اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوہ قاف کی پریاں دیکھنے کا شوق ۔۔||گلزار احمد

ورنہ اگر روس نہیں جا سکتے تو ناران چلے جاو اور جھیل سیف الملوک کے کنارے کھڑے قصہ سنانے والوں سے قصہ سن کے جھیل کے اوپر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ شاید کوئی پری مل جاۓ۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری دادیاں اور نانیاں ہمیں کوہ قاف کے قصے سناتیں ۔ ان قصوں میں کوہ قاف کی خوبصورت پریاں۔۔ کچھ دیو اور جن بھی شامل ھوتے ۔جب ٹی وی آیا تو اس پر باقائدہ ایسے پروگرام بچوں کے لیے بناۓ گئے جن میں تمام پرانے قصے فلماۓ گئے اور ہم بڑے شوق سے پریاں ۔جن اور دیو اڑتے دیکھتے ۔ جب بڑے ہوے تو کھوج لگانا شروع کیا کہ کوہ قاف ھے کہاں؟ پتہ چلا کوہ قاف پاکستان کے شمال میں سویت یونین کی مختلف ریاستوں میں موجود ھے ۔خیر دل میں کوہ قاف دیکھنے کی تڑپ تو تھی مگر کوئی چانس نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر اللہ پاک بھی انسان کے لئے اچانک ایسے اسباب بنا دیتا ھے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ھوتا۔ کئی سال پہلے مجھے اسلام آباد ایک دن حکم ملا کہ فوراً ماسکو پہنچو وہاں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کی سربراہ کانفرنس ہو رہی جس میں پاکستان کے وزیراعظم شرکت کریں گے اور مجھے یہ کانفرنس رپورٹ کرنی تھی۔۔اب تو میرے ذھن میں کوہ قاف کے سارے مناظر فلم کی طرح گھومنے لگے۔ رخت سفر باندھا اور سخت سردی میں جب ہر طرف برف پڑی تھی میں ماسکو پہنچ گیا۔۔۔ روس زمین کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ھے کیونکہ یہ زمینی سیارے کے دسویں حصے پر پھیلا ہوا ھے اگرچہ آبادی پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ھے۔ اس کی سرحدیں ایشیا سے یورپ تک 14 ملکوں جن میں چین شمالی کوریا ڈنمارک فن لینڈ کو چھو رہی ہیں۔ یہاں نو علیحدہ ٹایم زون ہیں مطلب نو ریاستوں میں ٹائیم علیحدہ علیحدہ ہیں ۔ ماسکو میں کریملن ایک قدیم تاریخی قلعہ نما کمپلیکس ھے جس میں کئی محلات ہیں اور سامنے دریا بہتا ھے۔اور یہ بہت خوبصورتی سے بنایا گیا ھے۔مجھے اسے دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔کریملن کے اندر جانے کی اجازت تو نہیں مگر پاکستان کے وزیراعظم نے وہاں اپنے ہم منصب سے مذاکرات کرنے تھے اس کی وجہ سے ہمیں بھی اندر جانے کا موقع مل گیا۔اندر سے عمارت بہت شاندار تھی اور کاریڈور اتنی نفاست اور یکسانیت سے مزین کئے گیے تھے کہ آدمی راستہ بھول جاۓ۔ بہرحال روس کی یہ عمارت ملک کی شان و شوکت کا شاہکار ھے۔اب دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں کو قاف کے قصے کیوں مشھور ہوۓ؟ اس کی وجہ یہ نظر آتی ھے کہ روس اور سنٹرل ایشیا کی عورتیں پوری دنیا میں خوبصورتی کی وجہ سے مشھور ہیں۔ابھی پچھلے سال ملائیشیا کے بادشاہ نے روسی حسینہ سے شادی کی وجہ سے تخت و تاج چھوڑ دیا ۔ تعلیم بھی سو فیصد ھے۔ صحت بھی بہت اچھی ھے تو ہمارے بزرگ جو وہاں سے انہیں دیکھ کر آتے تو انہیں پریاں بنا کر پیش کرتے اور نسل در نسل یہ قصے چلتے رھے۔ پھر مجھے تاجکستان۔ ازبکستان۔ترکمنستان جانے کا موقع ملا تو معلوم ہوا ہمارے بزرگوں کی داستانیں اساطیری نہیں بلکہ اس میں حقیقت کا بڑا عمل دخل تھا جن پر اساطیری داستانوں کا رنگ چڑھتا گیا۔ہماری نانیاں اور دادیاں زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں لیکن Bed Time پر ہمیں سلانے کے لئیے شروع میں لوریاں سناتیں ۔ان لوریوں میں وہ کہتیں میں صدقے تھیواں تے قربان تھیواں ۔ہم چھ ماہ کی عمر میں لوری سمجھ تو نہیں سکتے تھے مدھر بھری آواز کا نغمہ سن کر سو جاتے۔پھر جب پانچ چھ سال کے ہوۓ تو پریوں کی کہانیاں سنا کر ہماری اندر آگے بڑھنے اور پریاں حاصل کرنے کی امنگ اور آرزوئیں پیدا کی گئیں۔۔ اس سے ظاہر ھوتا ھے پڑھے ہوۓ سے کِڑھا ہو زیادہ سیانہ ہوتا ھے۔۔ خیر ہم لوگوں کی زندگی میں کوہ قاف کی پریاں تو نہ آ سکیں مگر جو قسمت میں لکھی تھی ہر مرد نے شادی کر کے ایک پری حاصل کر لی۔۔ بس اب اس پہ گزارہ کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ ورنہ اگر روس نہیں جا سکتے تو ناران چلے جاو اور جھیل سیف الملوک کے کنارے کھڑے قصہ سنانے والوں سے قصہ سن کے جھیل کے اوپر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ شاید کوئی پری مل جاۓ۔

%d bloggers like this: