مبتلا ہونا یک طرفہ ہے اور وہ تمہیں وہ درجہ دینے پہ تیار نہیں ہے جس کے تم متمنی ہو، کیونکہ گورنمنٹ کالج لاہور کی تین چار ہستیاں تو مجھے یاد ہیں جو تمہیں اپنا "گُرو” مانتی تھیں اور تُم ان سب سے عشق کیا کرتے تھے – سیمون دا بووا کی طرح تمہیں بعد میں ان کو اپنا کانٹی جینٹ عشق کہا کرتے تھے، یاد آیا کچھ، ایک خط میں تُم نے اس پہ بہت ہی ملفوف انداز میں بات کی ہے اور میں کافی دیر تک اُسے پڑھ کر ہنستا رہا – وہ سانولی سلونی امبر، چاکلیٹ بیوٹی رومانہ اور بہاولپور کی سرائیکی اسپیکنگ نادیہ جسے تم "روہی کی مٹیار” کہا کرتے تھے تمہیں یاد ہوں گی اور وہ سب تمہاری دانش (بے بہا بلکہ آوارہ گرد) کی دیوانی تھیں – اور اب تمہیں کیا کیا یاد کرانا پڑے گا، تم ٹھہرے سدا کے متصف بہ "تجاہل عارفانہ "
Consciously unconcious
اس کا ایک دیہاتی ترجمہ "باؤلی کا سانگ چڑھائے آدمی” بھی ہوسکتا ہے، خیر اتنے خوبصورت خطوط لکھنے پہ بہت مبارکباد "
میں نے اپنے اُس دوست کو فون کیا اور اُسے جتنی ناقابل اشاعت گالیاں یاد تھیں دے ڈالیں –
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ کتاب کوفہ کا دوسرا ایڈیشن تیار ہے، پروف پڑھے جارہے ہیں ستمبر کے آخر میں چھپ جائے گا- تمہارے جواب کا انتظار رہے گا#
والسلام
فقط تمہارا
ع – ح

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: