اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشلزم کہلاتی محبت کے نام….(4)||ملک رزاق شاہد

سی آر اسلم محنت کرنے والوں کی تحریک کے ستر برسوں کی تاریخ کا نام ہے۔ یہ نام اس پورے دور کا گواہ ہے جب ہم انگریز کے غلام تھے، پھر فیوڈلزم اور بوناپارٹزم کا شکار بھی.

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سی آر اسلم۔۔۔۔۔
یہ نام ہی ہمارے خطے کی نظریاتی تاریخ کا مین گیٹ ہے۔
سی آر اسلم محنت کرنے والوں کی تحریک کے ستر برسوں کی تاریخ کا نام ہے۔ یہ نام اس پورے دور کا گواہ ہے جب ہم انگریز کے غلام تھے، پھر فیوڈلزم اور بوناپارٹزم کا شکار بھی.
اسی دوران دو عالمی جنگیں ہوئیں، ان جنگوں میں روس اور اس کے بعد بیس دیگر ممالک سوشلسٹ ہوگئے۔
تقسیم ہند ہوئی، میکارتھی ازم آیا اور سیٹو سینٹو کی ذہنیت معاشرے کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔
جب ہم سی آر اسلم کی کہانی کے ورق الٹتے ہیں تو یہ نہ صرف پاکستانی محنت کشوں کی تاریخ ہے بلکہ افغانستان، ایران، یورپ، اور ہندوستان کی انقلابی تحریکوں سے وابستہ تاریخ بھی ہے۔ طویل عمری اور ایک استقامت بھری جدوجہد دو بڑی نعمتیں ہیں جو سی آر اسلم کو حاصل رہیں۔ زود فہمی کی بے کراں صلاحیت اس کے علاوہ تھی ۔ منکسرالمزاجی اور رفاقت نبھائے رکھنے کی خصلت اسے دلوں میں جگہ پانے کی نعمت عطا کرتی رہی ۔ عجز اور خیرخواہی سوشلزم کے ساتھ اس کی وابستگی کو استقامت دینے کی ضامن بن گئیں ۔
اس پورے خطے میں بالعموم اور بالخصوص پاکستان کی آج تک کی سوشلسٹ تحریک کے ہر موڑ پر
سی آر اسلم کی باغبانی والے نشان موحود ہیں”
طاغوتی طاقتوں کے خنام کا احوال شاہ محمد یوں سناتے ہیں
” سی آر اسلم کا وطن افغانستان کے ساتھ بچوں کا کھیل کھیلتے کھیلتے بالآخر خود بچوں کے غیض و غضب کا شکار ہوگیا۔ کھیل کھیل میں 70 ہزار افراد کی جانیں گنوائیں، علاقے برباد ہوئے،آئی ڈی پیز اور Rehabilitation جیسے نئے نئے الفاظ اپنے عقب میں دہشت ناک ابواب لئے ہماری ڈکشنریوں میں در آئے۔ گڈ اور بیڈ،
سیف ہیونز، اور ڈو مور جیسے الم غلم آتے گئے۔ مست و مولائی حکمرانوں کو ہوش اس وقت آیا جب ان کے اپنے بچے شناخت کر کر کے APS میں قتل عام کا شکار ہوئے۔ خانہ جنگی گلیوں محلوں سے ہوتے ہوئے دفتروں ، ائیربیسوں تک پہنچی”
سی آر اسلم ……
"سی” چوہدری،
"آر” رحمت اللہ،
اسلم تخلص ٹھہرا….
مری صاحب، آگے لکھتے ہیں
"سی آر اسلم نے ایک زمانے میں شاعری شروع کی تھی۔ اردو شاعری کے لئے تخلص اس قدر ضروری ہوتا ہے جس قدر کے درہ بولان میں ٹرک کے ساتھ کلینر ضروری ہوتا ہے۔ سی آر چونکہ عمر بھر غالب کا دلدادہ رہا اسی لئے وہ غالب کے وزن پہ تخلص رکھنا چاہتا تھا چنانچہ اسی وزن پے دو سلیبل والا ”اسلم” تخلص رکھا یوں وہ سی آر اسلم۔۔۔۔۔۔ بنا، شاعری میں شہرت تو ہم نے نہ دیکھی البتہ نام اس کا پکا ہوا (شاعری مارکس نے بھی کی تھی ماؤزے تنگ نے بھی اور انکل ہوچی من نے بھی ) مشہور ہوا”
ڈاکٹر مری کی ایک اور کتاب دیکھتے ہیں
"منتخب سوویت ادب”
یہ کتاب پہلی مرتبہ دو ہزار چھے میں چھپی اس کا دوسرا ایڈیشن دو ہزار اکیس میں سامنے آیا. کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر شاہ محمد مری لکھتے ہیں
"1987 میں اس کتاب کا ترجمہ شروع ہوا تھا اور 19 برس بعد اسے پہلی بار قارئین تک پہنچنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی.
اس طویل عرصے میں دنیا اتھل پتھل ہوگئی تھی۔ سماجی برابری کا ہیڈکوارٹر مسمار ہوگیا، مساوات کے داعی کی لاش کابل کے چوک پہ بے حرمتی میں لٹکتی رہی، انسانی شرافت ڈالر کے حوالے ہوگئی اور انقلاب کا ہمارا ناتواں کارواں مزید کمزور ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے اس دوران سوشلزم پہ ہونے والے ہولناک حملوں نے انسانیت دوستوں کو ادھ موا کر کے رکھ دیا تھا۔ مغربی طاقتور میڈیا، بریکنگ نیوز کے بطور اور ہر روز کسی نہ کسی ملک اور علاقے میں سوشلزم کی پسپائی کی خبریں متزلزل انداز میں پیش کرتا تھا اور میکارتھی پروپیگنڈے کے گیٹ کھل چکے تھے ۔اس عمومی پسپائی میں ممالک کی اندرونی روشن فکر پارٹیاں ، ترقی پسند تنظیمیں اور جمہوری حلقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ شکست خوردگی کی نفسیات سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ باہمی نفاق فتوے بازی اور کیچڑ اچھالی معمول بن گئی تھی ۔
انا تولی لونا چرنسکی،
جان ریڈ،
ولادیمیر بونچ بروئے وچ،
الیگزینڈر اکولنتائی،
میخائل شولوخوف،
الیگزینڈر فادائیف،
وسیولودایوانوف
عبداللّٰہ قہار،
ویرا اِن بر،
کاتائیف،
بورس لاورن یوف،
اے۔ زورچ،
کورنی چوکوفسکی،
کونسانٹینفیڈن،
میکسم گورکی،
یوری جرمن
ویراپانووا
کے یہ مضامین
"عالمی سطح پر سوشلزم کے قیام کی طویل ترین لڑائیوں میں سے محض ایک مد بھیڑ کا رپورتاژ ہیں۔ اسی لیے انہیں اس تسلسل میں پڑھیے ۔
یوٹوپیائی انقلابات کی ہزاروں لاکھوں جنگوں، جھڑپوں کے بعد انقلاب فرانس تک کے دوران انقلابیوں کی بے شمار قتل گاہیں سجی تھی پھر انقلاب فرانس سے لے کر 1903 کے روسی انقلاب تک بھی بے شمار پاک لوگوں نے رزم گاہوں کو بزم گاہوں میں بدل دیا پھر 1917 کے عظیم اکتوبر انقلاب سے لے کر افغان ثور انقلاب تک بھی لاتعداد اور وسیع مزبح خانے بنے اور یہ سلسلہ لوٹ کھسوٹ اور طبقاتی نظام کے آخری پرچم کے سرنگوں ہونے تک جاری رہے گا ۔اکتوبر انقلاب میں البتہ شیطانی قوتوں نے پہلی بار بہت بڑے پیمانے پر رحمانی چیلنج کا مجسم انداز میں مشاہدہ کیا۔”
جاری ہے۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: