مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کا عروج ۔۔||گلزار احمد

جب ٹرانسسٹر ریڈیو نیا نیا آیا تو ہمارے مزے ہو گیے کیونکہ یہ بیٹری سیل سے چلتا اور ہم اسے اٹھا کے جگہ جگہ پھرتے اور گیت سنتے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈھائی سو سال پہلے ڈیرہ میں سکے بنانے کی فیکٹری تھی۔
افغانستان کے دُرانیوں کی حکومت(1770-1796) میں ڈیرہ میں سکے بنانے کا سرکاری کارخانہ یا منٹ ہاوس کام کر رہا تھا۔ اس وقت سونے اور چاندی کے سکے بناۓ جاتے تھے۔ سکے کے ایک طرف لکھا ہوتا۔۔ضرب ڈیرہ جات۔۔۔جبکہ دوسری جانب ۔۔تیمور شاہ۔زمان شاہ۔محمد شاہ۔ شش شعاالملک لکھا ہوتا۔ درانی بادشاہ نے اپنے نام سے ایک سکہ۔۔ محرابی روپیہ۔۔ بھی متعارف کرایا تھا۔ جب سکھوں نے1821ء میں ڈیرہ پر قبضہ کیا تو ان کی حکومت میں یہ سکے چلتے رہے ساتھ ساتھ نانک شاہی روپیہ اور پیسہ بھی بنایا جانے لگا۔یہ سکے موٹے تھے اور تانبے سے بنائے گیئے تھے۔اس سکے کے ایک طرف ۔۔۔پا آنا نانک شاہی لکھا جاتا۔۔۔دوسری طرف۔۔ ڈیگ تیغ فتح نصرت۔۔ لکھا ہوتا۔ اس دور میں منٹ فیکٹری کا سپروائیزر سردار ہرداس سنگھ تھا۔ سکھوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ہندو ان سکوں کو مقدس سمجھتے اور شادی کی رسموں میں استعمال کرتے۔۔ کابل کے بادشاہ نے دیوان نند رام کے نام پر نند رامی سکہ بھی رائج کیا تھا جو مدتوں چلتا رہا۔
آجکل بچوں کو گھر اور سکول میں رٹو طوطا بنایا جاتا ہے مگر ان کی تربیت پر زور نہیں دیا جاتا۔ تعلیم ایک کاروبار بن گیا ہے جس کا مقصد نفع اندوزی ہے۔۔۔
پہلے یہ ایک مشن تھا ۔
جب میں مسلم لیگ ہائی سکول ایمپرس روڈ لاہور پانچویں کلاس میں داخل ہوا تو وہاں کی یونیفارم گرے پینٹ۔آسمانی نیلی شرٹ ۔ ٹائی اور کالے بوٹ تھے۔ڈیرہ میں ہماری سکول یونیفارم ملیشیا کی شلوار قمیض تھی جو میل خورہ کپڑا تھا اور استری کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ مسلم لیگ ہائی سکول کا ہیڈماسٹر جناب محمد دین صاحب ڈسپلن کے بہت سخت تھے۔صبح سویرے دو فٹ کی فوجی سٹک لے کر گیٹ پر کھڑے ہوتے۔ ہر طالب علم کی صفائی۔پینٹ کی کریز۔دانت کی صفائی ۔ناخن اور چمکتےبوٹ دیکھتے۔ مجھے کپڑے استری کرنے اور پینٹ کی کریز بنانے کے لیے بہت سویرے اٹھنا پڑتا۔کوئلے کی استری آدھے گھنٹے میں گرم ہوتی اور احتیاط سے پریس کرتے ورنہ کپڑے جل جاتے۔ دانت کو برش سے چمکاتے پھر بوٹ کا نمبر آتا سایکل پر بھی کپڑا مارتے۔ ہیڈماسٹر جناب محمد دین صاحب نے جو عادت ڈالی وہ عمر بھر کے لیے لائف سٹائل بن گئی۔
کئی سال گزر گیے صبح بہت سویرے جاگنا ۔دانتوں کی صفائی روزانہ نہانا اور کپڑے استری کرنا معمول بن گیا۔ کیسے اساتذہ تھے جن کی تربیت آج تک یاد ہے۔خدا غریق رحمت کرے آمین۔؎
ﺁﺋﮯ ﻋُﺸﺎﻕ ، ﮔﺌﮯ ﻭﻋﺪﮦﺀ ﻓﺮﺩﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ۔۔
ﺍَﺏ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈُﮬﻮﻧﮉ ﭼﺮﺍﻍِ ﺭُﺥِ ﺯﯾﺒﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ۔۔
سوڈا کی بوتل اور ٹرانِسسٹر ۔
جب ٹرانسسٹر ریڈیو نیا نیا آیا تو ہمارے مزے ہو گیے کیونکہ یہ بیٹری سیل سے چلتا اور ہم اسے اٹھا کے جگہ جگہ پھرتے اور گیت سنتے۔ اس سے پہلے میرے پاس bluepunct جرمنی کا والز والا ریڈیو تھا جو گھر میں میز پر دھرا رہتا اور بجلی سے چلتا۔ میں ریڈیو پر گیت سنتا اور جب خبروں کا وقت ہوتا تو میں بند کر دیتا یا پھر میرا بابا خبریں سنتا۔مجھے خبریں سننا زہر لگتا اور بابا کہتا تم پگلے ہو جو خبریں نہیں سنتے۔قسمت کی خوبی دیکھیے آگے پوری زندگی ریڈیو پر خبریں سناتے گزری۔
خیر ٹرانسسٹر اٹھائے گانے سنتے ہم سوڈا واٹر یا روز کی بوتل پینے کوئی دکان ڈھونڈتے۔اس وقت سوڈا واٹر کی بوتلیں موٹے شیشے کی بنی ہوتیں اور ان کا منہ ڈھکنے کی بجائے ایک گول شیشے کے چدے یا گولی سے بند ہوتا۔ جب اس کو زور سے دبا کر کھولا جاتا تو ایک خاص آواز پیدا ہوتے جو دل کو لبھاتی۔

%d bloggers like this: