اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ان تعمیرات کا ایک حصہ یہ تاریخی ست منزلہ جو ڈیرہ شہر کی سب سے بلند حویلی ہے جس کو ایک ہندو سیٹھ جیسا رام بھاٹیہ المعروف ( جیسا رام لوٹھہ) نے اپنی رہائش کے لیے 1890 قریب تعمیر کروایا.

 رمیض حبیب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ڈیرہ اسماعیل خان چوگلیہ کا مشہور بازار بھاٹیہ کے محلہ مجاہد نگر جو چھوٹے بازار کی طرح اپنی تنگ گلیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے .

وہ گلیاں جہاں لوگ کندھے سے کندھا بچا کر چلتے ہیں. جہاں کھڑکیوں میں بیٹھے لوگ آتے جاتے ایک دوسرے کا حال پوچھ لیتے ہیں
اور جہاں چھتوں سے چھتیں کچھ ایسی ملتی ہیں مانوں جیسے دو دل ملتے ہوں. ان ہی گلیوں کے اندر یہ تاریخی حویلی ست منزلہ واقع ہے.

1823 کی بات جب دریائے سندھ کے 16 میل چوڑے پاٹ میں شدید طغیانی کے باعث سلاب نے پرانے ڈیرہ اسماعیل خان جو پندرہویں صدی میں سردار سہراب خان نے آباد کیا تھا اسے مکمل غرق کر دیا.
تو 1824 میں نواب آف ڈیرہ کے حکم پر منشی لکھی مل اور تیج بھان نندوانی نے بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کا نقشہ ڈیزائن کیا.

نقشے کے مطابق مسلمان اکثریت آبادی کو شمال میں جبکہ ہندو اقلیتی آبادی کو جنوبی حصے میں آباد کیا گیا.

تو بھاٹیہ قوم کے صاحبان نے ایک علیحدہ محلہ اپنے لئے شہر کے مغرب کی طرف منتخب کیا.اور یہاں پر اپنے لئے عالیشان تعمیرات کرایئں.

ان تعمیرات کا ایک حصہ یہ تاریخی ست منزلہ جو ڈیرہ شہر کی سب سے بلند حویلی ہے جس کو ایک ہندو سیٹھ جیسا رام بھاٹیہ المعروف ( جیسا رام لوٹھہ) نے اپنی رہائش کے لیے 1890 قریب تعمیر کروایا.

تقسیم سے قبل اس حویلی کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا. ست ماڑہ , دریا والی ماڑی ,اور ست منزلہ وغیرہ.

130 سالہ اس تاریخی حویلی نے ڈیرہ اسماعیل خان کو پل پل کروٹ لیتے دیکھا ہے. بدلتی حکومتوں, بدلتے موسموں, اور بدلتے انسانوں کو بھی دیکھا ہے.
اس سارے عرصے میں ست منزلہ بھی خوب بدلی اور بے رحم وقت کے ساتھ ساتھ اپنا حسن بھی کھوتی رہی.

تقسیم کے بعد اس ست منزلہ حویلی کو 1969 میں حاجی حیات صاحب نے 45 ہزار میں خریدی اور کرایہ پر دی جب کرایہ داروں نے 1994 میں فارغ کی تو اس حویلی کی حالت خراب کر دی اس وقت اس کی دوبارہ مرمت پر 35 سے 40 لاکھ روپے خرچ آیا. ڈاکٹر نعمان حیات کے مطابق جب سونے کی قیمت 5000 ہزار روپے تولہ ہوا کرتی تھی.

ڈیرہ اسماعیل خان میں جہاں حویلیاں اپنی آخری سانسیں گن رہی ہیں تو وہاں ست منزلہ حویلی کا اپنی اصلی حالت خوبصورتی کے ساتھ قائم رکھنا کوئی کرشمے سے کم نہیں ہے.

تقدیر اتنی سنگ دل بھی نہیں تھی کے اس کی خوبصورتی اور تاریخ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتی

جس کا ثبوت ست منزلہ حویلی کی یہ چم چماتی خوبصورتی ہے .

اس قدیم حویلی کے درودیوار اور لکڑیوں پر بنی دلکش نقش نگاری سنہرے دور کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔

چاہیے حویلی کا دیودار اور سگوان کی لکڑی سے تیار کردے یہ مضبوط اور بڑے دروازے ہوں. آنگن کی دہلیز ہو. سنگ مرمر کا بنا فرش ہو.

پھر تازہ رنگ و روغن والے دروازے ہوں.
یا پھر صحن میں لکڑی کا بغیر کیل کئے یہ کام ہو اور سیڑھیوں کو اپنی بہن جمنا دیوی کے گھر کے ساتھ متصل کرانا

یہ مہارت اور صنعت گری یہ سب اب شاہی ٹھاٹ کی داستان خود سنا رہی ہیں.

ڈاکٹر نعمان حیات صاحب نے اس حویلی کو اپنی پرانی خوبصورتی میں ہی زندہ رکھا ہوا ہے. ۔ ہندو آرکیٹیکچر اور مغل طرز تعمیر کے حوالے سے اس حویلی کی ساتوں منزلوں پر بڑی مہارت سے کام کیا گیا ہے

ست ماڑی کا کھلا صحن یا بال کنی مختلف ثقافتوں کی طرز و تعمیر پر بنائی گئی آثار قدیمہ کا منفرد شاہکار ہے۔

اس حویلی کی آخری منزل پر جہاں سے ہم چوگلیہ, بڑی مسجد, گرجا گھر, ہو یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے دروازے ہوں سب آسانی سے دیکھ سکتے ہیں

ست منزلہ حویلی کی کہانی ادھوری رہتی جب تک اس کے بنانے والے مالک کا ذکر نہ ہو.

سیٹھ جیسا رام بھاٹیہ کی زندگی پر مختصر روشنی.


آپ سیٹھ نندورام بھاٹیہ کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے.
آپ لوگوں کا کاروبار بہت وسیع تھا بڑے بڑے شہروں میں مثلا بمبئی. کلکتہ. دہلی. کانپور. امرت سر وغیرہ میں آپ کی برانچیں تھی.

رفاہ عام کی خاطر آپ نے 17 مارچ 1936 کو ڈیرہ شہر کے اندر رائے بہادر سیٹھ جیسا رام بھاٹیہ خیراتی ہسپتال قائم کیا جو آج بھی موجود ہے جیسا رام لوٹھے والے ہسپتال کے نام سے.
اس کے علاوہ آپ نے ڈیرہ اسماعیل خان سول ہسپتال ایکسرے پلانٹ کے لئے 550 روپے دان کئے.
اور اپنی بہن جمنا دیوی کے نام اپنے محلہ میں کنیا پاٹھ شالہ قائم کی.
آپ نے ڈیرہ شہر میں کنویں. سڑکیں. اور سکول کے بچوں کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے.

آپ کے پاس پیتل کا ایک لوٹھا ہاتھ میں ہوا کرتا جو روپے سکوں سے بھرا ہوتا آپ جہاں کہیں جاتے تو لوٹھے میں سے سکے اور پیسے نکال کر غریبوں کو دیتے اس پیتل کے لوٹھے کی وجہ آپ کا نام جیسا رام لوٹھہ پڑ گیا.

1922 میں آپ کو رائے صاحب اور 1928 رائے بہادر کا خطاب ملا.

رمیض حبیب کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: