مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کوئی سنتا سمجھتا کب ہے باتیں ہماری||حیدر جاوید سید

بند کیمرہ یا کمرہ بریفنگ میں وہ سب کہا گیا جو یہاں فقیر راحموں تک کو معلوم ہے راز کی باتیں کیا تھیں ان میں؟ یہی جو شکوہ مشاہدحسین سید نے آرمی چیف سے کیا اور انہوں نے جو جواب دیا؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوڈ شیڈنگ کی ہلکی پھلکی موسیقی اب رقص میں تبدیل ہو چکی واپڈا کے دفتر شکایات سے شکایات بڑھتی جارہی ہیں اولاً تو فون نہیں اٹھاتے کبھی غلطی سے فون اٹھا لیں تو وہی برسوں پرانی کہانی” بجلی اسلام آباد سے بند ہوئی ہے ” ایک وفاقی وزیر مملکت ہیں علی محمد خان چند دن ادھر بولے سسٹم میں بارہ سے تیرہ ہزار میگا واٹ بجلی فالتو پڑی ہے ۔
ارے واہ ۔ کیا بات ہے فالتو بجلی کی تقسیم کے لئے لنگر خانہ کھول دیجئے ۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ سرکار نے ” روٹی شوٹی کے لئے جو لنگر خانے تیار کئے ہیں اگر ان پر ہی شاپروں میں ڈال کربجلی تقسیم کر دی جائے تو ضرورت مند دعائیں کریں گے”۔
فقیر راحموں بھی عجیب سا شخص ہے پتہ نہیں اسے مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کی طرح ہر حکومت کی اپوزیشن میں رہنے کا کیوں شوق ہے ۔ مرلہ بھر زمین نہیں پورے پاکستان میں اور شوق دیکھیں ‘
اچھا گزشتہ شب بتایا گیا کہ بجلی کا شارٹ فال آٹھ ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ۔ ارے وہ فالتو پڑی بارہ سے تیرہ ہزار میگا واٹ بجلی کہاں گئی؟ ظالمو بیچ تو نہیں دی کسی کو؟ ۔
علی محمد خان یقیناً اس کا جواب عنایت کریں گے خاصے دیندار آدمی ہیں گفتگو کا آغاز درودشریف کی تلاوت سے کرتے ہیں۔ ان کی بات کو جھٹلانا آسان نہیں ۔
چلیں ایک ظلم اور ہوا وہ یہ کہ بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 2 روپے 97 پیسے کا اضافہ کر دیا گیا۔ان سطور میں قبل ازیں لکھ چکا ہوں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے مطابق دسمبر2020 سے 30جون تک بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 8 روپے اضافہ کرنا لازمی ہے آپ بالترتیب ہوئے اضافے کو جمع کر لیجئے معاملہ آٹھ روپے سے بڑھ چکا ہے ۔
کیا نیپرا وغیرہ کو صارفین کی قوت خرید معلوم نہیں؟صارفین کی تو اس ملک میں سنتا ہی کوئی نہیں۔ رعایا کی کون سنتا ہے ۔ رعایا کا کام صرف اطاعت بجا لانا اور بھاگ لگے رہیں الاپتے رہنا ہوتا ہے ۔
وہی ہوا جس کا خطرہ تھا امریکیوں نے پھر سے ہاتھ دکھا دیا۔ ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان پر فوجی سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے عسکری مقاصد کے لئے بچوں کی بھرتی کا الزام تھونپا گیا ہے اس الزام کی زد میں اپنے پیارے خلیفہ طیب رجب اردگان کا ترکی بھی آیا ہے ۔وہ تو خیر خودنبڑ شبڑ لے گا۔ ہم کیا کریں گے
ایک وضاحتی بیان دفتر خارجہ نے جاری کیا ہے فرمایا ہے
” ہم سے مشورہ نہیں کیا گیا” اس وضاحتی بیان کو پڑھنے کے بعد میں کافی کا ایک پورا کپ پی چکا ۔ اچھا مذاق ہے ۔ بھلا آپ سے مشورے کی ضرورت کیا تھی امریکہ بہادر کو۔
امریکیوں نے اپنی رپورٹ کے ساتھ چند ویڈیوز جاری کی ہیں انہیں چیلنج کیجئے ۔ اصل قصہ یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ بین الاقوامی طور پر اقوام متحدہ کے امن مشن پروگراموں میں پاکستان کی شرکت روکنا چاہتی ہے ساتھ ہی کچھ عمومی قسم کی امدادیں بھی بند کرنے کی خواہش مند ہے ہر دو خواہشوں پر عمل کے لئے اس رپورٹ میں پاکستان کا نام ڈالا گیا ہے ۔
وزارت خارجہ کو سمجھنا ہو گا معمول کا روایتی وضاحتی بیان اور شکوہ کسی کام کا نہیں آگے بڑھ کر دو ٹوک بات کرنا ہو گی عالمی رائے عامہ اور خود اپنے لوگوں کو بتانا ہو گا اور یہ کہ اگر یہ کسی قسم کی غلط فہمی تھی اسے دور کیا جانا چاہئے
چند ساعتیں نکالیں کچھ پیچھے چلیں جینواکے بعد امریکہ بہادر جب پتلی گلی سے نکلا تھا تو اس نے اسی طرح کے سنگین الزامات لگا کر مختلف مدوں دی جانے والی امدادیں میں روک لی تھیں۔
اب بھی پچھلے کچھ عرصہ سے ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بلکہ دوران میں ہی امریکی ہمیں ایسے ہاتھ دکھائیں گے کہ چودہ کی بجائے اٹھارہ طبق روشن ہو سکتے ہیں۔
لیجئے طبق روشن کرنے کا بندوبست کر لیا امریکہ نے اب موجاں کریں۔
چنددن ادھر قومی اسمبلی کے ہال میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اجلاس ہوا عسکری حکام نے داخلی و خارجی صورتحال اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے بریفنگ دی ۔
بند کیمرہ یا کمرہ بریفنگ میں وہ سب کہا گیا جو یہاں فقیر راحموں تک کو معلوم ہے راز کی باتیں کیا تھیں ان میں؟ یہی جو شکوہ مشاہدحسین سید نے آرمی چیف سے کیا اور انہوں نے جو جواب دیا؟
ہماری دانست میں مناسب یہ رہے گا کہ افغان پالیسی کے حوالے سے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اور اس میں بات ہو وجہ یہی ہے کہ کہنے اور عمل میں فرق کے حوالے سے گردش کرتی اطلاعات سے ابہام پیدا ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ ماضی کی طرح عوام سے کچھ چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ یہ درست نہیں ہے ۔
بلکہ عوام کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے ۔ کشمیر کے حوالے سے لوگوں میں موجود بد اعتمادی ابھی ختم نہیں ہوئی لاکھ نعرے لگائیں یا بڑھکیں ماریں جب تک جولائی 2019ء میں وائٹ ہاوس اور پینٹاگون میں ہوئی ملاقاتوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ نہیں کیا جاتا اعتماد سازی مشکل ہے کیوں؟
اس کا سادہ سا جواب ہے لیکن یہاں سادہ سا جواب بھی برداشت نہیں ہوتا ہے اس لئے یہی عرض کرنا بہتر ہے کہ اپنے لوگوں کے مفادات کو اولیت دیجئے پسند و ناپسند کے ایک سے زیادہ انجام دیکھ بھگت لئے مزید ہمت نہیں ہے ہم میں

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: