اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مرکزی ایشیا: امکانات اور خواب||رسول بخش رئیس

بند تو اب بھی نہیں‘ مگر دشواریاں حائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کی خانہ جنگی اور وہاں بیرونی طاقتوں کا طفیلیوں کو استعمال کرکے ہمیں غیرمستحکم رکھنا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ اٹھارہویں صدی سے روس کے زیرِ تسلط مرکزی ایشیا کے ممالک آزاد ہو جائیں گے۔ اب تقریباً تیس سال ہونے کو ہیں کہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد ہر ایک نے آزادی کا جھنڈا لہرا دیا۔ یقین نہیں آتا کہ جب روس اور اس کے ساتھ چند اور طاقتور اکائیوں کے رہنما آپس میں مل بیٹھے تو ایک ہی نشست میں فیصلہ کرلیا کہ سوویت یونین کا ہر صوبہ ایک آزاد مملکت کی حیثیت اختیار کرے گا۔ روس نے بہرحال اپنے وفاق کی نئی صورت نکالی‘ ملحقہ اور کلیدی علاقے‘ جو زاروں کے زمانے سے ان کے قبضے میں تھے‘ ان پر غلبہ جاری رکھا۔ داغستان ‘ چیچنیا اور کچھ اور اس طرح کی نوآبادیات اپنے ساتھ رکھیں اور ہر اٹھنے والی مزاحمت کو سختی سے کچل ڈالا۔ چیچنیا کی تاریخ ان میں سے سب سے زیادہ المناک ہے۔ اٹھارہویں صدی کے دوسرے حصے میں زاروں نے یکے بعد دیگرے پہلے ایران اور ترکی کی سلطنتوں کے ساتھ جنگ کرکے ریاستیں ہتھیائیں‘ اور جارجیا پر تہران کے قبضے کے بعد کوہ قاف کی سرزمین کا رخ کیا‘ جن میں چیچنیا سرِفہرست ہے۔ وہاں امام شامل نے مزاحمت شروع کی جو دوسری جنگِ عظیم سے کچھ عرصہ پہلے تک جاری رہی۔ روسی اسے باسمچی مزاحمت کا نام دیتے تھے‘ یعنی باغیوں کی طرف سے جنگ۔ امام شامل کی مزاحمت اور اس پر لکھی گئی کتب پڑھنے کے بعد شاید یہ اندازہ لگانا مشکل ہوکہ وطن سے محبت اور اس کی قیمت کیا ہو سکتی ہے۔ جونہی سوویت یونین ٹوٹی‘ چیچنیا کی مزاحمت نے سراٹھا لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ روسیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا‘ مگر پھر اسلحہ سے لیس ہو کر انہوں نے بھرپور حملہ کیا اور گروزنی شہر کو بمباری کرکے زمین بوس کر دیا۔ مزاحمت کے آثار اب بھی قائم ہیں۔
مرکزی ایشیا کی ریاستوں کو آزادی بغیر ہتھیار اٹھائے ملی‘ یہاں تک کہ کوئی جلوس تک نہ نکلا۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب آزادی کا فیصلہ ہوا توکچھ کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ان ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹی ہی سیاسی پارٹی تھی۔ اس پارٹی کی قیادت نے آزاد ریاستوں کی حکمرانی قائم کرلی‘ جیسا کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی ساخت تھی۔ اس کا مرکزی لیڈر ہی سب کچھ ہوتا تھا‘ دوسرے صرف تالیاں بجانے کیلئے تھے۔ اقتدار کے خواہشمند صرف سازش کرسکتے تھے‘ کامیاب ہوگئے تو پارٹی کے عظیم لیڈر‘ پکڑے گئے تو عقوبت خانے۔ سابق کمیونسٹوں نے راتوں رات قوم پرستی کا چوغہ پہن لیا۔ جوزف سٹالن کے زمانے میں جب ترکمانستان کی اس وسیع سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا فیصلہ ہوا تو نئے صوبوں یا سوویتوں کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ لسانی اور قبائلی ان میں تقسیم کردیئے جائیں۔ اس کے ساتھ انہیں نئی قومیتی شناخت کی سندیں عطا کردیں۔ تاریخ نویسی اور بشری علوم کو بھی ریاستی نظریے اور تزویراتی ترجیحات کے سائے میں ترتیب دیا گیا۔ ترکی بولنے والے قبائل اور آبادیاں تاجکستان کے علاقوں میں شامل کر دیں اور فارسی بولنے والے شہر بخارا اور سمرقند ازبکستان کی تحویل میں دے دیئے۔ آزادی کے بعد کچھ کشیدگی بھی پیدا ہوئی‘ لیکن سب ریاستوں نے سرحدوں کو تسلیم کرلیا۔
گزشتہ تیس سال کے عرصے میں اکثر کی خواہش رہی کہ وہ روس پر اپنا انحصار کم کر لیں۔ کئی مسائل آڑے آتے رہے۔ روس کا پُرانا سامراجی نظام تو دم توڑ چکا تھا‘ مگر روسی قومیت پرستی جاگ اٹھی‘ جس کا تقاضا تھاکہ اطراف کی قریبی ریاستیں ان کے زیرِ سایہ رہیں۔ تقریباً ڈیڑھ صدی کے غلبے نے زبان‘ ثقافت‘ معیشت اور معاشرت کے کئی رنگ تو بدلے‘ مگر اندر سے مذہب‘ قومیت اور زبانیں اپنی اپنی جگہ قائم رہیں۔ سارے ترکمانستان کا رسم الخط فارسی حروف میں تھا۔ روسیوں نے بدل دیا۔ اسی نوعیت کا عجیب فیصلہ کمال اتاترک نے بھی کیا تھا۔ مقصد دونوں صورتوں میں واضح تھاکہ آنے والی نسلیں ماضی کے علمی خزانوں سے بہرہ مند نہ ہوسکیں تاکہ نئی شناخت کا لبادہ اوڑھنے سے آسانیاں رہیں۔ ایک تصویر اکثر ذہن میں گھوم جاتی ہے۔ روسیوں نے جب گروزنی کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا تو ملبے کے ڈھیر پہ ایک بہت ہی بوڑھی عورت بڑے سکون سے بیٹھی ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ پڑھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پہ سب کچھ تباہ ہو جانے کے باوجود کمال کا اطمینان دیکھا جا سکتا تھا، ستر سال کی کاوش کے باوجود مرکزی ایشیا میں مذہب ختم نہ ہو سکا۔
آہستہ آہستہ مرکزی ایشیا کی ریاستوں نے جس طرف بھی راستہ ملا‘ متبادل منڈیاں تلاش کرنا شروع کردیں۔ تیل اور گیس پیدا کرنے والے تین بڑے ملک ترکمانستان‘ قازقستان اور ازبکستان یورپ کو ترسیل روسی پائپ لائنوں سے کرتے ہیں۔ گزشتہ پندرہ برسوں میں ان ریاستوں کیلئے چین متبادل منڈی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کئی پائپ لائنوں کا رخ اب مغربی چین کے علاقوں کی طرف ہے۔ چین کے پاکستان میں راہداریوں کے جو منصوبے بن چکے یا زیرِ تکمیل ہیں‘ مرکزی ایشیا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ چین اب ریل کے راستوں سے بھی یورپ کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ ان ریاستوں کی خواہش رہی ہے کہ جنوبی ایشیا تک ان کی رسائی ہو۔ ایران اپنی بندرگاہیں پہلے ہی پیش کر چکا ہے۔ گوادر بھی اب فعال ہے اور یہاں سے ازبکستان اوردیگر ریاستوں کا فاصلہ ایران کی راہداری سے کم ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ اور اس دوران ہونیوالے معاہدوں کا مقصد مرکزی ایشیا کو بندرگاہوں کی سہولت دینا ہے۔ ماضی میں ہم نے آزمائشی طور پر کراچی سے قندھار‘ مزارِ شریف اور تاشقند تک ٹرک روانہ کئے تھے‘ لیکن خانہ جنگی کے باعث زمینی راستے سے تجارت جاری نہ رکھ سکے۔ اسی طرح جب طالبان اقتدار میں آئے تو درِ پردہ ہمارے امریکی دوست ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان گیس پائپ لائن بچھانے پہ زور دے رہے تھے۔ بھارت بھی اس کا حصہ تھا‘ مگر اس نے معذرت کرلی۔
مرکزی ایشیا کی ثقافت‘ تاریخ اور تہذیب سے ہمارا رشتہ صدیوں پُرانا ہے‘ یوں کہیے کہ ایک ہزار سال سے بھی زیادہ۔ پہلے روس اور پھر سوویت یونین نے آہنی سرحدیں قائم کر رکھی تھیں۔ جب وہاں غلامی کی زنجیروں کا لوہا پگھلا تو افغانستان کی خانہ جنگی اور پھر بیس سالہ امریکی جنگ نے راستے بند کر دیئے۔ تجارت‘ سیاحت اور سرمایہ کاری کے علاوہ راہداریوں کیلئے امکانات تو بہت ہیں‘ مگر افغانستان کے ”پُل‘‘ کا کیا کریں۔ اس پُل کے بعد تو ابھی تک آگ کا دریا سامنے ہے۔ نہ جانے یہ آگ کب بجھے گی۔ جونہی ایسا ہوگا ‘ سب راستے ہموار ہو جائیں گے۔ ایک اور کھلاڑی بھارت ہے جو ہمارے لیے مسائل پیدا کرتا رہے گا۔ وہ اپنا حصہ مانگتا ہے کہ اسے واہگہ کے راستے کابل‘ اور ظاہر ہے اس سے آگے مرکزی ایشیا تک رسائی مل جائے۔ آخر یہ سوال اٹھانا جائز بنتا ہے کہ ہم بھارت کیلئے سب زمینی راستے شمال مغرب کی طرف کھول دیں‘ تو ہمیں کیا ملے گا؟ اس وقت ہماری کوشش یہ ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام آئے تو اس ”پُل‘‘ کے ذریعے مرکزی ایشیا کی سب ریاستیں نہیں‘ تو کم از کم ازبکستان‘ سب سے بڑی اور طاقتور ہماری راہداریاں استعمال کرے۔ اس طرح ہمیں بھی مرکزی ایشیا کی منڈیوں میں قدم جمانے میں مدد ملے گی۔ چین کے مرکزی ایشیا میں راہداریوں کے کامیاب منصوبوں کو دیکھیں تو اس وسیع خطے میں ہم کوئی خواب نہیں دیکھ رہے۔ افغانستان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا تو اس ملک کی تعمیرِ نو کے ساتھ مرکزی ایشیا کی معیشت کے دروازے ہمارے لیے کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ بند تو اب بھی نہیں‘ مگر دشواریاں حائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کی خانہ جنگی اور وہاں بیرونی طاقتوں کا طفیلیوں کو استعمال کرکے ہمیں غیرمستحکم رکھنا ہے۔ اندر سے بھی تو ہم بٹے ہوئے ہیں‘ اور ایک دوسرے کو گرانے کی سیاست میں مصروف۔ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن ایسے میں تو کچھ بھی نہیں۔ امکانات خواب نہ رہ جائیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: