حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغان عمل آگے نہیں بڑھ رہا بلکہ سسک رہا ہے اس کے سسکنے کی مختلف وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ 40برسوں سے کچھ اوپر ہوچلے یہ ملک وار لارڈز کے قبضے میں سانس لے رہا ہے۔ بخت عالم یوسفزئی کہتے ہیں
’’ہماری تاریخ میں وار لارڈز کے سوا کیا رکھا ہے‘‘۔
بخت عالم کے موقف پر بات کرتے ہیں لیکن فی الوقت کڈوال ناصر کی سن لیتے ہیں۔
ہمارے دوست کڈوال ناصر کا تعلق بلوچستان کے پشتون علاقے سے ہے۔ ترقی پسند سوچ کے حامل یہ پشتون دوست پاکستانی پشتونوں کے ایک بڑے طبقے کی سوچ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کڈوال ناصر کہتے ہیں
’’امریکہ طالبان قطر معاہدہ کے وقت سے پاکستان میں آباد پشتون محسوس کررہے ہیں حالات کچھ بدل رہے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں افغانستان سے نعشوں کے آنے کا سلسلہ معمول سے بڑھ رہا ہے۔ اعلان ہوتا ہے فلاں گاوں کا نوجوان افغانستان میں شہید ہوگیا۔ نماز جنازہ فلاں وقت پر ادا کی جائے گی۔
ہم حیران ہوتے ہیں سرحدوں پر مناسب انتظامات کے دعوے کیا ہوئے۔
پاکستانی اخبارات دیکھیں تو بس لگتا ہے کہ طالبان کابل پہنچے ہی پہنچے۔ افغانستان کے حالات کی یک رخی تصویر کیوں دیکھائی جارہی ہے۔
کل تک جو لوگ دہشت گردی کے پیچھے مغربی استعمار کے کردار سے عوام کو آگاہ کررہے تھے آج فخر سے بتارہے ہیں افغانستان فتح ہونے کے قریب ہے۔
جہاد میں اللہ برکتیں ڈال رہا ہے۔ کڈوال ناصر سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے سانحہ ارتحال کو ایک سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ عثمان کاکڑ طالبانیت کے خلاف بلوچستان کے پشتون علاقوں میں مضبوط موقف رکھنے کی وجہ سے عسکریت پسندوں اور ان کے سرپرستوں کے لئے قابل قبول نہیں تھے انہیں راستے سے اس لئے ہٹایا گیا کہ پشتون علاقوں میں جہادی تجارت کرنے والوں کو مشکل پیش نہ آئے‘‘۔
ہمدرد حسینی خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں وہ عمران خان کو فدائے ملت کہتے لکھتے ہیں۔ سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں لیکن تحریک انصاف کے پرجوش حامی بھی افغان عمل کے حوالے سے ان کا موقف اپنی محبوب قیادت سے یکسر مختلف ہے۔
انہوں نے اگلے روز لکھا
’’افغانستان کے حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے دعووں کے برعکس افغان عوام اور خصوصاً نئی نسل طالبان کے خلاف مزاحمت پر آمادہ ہی نہیں بلکہ مزاحمت کے عملی مظاہروں میں بھی مصروف ہے۔
انہوں نے چند دن قبل پکتیا میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا بھی حوالہ دیا جہاں طالبان کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مسلح افراد کے مقابلہ میں نہتے لوگ تھے۔ انہوں نے طالبان کے خلاف موجود اس عوامی نفرت کا بھی ذکر کیا جو افغانستان میں کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے پاس افغانستان کی داخلی صورتحال کو سمجھنے اور اطلاعات کے حصول کے لئے براہ راست انتظام نہیں اس لئے اسی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا جارہا ہے جو فی الوقت مرغوب ہے‘‘۔
کڈوال ناصر اور ہمدرد حسینی دونوں تقریباً وہی بات کررہے ہیں جو اسفندیار ولی خان اور دیگر پاکستانی پشتون قوم پرست رہنما اور دانشور کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے ہمارے محبوب کامریڈ مولانا فضل الرحمن کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ مولانا کی افغان طالبان سے محبت نئی بات نہیں۔
ہمدرد حسینی نے جے یو آئی (ف) ترجمان جریدے ’’الجمعیت‘‘ کے اپریل 2001ء کی اشاعت میں شائع ایک مضمون کا تراشہ بھی بھجوایا ہے اس میں لکھا ہے ’’اکتوبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی آمد سے قبل جنوبی وزیرستان میں افغان مہاجر اور مقامی علماء کے ایک اجتماع میں مولانا مفتی محمود کو بھی شرکت کرنا تھی مگر انہوں نے اپنی علالت کے باعث مولانا فضل الرحمن کو نمائندگی کے لئے بھجوایا جنہوں نے مفتی صاحب کا پیغام اجتماع میں پڑھ کر سنایا۔ مفتی محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان کے کشیدہ حالات کے پیش نظر افغانستان کی حکومت کے خلاف جہاد واجب ہوگیا ہے شرعی لحاظ سے برسراقتدار طبقے کو ہٹانا واجب ہے‘‘۔
اب آیئے بخت عالم یوسفزئی کے موقف پر بات کرلیتے ہیں۔ ابلاغیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بخت عالم اب امریکہ میں مقیم ہیں وہ کہتے ہیں
’’پشتونوں کو مذہب کے نام پر جذباتی بنانے اور جہاد کے نام پر استعمال کرنے والوں نے اپنے بچوں کو جہاد سے محفوظ کیوں رکھا
غالباً ان کا اشارہ قاضی حسین احمد مرحوم اور جہاد کا فتویٰ دینے والے مرحوم مفتی محمود کے خانوادوں کی طرف ہے۔
بخت کہتے ہیں پاکستان کو اس کھیل میں شرکت سے اجتناب برتناچاہیے۔ ہمارے حکمران کیوں بھول جاتے ہیں کہ طالبان نے پاکستان کو کتنے زخم لگائے اور لاشوں کا تحفہ دیا۔ اے این پی کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے خیال میں افغان طالبان ایک بار پھر پشتونوں کو اسلام اور جہاد کے نام پر جذباتی بناکر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ بخت عالم نے سوال اٹھایا کہ افغان طالبان اپنی لڑائی خود کیوں نہیں لڑتے کیوں وہ پاکستانی پشتونوں اور ایک مخصوص فہم کے مدرسوں کی اعانت کے طلبگار ہیں؟
بخت عالم یوسفزئی کہتے ہیں پاکستان پشتونوں کو نہ صرف افغان خانہ جنگی سے دامن بچاکر رہنا ہوگا بلکہ انہیں اپنے صوبے میں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اگر طالبان کرم ایجنسی یا کسی دوسرے علاقے میں ماضی کی طرح کارروائی کریں تو پشتون متحد ہوکر مقامی آبادی کا ساتھ دیں‘‘۔
پاکستانی پشتونوں کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی آراء آپ پڑھ چکے۔ دیگر لوگوں (بڑی اکثریت) کی رائے بھی تقریباً یہی ہے۔
یہ بجا ہے کہ پشتون مذہبی حلقے ماضی کی طرح پھر دکانیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں ان حالات میں ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ان معاملات سے خود کو کیسے دور رکھیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ افغان عمل کے تمام فریق ہم پر اعتماد کریں۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر