اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انتظار پر۔۔۔||وقاص بلوچ

انتظار پر انتظار ایک ایسا جوہر ہے جس کے بغیر انسان کی تکمیل ممکن نہیں۔ منطق کی زبان میں اگر کہہ لیں تو انتظار عارض بالذات ہے۔ انسان کا نفس نفیس انتظار ہے۔ انتظار امر خارج نہیں بلکہ تصدیق بالذات ہے۔ انتظار وہ جوہر ہے جو انسان کو جانوروں سے جدا کرتا ہے۔ اگر ازل اور ابد کے درمیاں انتظار حذف کر لیا جاۓ تو بیچ میں صرف خدا بچ جاۓ۔ واحسرتا! گلشن کے کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں کو حذف نہ کیا جاۓ۔ انتظار فارسی اور اردو غزل کا ہجر ہے مگر ہر متنفس کا وصال ہے۔ شیطان کو جنت سے نکالا گیا تو خدا سے پوچھا انتظار کر سکتے ہو فرمایا ہاں، کہا معرکہ شروع۔ انتظار قدیم ہے۔ انتظار زندگی کو متحرک کرتا ہے بقا کو دوام بخشتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے مسافر رستہ نہیں جانتے مگر گاڑی کے شور سے دلاسا رکھتے ہیں کہ سفر کٹ رہا ہے، منزل ملنے والی ہے۔ زندگی اگر گاڑی میں بیٹھا مسافر ہے تو انتظار گاڑی کا شور ہے جو اس زندگی کا بھرم اور تسلی ہہے اور سے بہکنے نہیں دے رہا۔ انتظار ایسا وقت ہے جو گزرتا نہیں بڑھتا ہے۔ اور بڑھنے والا وقت زخم مندمل نہیں کرتا اور ہرا کرتا ہے۔ وہ زخم خوش قسمت ہے جو انتظار کے واسطے ہے۔ اسی انتظار کو پیڑوں کے پتوں پر ڈالا جاۓ تو انہیں ہرا رہنے کے لیے روشنی کی ضرورت نہ رہے۔ اگر پھیپھڑوں کو سانس چاہیے، جسم کو پانی چاہیے، تو بقا کو فنا سے بچنے کے لیے انتظار چاہیے۔ انتظار وہ پیڑ ہے جس کی چھاؤں تلے ہر ایک کو بیٹھنا ہے چاہے مسافر ہو یا فروکش ہو۔ دفتروں، سکولوں کو ایسی چھٹی نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو، کسانوں کو ایسی فصل نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو، زندگی کو ایسا کوئی کاروبار نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو۔ انتظار ہی ہے جو موسم بدلتا ہے۔ خنکی کا انتظار سردی لاتا ہے اور شادابی کا انتظار بہار، موسموں کا بدلاؤ ممکن نہ ہو اگر انتظار نہ ہو یعنی لفظ موسم ہی بے معنی ہو جاۓ انتظار کے بغیر۔ غنچہ اس لیے کِھلتا ہے کہ اس کے کِھلنے کا انتظار تھا، کلی اس لیے چٹختی ہے کہ اس کے چٹخنے کا انتظار تھا، شب اس لیے ڈھلتی ہے کہ سحر کا انتظار تھا ، سورج اس لیے طلوع ہوتا ہے کہ اس کی تمازت کا انتظار تھا ، زندگی اس لیے دواں ہے کہ اسے کسی کا انتظار ہے شاید مرگ کا، نہیں نہیں مرگ کے ثبات کا۔ انتظار وجہ ممکنات ہے۔ سو تم انتظار کے کون کون سے وصف کو جھٹلاؤ گے۔

وقاص بلوچ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انتظار پر
انتظار ایک ایسا جوہر ہے جس کے بغیر انسان کی تکمیل ممکن نہیں۔ منطق کی زبان میں اگر کہہ لیں تو انتظار عارض بالذات ہے۔ انسان کا نفس نفیس انتظار ہے۔ انتظار امر خارج نہیں بلکہ تصدیق بالذات ہے۔ انتظار وہ جوہر ہے جو انسان کو جانوروں سے جدا کرتا ہے۔ اگر ازل اور ابد کے درمیاں انتظار حذف کر لیا جاۓ تو بیچ میں صرف خدا بچ جاۓ۔ واحسرتا! گلشن کے کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں کو حذف نہ کیا جاۓ۔ انتظار فارسی اور اردو غزل کا ہجر ہے مگر ہر متنفس کا وصال ہے۔ شیطان کو جنت سے نکالا گیا تو خدا سے پوچھا انتظار کر سکتے ہو فرمایا ہاں، کہا معرکہ شروع۔ انتظار قدیم ہے۔ انتظار زندگی کو متحرک کرتا ہے بقا کو دوام بخشتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے مسافر رستہ نہیں جانتے مگر گاڑی کے شور سے دلاسا رکھتے ہیں کہ سفر کٹ رہا ہے، منزل ملنے والی ہے۔ زندگی اگر گاڑی میں بیٹھا مسافر ہے تو انتظار گاڑی کا شور ہے جو اس زندگی کا بھرم اور تسلی ہہے اور سے بہکنے نہیں دے رہا۔
انتظار ایسا وقت ہے جو گزرتا نہیں بڑھتا ہے۔ اور بڑھنے والا وقت زخم مندمل نہیں کرتا اور ہرا کرتا ہے۔ وہ زخم خوش قسمت ہے جو انتظار کے واسطے ہے۔ اسی انتظار کو پیڑوں کے پتوں پر ڈالا جاۓ تو انہیں ہرا رہنے کے لیے روشنی کی ضرورت نہ رہے۔ اگر پھیپھڑوں کو سانس چاہیے، جسم کو پانی چاہیے، تو بقا کو فنا سے بچنے کے لیے انتظار چاہیے۔ انتظار وہ پیڑ ہے جس کی چھاؤں تلے ہر ایک کو بیٹھنا ہے چاہے مسافر ہو یا فروکش ہو۔ دفتروں، سکولوں کو ایسی چھٹی نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو، کسانوں کو ایسی فصل نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو، زندگی کو ایسا کوئی کاروبار نہیں چاہیے جس میں انتظار نہ ہو۔
انتظار ہی ہے جو موسم بدلتا ہے۔ خنکی کا انتظار سردی لاتا ہے اور شادابی کا انتظار بہار، موسموں کا بدلاؤ ممکن نہ ہو اگر انتظار نہ ہو یعنی لفظ موسم ہی بے معنی ہو جاۓ انتظار کے بغیر۔ غنچہ اس لیے کِھلتا ہے کہ اس کے کِھلنے کا انتظار تھا، کلی اس لیے چٹختی ہے کہ اس کے چٹخنے کا انتظار تھا، شب اس لیے ڈھلتی ہے کہ سحر کا انتظار تھا ، سورج اس لیے طلوع ہوتا ہے کہ اس کی تمازت کا انتظار تھا ، زندگی اس لیے دواں ہے کہ اسے کسی کا انتظار ہے شاید مرگ کا، نہیں نہیں مرگ کے ثبات کا۔ انتظار وجہ ممکنات ہے۔ سو تم انتظار کے کون کون سے وصف کو جھٹلاؤ گے۔

یہ بھی پڑھیں:

لون دا جیون گھر نیٹو سینسیبلٹی ہے۔۔۔کاشف بلوچ

رفعت عباس دا ناول لون دا جیون گھر۔۔۔ نذیر لغاری

ڈیلی سویل بیٹھک: لون دا جیون گھر۔۔ناول رفعت عباس ۔۔ پہلی دری

سرائیکی مقامیت کی سوجھ بوجھ اور لون دا نمک گھر ۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: