مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

1901ء کا ڈیرہ اور دودھ||گلزار احمد

1901ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلمان کبھی بھی دودھ فروخت نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کا خیال تھا دودھ نور ہے اور اس کا بیچنا گناہ ہے۔مسلمان ایک دوسرے کو دودھ مکھن بوقت ضرورت مفت دیتے تھے

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آجکل کیمیکل دودھ کے بنے ٹینکرز روزانہ ڈیرہ دریا خان پل سےڈیرہ داخل ہوتے ہیں اور عوام کو یہ زہریلا دودھ پلایا جاتا ہے۔ ایک ماہ میں ایک دفعہ متعلقہ محکمہ ایک آدھ ٹینکر پکڑ کر دریا میں الٹ دیتا ہے اور پھر چل سو چل ۔ یار دودھ بنانے والوں کے روٹ تک پہنچو اور ان کو عبرتناک سزا دو ۔
مگر یہ کام اس ملک میں ممکن نہیں۔اگر کوئ پکڑا گیا تو آگے جا کر عدالتوں سے بری ہو جاے گا۔
1901ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلمان کبھی بھی دودھ فروخت نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کا خیال تھا دودھ نور ہے اور اس کا بیچنا گناہ ہے۔مسلمان ایک دوسرے کو دودھ مکھن بوقت ضرورت مفت دیتے تھے۔لسی تو ہر گھر مفت دی جاتی تھی۔مسلم بازار میں ہندٶں کا ڈیری فارم تھا اور وہ دو آنے سیر دودھ بیچتے۔دیسی گھی بیس سے پچیس روپے من فروخت ہوتا۔
آج 120 سال بعد ڈیرہ میں خالص دودھ ملنا محال ہے۔ کیمیکل سے بنا خطرناک دودھ روز ٹینکروں میں پنجاب سے لایا جاتا ہے اور وہ مسلمان جو اس کو نور سمجھتے تھے ان کے بچے آج ہمیں زہریلا دودھ فروخت کرنے میں شرم تک محسوس نہیں کرتے ۔۔ہم کہاں سے چلے تھے کہاں آ پہنچے۔۔
میں چترال کی بمبھوریت وادی میں کیلاش قبیلے کے رہن سہن دیکھنے جاتا رہتا ہوں ۔ایک بات جو نوٹ کی کیلاش لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے اور نہ وہاں اس وقت کوئی کرائم ہوتا۔ ویسے کیلاش کو ہم کافرستان بھی بولتے ہیں۔
ہم ڈیرہ کے لوگ 120 سال میں کتنے بدل گئے۔ احمد فراز کا شعر ہے ۔۔؎
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے۔۔
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں۔۔
اب کہ تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں۔ یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں۔

%d bloggers like this: