مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان منظرنامہ، ’’ردعمل کی دنیا‘‘(4)||حیدر جاوید سید

ہمارے پڑوس کے ملک افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے۔ یہ اصل میں ہے تو ایک ہی سوال لیکن ہم اسے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے دو حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے پڑوس کے ملک افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے۔ یہ اصل میں ہے تو ایک ہی سوال لیکن ہم اسے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے دو حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں۔
اس سے قبل یہ ضرور جان لیجئے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ اب بھی چند مخصوص ویب سائٹس کی خبروں اور
” فراہم کردہ” کہانیوں سے رزق اٹھارہا ہے۔
افغانستان میں قطعاً ایسی صورتحال بھی نہیں کہ سب کچھ تلپٹ ہونے کو ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ گزشتہ تین دنوں کے دوران افغان آرمی نے صوبہ پکتیا کے تین اضلاع سمیت مختلف صوبوں کے 16 اضلاع کا قبضہ طالبان سے واپس حاصل کیا ہے۔ اس جنگ میں مقامی آبادیوں نے جس طرح اپنی فوج کی مدد کی وہ طالبان اور ان کے ہم خیالوں کے لئے حیران کن تو ہے ہی کچھ کو تو اس صورتحال نے صدمے سے دوچار کردیا ہے۔
گزشتہ چند روز کے دوران جس طرح طالبان کے خلاف مزاحمتی تحریک کی گونج ہرات سے پکتیا تک سنائی دی وہ خود طالبان کے لئے بھی حیران کن ہے۔ وہ بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ 1996ء نہیں بلکہ 2021ء ہے۔ کابل تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔
میرے لئے حیرانی کی دو باتیں ہیں اولاً یہ کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ ہم طالبان سے اپیل کریں گے کہ وہ کابل پر قبضہ نہ کریں ثانیاً ہمارے ذرائع ابلاغ پر زمینی حقائق سے منافی خبروں، تجزیوں اور تحریروں کی بھرمار اس کے ساتھ طالبان کے حق میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم۔
وزیراعظم نے کن اطلاعات کو جواز بناکر بیان دے ڈالا کہ طالبان کو کہیں گے وہ کابل پر قبضہ نہ کریں؟
کیا انہیں کسی نے بریف نہیں کیا کہ گزشتہ تین دنوں میں لگ بھگ 16 اضلاع طالبان کے ہاتھوں سے نکل گئے اور ان کے خلاف مزاحمتی تحریک کی گونج نے ہزاروں افغانوں کو گھروں سے باہر نکل کر اعلان جنگ پر مجبور کیا۔
غور طلب بات یہی ہے کہ اگر یہ سب کچھ آسان ہے تو پھر طالبان کے ترجمان مرچیں کیوں چبارہے ہیں ان سطور کے لکھے جانے سے کچھ دیر قبل طالبان کے ایک ترجمان کی ویڈیو منظرعام پر آئی ہے وہ مزاحمت کا اعلان کرنے کے والوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کابل ایئرپورٹ کے معاملے پر ترک صدر طیب اردگان کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کی۔
ہونے یہ جارہاہے کہ ماضی کے مقابلہ میں طالبان کے خلاف مزاحمتی عنصر زیادہ اور قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے طالبان کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیا اور فوج سے اپیل کی کہ وہ طالبان کا ساتھ دے۔
پی ٹی آئی کے پس منظر کے حوالے سے یہ باتیں کچھ زیادہ غلط بھی نہیں۔ جناب وزیراعظم ماضی میں پاکستانی طالبان کی طرف سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ ٹی ٹی پی کو دفتر اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے بھی حامی رہے لیکن اب وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں ان کی جماعت کے لوگوں کو کسی بھی حساس موضوع پر بات کرتے ہوئے 100بار سوچنا چاہیے۔
ہمارے وہ دوست جو افغانوں کی کج ادائیوں کی تاریخ لکھنے میں مصروف ہیں کسی دن اس قوم کو یہ بھی بتادیں کہ افغان پالیسی کے چاروں مراحل (ان مراحل کی نشاندہی گزشتہ کالموں میں کرچکا) میں کتنے عزت مآب ککھ پتی سے ارب پتی ہوئے اور یہ کہ وہ کون صاحب تھے جنہوں نے افغانستان کو تحریری طور پر پانچواں صوبہ بنانے کی تجویز جنرل ضیاء الحق کو بھجوائی تھی؟ وہی صاحب تھے جنہوں نے جلال آباد فتح کرنے کا منصوبہ پیش کیا اس منصوبے پر عمل کے دوران کیا ہوا؟
منہ کی کھانی پڑی۔
کیا ہم یہ حقیقت فراموش کردیں کہ پاکستانی ٹی ٹی پی سمیت دوسری عسکریت پسند تنظیموں کے لئے تربیت و سہولت کاری کرنے والے9/11 کے بعد امریکی حملوں میں راتوں رات کابل سے کیوں بھاگے اور بھاگتے ہوئے شہر کی حفاظت پر کس کو مامور کرکے گئے ان سوالوں کے جواب ایسا راز نہیں کہ سامنے آئے تو مسائل پیدا ہوں گے۔
جس بات کو ہمارے یہاں نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں آج شرح خواندگی 1996ء کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے افغانوں کی نئی نسل ہمارے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کو واچ کررہی ہے ان میں یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ افغان عمل کے حوالے سے طالبان نے عدم اخلاص کا جو مظاہرہ کیا اس کی وجہ ان کے سرپرست ہیں۔ وہ تو سرپرستوں کا کھل کر نام لیتے ہیں۔
طالبان کی چھوٹی چھوٹی خبروں کو ہیڈ لائن میں سجابناکر پیش کرنے والے ذرائع ابلاغ نے پچھلے چند دنوں میں افغانستان بھر میں طالبان کے خلاف مسلح مظاہروں اور پرامن جلسوں، ان میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی، کیوں نظرانداز کیا؟
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت کے لاکھ دعووں کے باوجود طالبانائزیشن کے حوالے سے ہمارا ماضی آج بھی ہمیں مجرم بناکر پیش کررہا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
وزیراعظم کہتے ہیں کہ اگر خانہ جنگی ہوئی تو ہم بارڈر بند کردیں گے۔ سوال یہ ہے کہ خانہ جنگی کے جنون کا شکار لوگوں سے صاف کیوں نہیں کہا جاتا کہ افغان عوام کے حق اقتدار کی پامالی ناقابل برداشت ہے۔
ثانیاً یہ کہ حکومت نے ان تنظیموں اور مراکز کے خلاف اب تک کیا کارروائی کی جو افغانستان میں پھر جہاد شروع ہورہا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں۔
مکرر عرض کردوں، امریکی انتظامیہ نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو دورہ امریکہ کے دوران یقین دلایا ہے کہ امریکہ افغان عمل کی خلاف ورزی پر طالبان کے خلاف کارروائی کرے گا۔
مطلب صاف ہے پچھلے ایک ماہ سے طالبان کے غبارے میں ہوا بھرنے والوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اس کھیل میں ایک کردار ہیں، کہانی نویس یا ہدایتکار ہرگز نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: