اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سادگی پر زور ||مظہراقبال کھوکھر

اسی طرح وطن عزیز میں سادگی پر زور تو دیا جاتا ہے مگر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ سادگی سانس لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں سادگی موجود تو ہے مگر صرف باتوں میں ، دعووں میں یا صرف بیانات اور اعلانات میں مگر عملی طور پر سادگی اتنی ہی نظر آتی ہے جتنی اس ملک میں تبدیلی نظر آتی ہے۔

مظہر اقبال کھوکھر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وزراء ، وزرائے مملکت ، گورنرز ، وزرائے اعلی اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پروٹوکول کم کر دیں غیر ضروری شوبازیوں پر کارروائی کی جائے گی۔ ٹیکس کے پیسے کی بچت اور عوام کو زحمت سے بچانے کے لیے وہ خود بھی سکیورٹی اور پروٹوکول کے ساتھ نجی تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم عوام کو مرعوب کرنے کی غرض سے جاہ و جلال کے استعمال کی اس نو آبادیاتی میراث کو ختم کر دیں گے”
وزیر اعظم پاکستان جب بھی سکیورٹی کے نام پر لیے جانے والے پروٹوکول کے خاتمے ، سادگی ، کفایت شعاری اپنانے، عام آدمی کو بااختیار بنانے، نیا پاکستان اور ملک میں تبدیلی لانے جیسے بیانات دیتے ہیں اور اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں تو یقین مانیں بے حد خوشی ہوتی۔ کیونکہ ایسی ہی باتوں ، خوابوں ، امیدوں اور بیانات کے سہارے تو ہم جی رہے ہیں یوں سمجھ لیں اس طرح کے دل کش بیانات ہمارا نشہ بن چکے ہیں جب بھی کسی جماعت کسی حکومت کی طرف سے اس طرح کے بیانات سامنے آتے ہیں تو ہماری جان میں جان پڑ جاتی ہے اور ہمارے جیسے لوگ خوشی سے سنبھالے نہیں سنبھلتے۔ یقیناً ایسی ہی باتوں کے نتیجے میں در آنے والی خوشی ہی تو تھی جس کی وجہ سے قوم نے عمران خان سے امیدیں وابستہ کر کے آواز لگائی کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی ایک موقع ملنا چاہئے اور پھر 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو موقع مل گیا اب نہیں معلوم پاکستان تحریک انصاف اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے نئے مواقع پیدا کرتی ہے یا پھر اس موقع کو ضائع کرکے نئے موقع کی تاک لگاتی ہے۔
وطن عزیز میں سادگی اپنانے کے دعوے اور پروٹوکول ختم کرنے کی باتیں کوئی نئی بات نہیں سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے سادگی اختیار کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے سائیکل پر دفتر جانے کا اعلان کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر روز صبح سویرے راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان مری روڈ کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا۔ جناب صدر کے سائیکل کے انتظار کے لیے دونوں کناروں پر لوگوں کو کھڑے رہنے کے لیے پابند کیا جاتا اور چھوٹی بڑی گاڑیوں، بسوں، کاروں اور تمام ٹریفک کو روک کر سائیکل کا دیدار کرایا جاتا اور پھر دوسرے دن صدر مملکت کی سائیکل والی تصویر اخبارات کی زینت بنتی اور پھر تبصروں ، اداریوں ، کالموں میں جناب صدر کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں امیر المومنین جیسے کئی القابات سے نوازہ جاتا اور ان کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے۔
اکتوبر 2017ء میں ہالینڈ کے وزیر اعظم کی ایک تصویر اخبارات میں شائع ہوئی جس میں وہ کسی سکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر بادشاہ سے ملنے کے لیے سائیکل پر شاہی محل پہنچ جاتے ہیں۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی۔ اس پر لوگوں نے بہت زیادہ تبصرے کئے کہ ایسے ہوتے ہیں عوامی لیڈر ، ایسے ہوتے ہیں حقیقی نمائندے جو بغیر کسی سکیورٹی اور پروٹوکول کے سائیکل پر سفر کرتے ہیں۔ عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے سفر کے لیے سائیکل تو نہیں اپنایا البتہ عوام کو پروٹوکول اور روٹ کی زحمت سے بچانے کے لیے بنی گالا سے وزیر اعظم ہاؤس تک سفر کے لیے  ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کر دیا۔ لوگوں نے تنقید کی تو فواد چوہدری نے بتایا کہ اس  ہیلی کاپٹر پر فی کلو میٹر 50 سے 55 روپے خرچ آتا ہے جس پر انہیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل 2013ء میں جب پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ میں حکومت بنائی تو عمران خان نے کے پی کے گورنر اور وزیر اعلی  ہاوسز کو تعلیمی اداروں میں بدلنے کا اعلان کیا۔ جبکہ 2018ء کی انتخابی مہم میں بھی متعدد بار اپنے خطابات اس عزم کا اظہار کیا کب وہ اقتدار میں آکر سادگی اختیار کریں گے۔ بڑے بڑے محلات ، وزیر اعظم ہاؤس ، وزیر  اعلی ، گورنر ہاؤسز کو ختم کر دیا جائے گا اور پھر وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے اور خود ملٹری سیکرٹری کے گھر میں رہائش رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس جیسے بڑے گھر غلامی کے دور کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم ختم کر دیں گے۔ بہر حال تین سال گزرنے کے باوجود وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے لیے ابھی کتنا عرصہ مزید لگے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ تاہم اس قبل میاں نواز شریف بھی 1997ء اور 2013ء پی ایم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جتنے اعلان ہوتے ہیں اتنے اگر اقدام ہوتے تو ملک حالت اور عوام کے حالات ایسے نہ ہوتے جیسے آج ہیں۔
اسی طرح وطن عزیز میں سادگی پر زور تو دیا جاتا ہے مگر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ سادگی سانس لینے کے قابل بھی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے پاکستان میں سادگی موجود تو ہے مگر صرف باتوں میں ، دعووں میں یا صرف بیانات اور اعلانات میں مگر عملی طور پر سادگی اتنی ہی نظر آتی ہے جتنی اس ملک میں تبدیلی نظر آتی ہے۔

بہر حال وزیر اعظم کی طرف سے پروٹوکول کے خاتمے اور سادگی اختیار کرنے کے اعلان کے بعد گزشتہ روز وفاقی کابینہ اجلاس میں بتایا گیا کہ کابینہ سے زیادہ پروٹوکول سابقہ حکمرانوں ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریٹس کو حاصل ہے۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا سکیورٹی اور پرٹوکول کا جائزہ لے کر وزراء ، وزرائے مملکت ، گورنرز کے علاوہ سابقہ حکمرانوں ، ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریٹس کا پروٹوکول بتدریج کم کیا جائے گا۔ اس حوالے سے جامع رپورٹ اگلے اجلاس میں وزیر اعظم کو پیش کی جائے گی”
یقیناً یہ موجودہ حکومت کی مثبت پیش رفت ہے کیونکہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک طرف بھوک، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کا جینا محال ہے اور دوسری طرف انگلیوں پر گنی جانے والی اشرفیہ پورے ملک کو انگلیوں پر نچا رہی ہے اور قوم کے پیسوں پر عیاشیاں کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا واقعی سادگی اختیار کی جاتی ہے یا پھر ابھی صرف سادگی پر زور ہی دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

مظہراقبال کھوکھر کی  تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: