نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کے سیاسی اکھاڑے||رسول بخش رئیس

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت بشمول تحریکِ انصاف بڑے سیاسی اکھاڑوں کی طرف کیوں دیکھتی ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ لوگ یہ دیکھ کر ووٹ دینے کے بجائے کہ آنے والی حکومت کون کون سی جماعتیں مل کر بنائیں گی‘ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائے عامہ کے لحاظ سے اگر کہیں کوئی تبدیلی آئی ہے تو خیبر پختونخوا میں۔ مسلسل دو انتخابات میں وہاں کے عوام نے روایتی اور موروثی سیاسی جماعتوں کو شکست دی۔ منتخب ہونے والے سارے کے سارے نئے کھلاڑی تو نہیں تھے‘ مگر نوجوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد پہلی بار تحریکِ انصاف کے زور پر ابھر کر سامنے آئی۔ ایسا اس صوبے میں کیوں ہوا‘ اور پنجاب میں‘ جسے عام طور پر سیاسی شعور کے اعتبار سے کچھ درجے دوسروں سے آگے سمجھا جاتا ہے‘ کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں کیوں نہ آئی؟ میں بات دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی کر رہا ہوں۔ خان صاحب نے الزام لگایا کہ ”پنکچر‘‘ لگائے گئے۔ بیلٹ باکس کھلوانا چاہتے تھے۔ مطالبات نہ مانے گئے تو کئی ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ گزشتہ انتخابات کی نسبت تحریکِ انصاف کے ووٹوں میں بے پناہ اضافہ تو ہوا تھا‘ مگر مطلوبہ تعداد میں امیدوار کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پانسہ تو عمران خان صاحب کی جانب پلٹا‘ مجموعی ووٹوں کی تعداد حریف جماعتوں سے زیادہ تھی‘ اور مانگے تانگے سے حکومت بھی پنجاب میں بن گئی‘ مگر خیبر پختونخوا کے برابر تبدیلی نہ آ سکی۔ اس کا ادراک خان صاحب کو تھا‘ اور پارٹی کے اندر مشاورت اور کچھ گہرے تجزیے پنجاب کی صورتحال کے بارے میں کئے گئے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مضبوط اور موروثی سیاسی خاندانوں کے بغیر اقتدار کا حصول ناممکن ہوگا۔ میرے خیال میں انہیں اس جلد بازی کی ضرورت نہیں تھی۔ حزبِ اختلاف میں رہتے‘ تحریک جاری رکھتے تو زمینی سطح پر پنجاب میں تبدیلی آسکتی تھی۔ ایسا ہونے سے وہ اپنی مرضی کے اور نظریاتی طور پر پختہ امیدواروں کو آگے لانے میں کامیاب ہو جاتے۔ بہرحال سیاست کے بارے میں حتمی طور پر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے آخرکار وہی کیا جو ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد کیا‘ یا اس سے پہلے صدر ایوب خان کرچکے تھے۔ پنجاب کے سرکردہ سیاسی خاندانوں کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کردیا۔ اس مہم میں بھی جزوی کامیابی ہوئی۔ ان خاندانوں کا بہت بڑا حصہ مسلم لیگ نون میں ہی رہا۔ اس پارٹی سے بہت کم لوگ نکل کر تحریک کی صفوں میں شامل ہوئے۔ زیادہ تعداد پاکستان پیپلز پارٹی سے آئی‘ یا وہ تھے جن کیلئے لیگ میں اب گنجائش نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ سیاسی خاندانوں پر دبائو تھاکہ وہ تحریک میں شامل ہوں۔ نون لیگ تو یہ الزام تواتر سے دھراتی رہی ہے۔ میرے نزدیک جو لوگ تحریک میں شامل ہوئے‘ انہوں نے ہوا کا رخ تبدیل ہوتے دیکھ کر ہی یہ قدم اٹھایا تھا۔ پنجاب کے اکثر سیاسی خاندانوں کی تاریخ کچھ ایسی ہی ہے۔ یہاں نظریات نہیں‘ ذاتی مفادات کی بنیاد پر پارٹیوں میں شمولیت یا علیحدگی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ابھرنے سے امید کی کرن جگمگائی تھی کہ عوام میں بیداری کی لہر زور پکڑے گی اور وہ اپنے حلقوں میں غالب سیاسی شخصیتوں کے سحر سے آزاد ہوکر فیصلے کریں گے۔ جب خان صاحب نے ہی ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تو عوام اپنے حلقوں کے وڈیروں‘ سرداروں اور چودھریوں کے خلاف کیسے بغاوت کر سکتے تھے؟ بلکہ ابھرتے ہوئے قومی لیڈر نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا‘ ڈیروں پر جاکر دعوتیں کھائیں‘ ان کے انتظام کردہ جلسوں میں لوگوں سے خطاب کیا‘ تو موروثی‘ سیاسی وڈیروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت بشمول تحریکِ انصاف بڑے سیاسی اکھاڑوں کی طرف کیوں دیکھتی ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ لوگ یہ دیکھ کر ووٹ دینے کے بجائے کہ آنے والی حکومت کون کون سی جماعتیں مل کر بنائیں گی‘ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ جواب سب کو معلوم ہے۔ ہر حلقے میں قائم سیاسی اکھاڑے بڑے مضبوط ہیں۔ زر‘ زمین‘ سماجی اثرورسوخ اور سرپرستی کی سیاست کا غلبہ ہے۔ حلقے میں لوگوں کو سرپرستی کا چھاتا مہیا کرنے کیلئے پنجاب کی حکومت میں حصہ ہونا ضروری ہے‘ ورنہ ضلع کی انتظامیہ ہو یا وفاقی حکومت کا کوئی محکمہ عزت و احترام سے ٹرخا دیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سرکاری دفاتر خصوصاً پولیس‘ پٹوار اور نظامِ عدل میں عوام کی رسائی براہ راست ابھی تک نہیں ہو سکی۔ کچھ عادت اور کچھ روایت بھی ہے کہ بغیر سہارے اور سفارش کے وہ دھکے کھاتے رہیں گے۔ یہ صرف پنجاب کی بات نہیں‘ پاکستان میں کہیں بھی‘ کسی بھی سیاسی خاندان کے ڈیرے پہ جائیں‘ ایک دربار کا سا سماں ہوگا۔ سوالی صبح سویرے آ پہنچتے ہیں‘ شام تک تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کا مزاج بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ من پسند وڈیروں کا تعین ”مشکل حالات‘‘ میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے کرتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی ہر جائزو ناجائز بات میں وڈیروں کی مدد طلب کرتے ہیں۔ اہلیت‘ نظریات‘ کارکردگی یا دیانت جیسی خصوصیات کی عام آدمی کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ جب کسی کو چوری میں پکڑا گیا تھا‘ سیاسی نمائندے نے اس کو چھڑانے کی کوشش کی تھی یا نہیں؟
ہمارے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد ہی انگریزی دور سے سرپرستی پر چلی آرہی ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں ریاست کا کردار یورپ کی طرح آزادانہ نہ تھا۔ یہ تو ایک آلہ تھاکہ چند سو گوروں نے ملکوں‘ نوابوں‘ سرداروں اور مخدوموں کی مدد سے امن و امان کیسے قائم رکھنا ہے۔ ان کے وقار‘ اختیارات اور طاقت میں وزن زمینداری اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ اثرورسوخ پیدا کرکے ڈالا گیا تھا۔ تب یہ خاندان محدود تھے‘ اب حلقوں کے پھیلائو کے ساتھ بڑھ چکے ہیں‘ لیکن انداز نہیں بدلے۔ پارلیمانی نظام کا انتخاب ہی وڈیروں نے اس لئے کیاکہ صوبائی اور وفاقی انتظامیہ پہ اثر رہے کہ ان کی اکثریت اور تائید کے بغیر تشکیل ہی ناممکن ہوگی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پنجاب کے بااثر لوگ ہوں یا کسی اور صوبے کے‘ اپنی پسند کے ضلعی افسر تعینات کراتے ہیں۔ ریاستی سرپرستی کا ایک اور ذریعہ زیادہ حصول اور عام ترقیاتی فنڈ کی فراہمی ہے۔ خان صاحب تو نظریاتی طورپر اس کے خلاف تھے‘ مگر پنجاب میں مقابلہ سخت ہونے کی صورت میں اب سارے بند ٹوٹ چکے ہیں۔ دھڑادھڑ کروڑوں‘ اربوں میں ”نظریاتی فنڈز ‘‘ تقسیم ہورہے ہیں۔ اس طرح تحریک سے وابستہ امیدواروں کے اکھاڑے مضبوط ہوں گے۔ جیبیں بھی کچھ گرم کریں گے اور ویسے بھی بہتوں کا بھلا ہو گا۔
جونہی آنے والے مہینوں میں اگلے انتخابات کا غوغا اٹھے گا‘ دھڑے بندیوں کی تشکیلِ نو ہو گی۔ روایتی سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان ہوا کا رخ دیکھیں گے۔ ‘کون بنے کا اگلا وزیر اعظم ؟‘ اس دائمی سوال کا اپنے اپنے تجربے اور تجزیے کے مطابق جواب تلاش کریں گے اور اس سے سیاسی راہیں متعین ہوں گی۔ دیکھا نہیں‘ تحریک کے اندر سے ہی ایک دھڑے نے دانت دکھائے‘ دھمکیاں دیں‘ اور پھر ”انصاف‘‘ ملنا بھی شروع ہو گیا‘ تبادلے ہوئے تو خاموشی سادھ لی۔ ‘بلیک میل‘ اس مرکب کی اردو تلاش کرنے کی کوشش کی تو لکھا تھا ”افشائے راز کی دھمکی‘‘۔ جب تک پنجاب کے سیاسی اکھاڑوں کیلئے صوبائی اور قومی آب و ہوا سازگار رہے گی‘ قائم رہیں گے۔ تین عنصر ایسے ہیں جو زمینی سطح پر جوہری تبدیلی عوام کی رائے میں لاسکتے ہیں۔ ان میں شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی‘ متوسط طبقے کی تعداد میں تواتر سے اضافہ‘ اور انتخابات کا تسلسل۔ عوام دیہات میں مجبور ہوسکتے ہیں‘ لیکن بیوقوف نہیں‘ جانتے ہیں مفاد کہاں ہے۔ اپنی ہی تاریخ میں دیکھا ہے۔ بہتر متبادل سامنے آیا تو وڈیرے کے خلاف بغاوت میں دیر نہ لگائی۔ کارکردگی‘ اصلاحات جن کا وعدہ تھا‘ معاشی بڑھوتری‘ کپتان کو حلقوں کے عوام سے جوڑ سکتی ہے‘ ورنہ طاقت اکھاڑوں کے کھلاڑیوں کے پاس رہے گی اور وہ ان کے محتاج‘ ایسے میں تبدیلی ایک سراب ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author