اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جو عورت کفن پہن کر بھی محفوظ نہیں، اسے اب کون سے کپڑے پہنائیں؟||محمد حنیف

اب خان صاحب کے عاشق بہت باریکیاں نکال نکال کر ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ خان صاحب کا یہ مطلب نہیں تھا۔ انہوں نے الزام عورتوں کو نہیں دیا۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب کبھی کبھی بڑے دعوے کرتے ہیں۔ کبھی کبھِی دعوے کر کے مکر بھی جاتے ہیں۔ لیکن ایک دعوی ان کا ایسا ہے جس پر پوری قوم کو اعتبار ہے۔ وہ ہمیشہ سے فرماتے آئے ہیں کہ مغرب کو، یعنی کہ ویسٹ کو، یعنی کہ گوروں کو، مجھ سے زیادہ کوئی نہیں سمجھتا۔

قوم اس لیے مان لیتی ہے کہ خان صاحب چھوٹی عمر میں ہی ولایت چلے گئے تھے۔ بلکہ ہمیں تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ملکہ برطانیہ کوئین ایلزبتھ نے گود میں بٹھا کر انہیں کھلایا ہے، پھر ان کی پرورش بھی لندن میں شہزادوں کی طرح ہی ہوئی ہے۔ ولائتی شہزادوں کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ انہیں کبھی اپنا خرچہ آپ نہیں اٹھانا پڑتا، بلکہ انہیں کبھی جیب میں ہاتھ ہی نہیں ڈالنا پڑتا۔

پھر خان صاحب کی پہلی شادی بھی وہاں امیر گوروں میں ہوئی ہے۔ اللہ ان کے بچوں کو زندگی دے، ان کے لڑکے بھی اب وہیں رہتے اور پڑھتے ہیں۔

اب پاکستان کے لڑکوں کو، مردوں کو، سب کو پتہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ دوبارہ پیدا ہو کر بھی آ جائیں تو عمران خان نہیں بن سکتے۔ اور وہ عمران خان کی زندگی سے، جو کچھ وہ کہتے ہیں، سیکھتے رہتے ہیں۔ وہ بڑے خوش ہوتے ہیں جب خان صاحب اپنی گاڑھی انگریزی میں کسی گورے کو جٹکی باتیں سمجھاتے ہیں۔

انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ بھئی پاکستان میں ریپ کے کیس بہت بڑھ گئے ہیں، خان صاحب نے فرمایا، عورتیں کم کپڑے پہنیں گی تو مرد اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کر سکتا، بھئی وہ آخر انسان ہے روبوٹ تو نہیں۔

اب خان صاحب کے عاشق بہت باریکیاں نکال نکال کر ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ خان صاحب کا یہ مطلب نہیں تھا۔ انہوں نے الزام عورتوں کو نہیں دیا۔

میں نے بھی خان صاحب کی بات کو گھما پھرا کر دیکھا ہے لیکن سمجھ یہ آئی ہے کہ سر نیچے کر کے اگر ٹانگیں آسمان کی طرف بھی کر لیں تو خان صاحب کی بات کا ایک ہی مطلب ہے کہ مرد اپنی مردانگی کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے، اگر عورتیں کم کپڑے پہنیں گی تو ان کے ساتھ زیادتی ہو گی ہی ہو گی۔

پاکستان کی عورتیں اب چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ میری عمر چار سال تھی، اور میں نے شلوار قمیض پہنی تھی۔ میری عمر آٹھ سال تھی اور میں نے سر پر دوپٹہ بھی لیا تھا۔ میں چالیس برس کی تھی اور سر پر پوری چادر بھی لی تھی۔

ایک بچی نے مجھے یہ بھِی بتایا کہ وہ عمرے پر گئی تھی، احرام پہنا ہوا تھا، خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی، تو ادھر بھی کسی مرد کی مردانگی کنٹرول میں نہ رہی۔

ریپ پاکستان میں ایک بہت خطرناک مسئلہ ہے۔ سال میں ہزاروں عورتیں، بچیاں اور بچے بھی ریپ ہوتے ہیں۔ خان صاحب آپ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ کیس جو رپورٹ ہوتے ہیں یہ اصل کا بہت بھی ہو تو ایک فیصد سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ زیادہ تر ریپ گھروں میں ہی ہوتے ہیں، محلوں میں ہوتے ہیں، اب ماموں، چچا، رشتے دار، استاد، قاری کو لوگ کیس نہیں کرتے۔

خان صاحب کو اس کا احساس بھی رہا ہے۔ ایک مرتبہ فرمایا ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ جس پر ریپ کا جرم ثابت ہو جائے اسے ٹیکا لگا کر خصی کر دیا جائے۔ ادھر بھی ان کو نظر یہی آیا کہ مرد کا کوئی کنٹرول خود پر ہو نہیں سکتا، اور اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس کے نفس کو ختم کر دیا جائے۔

لیکن اب جو انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ مرد کوئی روبوٹ تو نہیں، تو یہ کہہ کر انہوں نے ہمارے مردوں کو مردانگی کا ایک ٹیکا سا لگا دیا ہے۔ کتنوں کو ہلاشیری ملی ہو گی کہ دیکھو ہمارا وزیر اعظم، ہمارا بڑا خان، آپ فرما رہا ہے کہ مرد تو ہے ہی وہ جو عورت کو دیکھے اور قابو سے باہر ہو جائے۔

خان صاحب اگر مغرب کو سب سے بہتر جانتے ہیں تو ہم تھوڑا بہت اس ملک کو بھی جانتے ہیں۔ زیادہ تر مرد، اور ہر عمر کے مرد، بابے بھی، لڑکے بھی، داڑھی والے دین دار بھی، اور شرابی کبابی لبرل بھی، گندے دماغ اور خراب نیتیں لے کر چوبیس گھنٹے لے کر پھرتے ہیں۔ اس سے آگے اس لیے نہیں جاتے کہ زنانی تھپڑ نہ مار دے، شور نہ مچا دے، محلے والے نہ آ جائیں، پولیس نہ بلا لیں۔

ان مردوں کو ڈرانے کے لیے خان صاحب نے کوئی بات نہیں کی بلکہ ان کا حوصلہ بڑھایا ہی ہے۔ اوپر سے خان صاحب کو کم کپڑوں والی عورتیں پاکستان میں نہ جانے کہاں دکھائی دے جاتی ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی عورتوں نے گھر سے مزدوری کرنے بھی نکلنا ہو تو بھری دوپہر کی گرمی میں بھی کالا برقع پہن کر، اپنے آپ کو چادر میں لپیٹ کر نکلتی ہیں کہ کہیں کسی کی مردانگی چیلنج نہ ہو جائے۔

خان صاحب کے دشمن بھی تگڑے ہیں۔ کہتے ہیں کہ چونکہ خان صاحب نے جوانی ولایت کے کلبوں میں گزاری ہے اور ان کو اس پردے دار ملک میں بھی یہی لگتا ہے جیسے کسی ڈسکو میں بیٹھے ہوں۔ ثبوت کے طور پر وہ خان صاحب کی پرانی تصویریں دکھا دیتے ہیں جن میں خان صاحب کبھِی بو ٹائی والا سوٹ پہن کر، تو کبھی سوٹ اتار کر صرف کچھا پہن کر گوریوں کو ایمان کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔

خان صاحب کھلے ڈلے آدمی ہیں، آپ مانتے ہیں کہ پہلے میں بدمعاش ہوتا تھا اور اب مجھ سے بڑا شریف کوئی نہیں۔ خان صاحب مغرب کو اندر باہر سے جانتے ہوں گے لیکن ان کا راج مشرق کے ایک ملک پر ہے جس کا نام ہے پاکستان۔ وہ کبھی ادھر بھی نظر مار لیا کریں۔

خان صاحب کا ایک اور دعوی ہے جس پر مجھے پورا یقین ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے فرمایا تھا کہ بھئی سکون تو ہمیں صرف قبر میں جا کر ہی ملے گا۔ لیکن پاکستانی عورتوں کے مقدر میں وہاں بھی کوئی سکون نہیں۔ ہر سال دو سال بعد کسی مری ہوئی کو قبر سے نکال کر مرد اسے بھی اپنی مردانگی دکھا دیتے ہیں۔

عورت زندگی میں جیسے کپڑے بھی پہنتی ہو، مرنے کے بعد اسے ہم کفن پہنا کر ہی دفناتے ہیں۔ خان صاحب اب آپ ہی بتائیں کہ جو عورت کفن پہن کر بھی محفوظ نہیں، اسے اب کون سے کپڑے پہنائیں؟
بی بی سی پنجابی سے ترجمہ

بی بی سی پنجابی کے وی لاگ کا ترجمہ

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: