اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مخدوم شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس||ظہور دھریجہ

بلوچستان ٹریبونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کے سیکشن 3 کے سب سیکشن (۱) کے تحت جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بھی 25 جون کو ارسال کئے گئے جوڈیشنل کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم صوبے کا وعدہ پورا کریں گے اور یہ صوبہ تعصبات سے پاک ہو گا۔ صوبے کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ تین سال گزر گئے ابھی تک صوبے کے بارے میں کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا جبکہ صوبہ بنانے کیلئے سب سے پہلے صوبہ کمیشن کا قیام ضروری ہوتا ہے۔
 ابھی تک صوبہ کمیشن تو کیا، صوبہ کمیٹی بھی نہیں بنائی گئی۔ وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ جنوبی پنجاب صوبہ تعصبات سے پاک ہو گا تو گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے سے موجود چار صوبے تعصب پر مبنی ہیں حالانکہ پہلے سے موجود صوبے بھی تعصب پر مبنی نہیں بلکہ ثقافتی شناخت کے عین مطابق ہیں۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ملتان میں ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں منعقد کئے گئے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سول سیکرٹریٹ کو خود مختار بنایا جائے گا اور اختیارات کی منتقلی میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی تو گویا وہ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ ابھی تک سیکرٹریٹ خود مختار نہیں بنا اور ایڈیشنل سیکرٹری حضرات کو بھی اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔ اب وزیر خارجہ نے سول سیکرٹریٹ فعال ہونے کی نئی تاریخ اگست بتائی ہے۔
یہ بھی عر ض کرتا چلوں کہ ملتان شہر کے منصوبہ جات سول سیکرٹریٹ، جم خانہ، ڈسٹرکٹ جیل، غلہ منڈی، سبزی منڈی، ٹرک اڈوں کی منتقلی، رنگ روڈ، کیٹل مارکیٹ، کچہری توسیع منصوبہ، سیو سٹی، کارڈیالوجی فیز ٹو، ملتان وہاڑی روڈ، بہاولپور ملتان روڈ، سیداں والا بائی پاس، سی پی او کمپلیکس سمیت درجنوں منصوبے ایسے ہیں جن کیلئے گزشتہ بجٹ میں رقم رکھی گئی مگر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔
وزیر خارجہ نے ترقیاتی اجلاس کے موقع پر یہ بھی کہا کہ وسیب کیلئے الگ مختص کئے گئے 33 فیصد بارش کا پہلا قطرہ ہے حالانکہ وزیر صوبائی خزانہ ہاشم جاں بخت نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا تھا کہ وسیب کیلئے 35 فیصد فنڈ مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کو یاد نہیں رہا یا پھر نیا مالی سال شروع ہونے سے پہلے دو فیصد کا کٹ لگ گیا ہے؟ اس بارے میں وسیب کو ضرور بتایا جائے۔ سول سیکرٹریٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ بھی عجب گورکھ دھندہ ہے۔ حکومت کو اپنی پالیسی واضح کرنی چاہئے کہ ایک صوبہ بنانا ہے یا دو صوبے؟
 اگر صوبہ ایک بننا ہے تو دو سول سیکرٹریٹ بنانے کا کیا مقصد ہے؟ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے دو سول سیکرٹریٹ کو آدھا تیتر آدھا بٹیر خود کہا ،مزید یہ کہ انگریز دور سے یہ ہوتا آرہا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو تو تفریق پیدا کر دی جائے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑا دیا جائے تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں اور صوبے کا کام پیچھے چلا جائے۔ میرا تعلق بہاولپور سے ہے بہاولپور صوبہ بننے سے مجھے خوشی ہوتی مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ بہاولپور صوبہ اس لئے بھی ممکن نہیں کہ صوبہ بننے سے سینیٹ وجود میں آئے گی اور سینیٹ کے 23 ارکان کو منتخب کرنے کیلئے 23 ارکان صوبائی اسمبلی تجویز کنندہ اور 23 تائید کنندہ درکار ہونگے ۔ بہاولپور ڈویژن کے تین اضلاع ہیں ۔
 اس میں سمجھدار آباد کار اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جب تک صوبہ نہیں بنتا مسئلے حل نہیں ہوتے۔ وہ اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ تین اضلاع کا صوبہ ممکن نہیںہے ۔ وہ اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ اگر دو نئے صوبے بنتے ہیں تو سینٹ کا ادارہ غیر متوازن ہو جائے گا اور اس لحاظ سے سرائیکی وسیب کے لوگ سینٹ میں ڈبل ہونگے ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ اپنی سنگل حیثیت کسی بھی لحاظ سے قبول نہیں کریں گے۔۔
مخدوم احمد محمود جو بہاولپور صوبے کو لیڈ کر رہے تھے، اب بہاولپور صوبے سے دستبردار ہو گئے ہیں ، تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے جب صوبہ کمیشن بنایا اور پنجاب اسمبلی کی دو صوبوں کی قرارداد پر ورک شروع کیا تو دوسرے صوبے نہ مانے اور ان کو ایک صوبے پر آنا پڑا ۔ میں ایک بات اور کرنا چاہتا ہوں کہ بہاولپور ڈویژن کو ہیڈ سدھنائی اور ہیڈ پنجند سے سیراب کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں ہیڈ ورکس بہاولپور ڈویژن کی حدود سے باہر ہیں ۔ محمد علی درانی کا یہ کہنا کہ بہاولپور صوبہ رہا ہے اور ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ صوبہ بحال ہو سکتا ہے ، یہ بات بذاتِ خود سراسر جھوٹ ہے ، آئین میںایگزیکٹو آرڈر کی گنجائش نہیں ۔البتہ جب پرویز مشرف مارشل لاء کے بعد چیف ایگزیکٹو بنے تو وہ ایسا کر سکتے تھے۔
محمد علی درانی ناکام ہو کر چلے گئے اب طارق بشیر چیمہ کو بھی وسیب کے اتحاد کیلئے کام کرنا چاہئے اس میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔ آخر میں ایک اور بات کہ حکومت بلوچستان نے پشتون قوم پرست رہنما عثمان خان کاکڑ کی موت کی انکوائری عدالتی کمیشن سے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے بلوچستان کے ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ عثمان کاکڑ کے خاندان کا کہنا ہے کہ موت طبعی نہیں اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ حکومت بلوچستان کا فیصلہ بروقت اور درست ہے کہ 23 جون 2021ء کو عثمان خان کاکڑ کی وفات نے پورے ملک کو متاثر کیا۔
بلوچستان ٹریبونل آف انکوائری آرڈیننس 1969 کے سیکشن 3 کے سب سیکشن (۱) کے تحت جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بھی 25 جون کو ارسال کئے گئے جوڈیشنل کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی اور قائد ایوان شہزاد وسیم نے بھی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: