دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی:جب کچھ علاقوں سے گزرنے کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی||نذیر لغاری

میں نے بچی سے کہا کہ آپ جاکرمیرا نام بتائیں اور کہیں اکیلے میجر صاحب فون پر آکر مجھ سے بات کریں۔ میجرصاحب آئے تو میں نے انہیں اپنا نام اور اخبار میں اپنی اوقات بتائی ا
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دنوں کراچی میں اندھا دھند فائرنگ، گاڑیاں جلانا، آن کی آن میں شہر کو بند کردینا، راہ چلتے افراد کا اچانگ کم ہوجانااور پھر ان کی ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں ملنا معمول بن چکا تھا۔ ہم دفتر کی گاڑی میں قافلہ کی صورت میں چلتے تھے، گاڑی پہلے میرے گھرآتی اور پھرہم دفتر کے دیگردرجن بھرساتھیوں کو ان کے گھروں سے لیتے دفترپہنچتے۔بعض دوستوں کے گھرایسے علاقوں ہوتے کہ دن کے اوقات میں بھی ان علاقوں سے گزرنے کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی تھی۔
یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ ہمارے دفتری اوقات رات دوبجے شروع ہوتے تھے اور دفتر کی گاڑی میرے ہاں رات بارہ، سوا بارہ بجے پہنچتی اور ہم آخری ساتھی کو لے کردوبجے تک دفتر پہنچ جایا کرتے تھے۔ایک رات میں دفترپہنچا تومجھے کرائم رپورٹرنے بتایا کہ ایک لڑکی باربار فون کر رہی ہے اور وہ خوفزدہ ہے۔ان دنوں پیجر توآچکے تھے مگر موبائل فون نہیں آئے تھے، چنانچہ مواصلاتی رابطہ لینڈ لائن کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔ میں نے کرائم رپورٹر سے کہا کہ اس بچی سے میری بات کرائیں، فون لائن ملی توبچی نے پوچھا آپ ایڈیٹر بول رہے ہیں۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، پھر بچی نے میرانام لیا، میں نے کہا کہ جی میں ہی بول رہا ہوں۔ اب بچی نے مجھے بتایا کہ میں پروفیسر تعظیم احمد صدیقی کی بیٹی بول رہی ہیں۔ میں پروفیسر تعظیم صاحب کو جانتا تھا۔ وہ اسلامیہ کالج اور جناح کالج سے منسلک رہے تھے، وہ پرنسپل کے منصب تک بھی پہنچے تھے، میں نے پوچھا”بیٹا کیا ہوا، رات کے اس پہر میں فون کیوں کیا” بچی نے کہا کہ "فوج کے دستے نے ہمارے گھرکوگھیرے میں لے رکھاہے۔میں گھرمیں اکیلی ہوں، دروازہ زور سے پیٹا جارہا ہے اور مجھے بہت ڈرلگ رہا ہے۔”ساتھ ہی اس نے یہ اطلاع دے کر مجھے چونکااور چکرادیاکہ اس کا ایک بھائی عادل صدیقی اورنگی ٹاؤن کا سیکٹرانچارج اور ایک بھائی اویس صدیقی یونٹ انچارج ہے۔ میرے لئے یہ بات قطعی نئی تھی۔ میں نے بچی سے کہا کہ دروازے پرجاکر یہ پوچھیں کہ آپ کے دستے کو کون لیڈ کررہا ہے۔ بچی نے تھوڑی دیربتایا کہ لیڈ کرنے والے اپنا نام میجرخالد بتارہے ہیں۔
میں نے بچی سے کہا کہ آپ جاکرمیرا نام بتائیں اور کہیں اکیلے میجر صاحب فون پر آکر مجھ سے بات کریں۔ میجرصاحب آئے تو میں نے انہیں اپنا نام اور اخبار میں اپنی اوقات بتائی اور ساتھ یہ کہا کہ میجرصاحب بچی گھرمیں اکیلی ہے، آپ اپنی ٹیم لے آئیں، پورے گھرکی تلاشی لیں۔ اگریہاں آپ کا کوئی مطلوب شخص ملے تو آپ اسے باقاعدہ گرفتار کرلیں اور ہم اس گرفتاری کی خبرلگائیں گے۔ مگرمیجرصاحب !اس بچی کوذرہ سی خراش بھی نہیں لگنی چاہیئے، آپ اس بچی کو میری چھوٹی بہن سمجھیں۔ ایم کیوایم میری آزاد روی اور آزاد پالیسی کواپنی دشمنی کے طورپر سمجھتی تھی۔ میجرصاحب نے کہا کہ ہم تلاشی لے کرچلے جائیں اور ہم میں سے کوئی اس بچی کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ میجرصاحب نے اپنا وعدہ پورا کیا، فوجی دستے کے جانے کے بچی نےفون کرکے کرائم رپورٹر کااور میرا شکریہ ادا کیاتھا۔
انہی دنوں دفتر نے مجھے ایک کار دی تاکہ میں سہولت سے دفترپہنچ سکوں۔ ناظم آباد کے بعد گولیمار کے علاقے سے گزرتے ہوئے لسبیلہ کا پل کراس کرنے تک پورے جسم پر خوف کی ایک لہردوڑ رہی ہوتی۔میں بنیادی طوربہت کمزوردل واقع ہوا ہوں۔ آپ اس کمزور دلی کوبزدلی تک لے جاسکتے ہیں۔ ایک بار میں گولیمار چورنگی سے آگے بڑھ رہا تھا، حسب معمول دل و جان پر خوف چھایا ہوا تھا۔سامنے لسبیلہ پل سے ذرا پہلے ایک خاتون دو مرد حضرات کو دیکھ کر میری روح لرز اُٹھی۔ انہوں نے گاڑی کو روکنے کیلئے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ میں نے گاڑی روک دی، میں بُری طرح ڈراہوا تھا۔ خاتون نے کہا”بھائی، میرے ابو کی حالت خراب ہے، کوئی ٹیکسی رکشہ رکنے کیلئے تیار نہیں، آپ میرے والد کو گھر سے اپنی گاڑی میں ہسپتال لے چلیں۔” یہ واقعی مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ اگرمیراشدیدناپسندیدہ شخص بھی مشکل میں ہو تو میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیایہ ٹریپ ہےپھرخود ہی خود کو جواب دیا کہ اگرباپ کی شدید علالت کی آڑ لے کرایک خاتون جال بچھا رہی ہے توکوئی بات نہیں، اگر سچ مچ خاتون کے والد بیمار ہوئے اور انہیں بروقت طبی امداد نہ مل سکی تومیں خود کومعاف نہیں کرسکوں گا۔اگر میں ایک خاتون اور دومردوں کے ساتھ نہ جاسکا تو ساری زندگی خود سے پوچھتا رہوں گا کہ کیا تمہاری بزدلی سے ایک جان چلی گئی اوریوں خود کومعاف نہیں کرسکوں گا۔
میں گار کو گھماکر سامنے والی روڈ پر آگئی۔ یہی راستہ اندراندر سے کھجی گراؤنڈ جاتاتھا جہاں چند روز پہلے آپریشن ہوا تھا اور بہت سے لڑکے پکڑے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق کھجی گراؤنڈ میں اپنی ہی زبان والے مخالف گروپ کے نوجوانوں کو اغوا کرکے لایا جاتا تھا، پھرانہیں گول پوسٹ تک دوڑنے کیلئے کہا جاتا تو گول پوسٹ کے قریب پہنچنے پر ایک ایک کرکے گولیوں سے بُھون دیاجاتا۔ میرے وجود میں ایک شدید سرد سی لہر دوڑ رہی تھی۔ ایک گلی کے بعددوسری، دوسری کے بعد تیسری، پھر چوتھی اور یوں کئی گلیوں سے آڑے ترچھے مڑتے ہم ایک گھر کے سامنے جاپہنچے اور مجھے گاڑی روکنے کو کہا گیا۔میں نے اُلٹی گنتی گننا شروع کردی، میں اپنے بچوں کی شکلیں یاد کرنے لگا، ایسے میں میں نے دیکھا کہ ایک کمزور ، نحیف ونزار شخص کو لایا جا رہا ہے،انہیں بڑی مشکل سےاٹھا کر اگلی سیٹ پربٹھایا گیا، پھروہ خاتون اور ان کے دونوں بھائی پیچھے بیٹھ گئے۔ مجھے وہ واپسی کا راستہ بتانے لگے، پھر ہم لسبیلہ پُل سے پہلے روڈ پر آکر اُلٹے ہاتھ پر مُڑگئے اور گولیمار چورنگی پر واقع امام زین العابدین اسپتال پہنچ گئے۔ بزرگ کوگاڑی دے اتار کر اسٹریچر پر لٹایا گیا،اگلے روز دن کے وقت دوبجے اسپتال میں مریض کا نام پوچھ کر ان کی خیریت دریافت کی تومعلوم ہواکہ وہ خطرے سے باہر ہیں اور چندروز میں گھرچلے جائیں گے۔ میں خوش تو ہوا مگراب بھی خود سے پوچھتا ہوں کہ اس قدرخطرناک ماحول میں میرامریض کیلئے گاڑی گلیوں میں لے جانا سچ مچ بزدلی تھی یا بہادری کا ڈھونگ تھا۔
یہ مفروضہ نہیں واقعی سچا واقعہ ہے باکل ایسا ہی ہواتھا اور بالکل میں اب بھی خود سے یہی سوال کرتا ہوں۔

اے وی پڑھو:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author