حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کے ارکان لگ بھگ چنددنوں سے اسمبلی کے احاطے کے اندر احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے تھے۔ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کے فعال کارکنان بھی اپنے ارکان اسمبلی کے ہمراہ یکجہتی کے اظہار کے لئے احاطہ میں موجود تھے۔ اپوزیشن کا موقف تھا وزیراعلیٰ جام کمال صوبے کی تاریخ کے سب سے کرپٹ وزیراعلیٰ ہیں
ثانیاً یہ کہ انہوں نے پچھلے تین سالوں سے جان بوجھ کر اپوزیشن ارکان کے حلقہ ہائے انتخاب کے لئے ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے اس بار بھی بجٹ میں ان اضلاع کو یکسر نظرانداز کیا گیا جہاں سے اپوزیشن ارکان جیت کر آئے ہیں۔
متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی کے احاطہ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا اور پھر دھرنا شروع ہوگیا۔ وزیراعلیٰ یا کسی وزیر نے ان سے پچھلے چار دنوں میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس دوران ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور پولیس کے ایک دو افسران نے دھرنا دینے والوں سے بات چیت کی جو ظاہر ہے نمائشی تھی۔
سنجیدگی ہوتی تو وزیراعلیٰ خود نہ سہی تو وزراء کی ایک کمیٹی بنادیتے جو مذاکرات کرتی۔
عمومی رائے یہ ہے کہ جام کمال اس مزاج کے شخص نہیں ہیں وہ حاکمانہ مزاج کے حامل ہیں۔ اطاعت و وفاداری کو پسند کرتے ہیں۔ اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی سے تعبیر فرماتے ہیں اسی لئے جو معاملان ایوان کے اندر طے ہوسکتے تھے ان پر ایوان کے باہر احتجاج کا ڈول ڈالا گیا۔
اس دھرنے کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں گزشتہ چند دنوں سے گرماگرمی تھی۔ جمعرات کی شام وزیراعلیٰ نے صوبائی وزیر داخلہ اور کوئٹہ کی انتظامیہ کو طلب کیا اور انہیں حکم سنایا کہ کل بروز جمعہ بجٹ اجلاس سے قبل اسمبلی کا احاطہ کلیئر کروایا جائے۔
اس کے بعد کیاہوا یہ ٹیلی ویژن چینلوں کے کروڑوں ناظرین نے خود دیکھا۔ کچھ مناظر کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
وزیراعلیٰ کے حکم پر پولیس نے آپریشن کی منصوبہ بندی کی اور جمعہ کو بکتر بند گاڑی سے اسمبلی میں داخلہ کے مرکزی دروازے کو توڑا گیا۔ جس وقت پولیس کی بکتر بند گاڑی سے توڑا جارہا تھا کارکنوں کے ساتھ دو تین ارکان اسمبلی بھی گیٹ کے سامنے موجود تھے جو زخمی ہوئے۔ اسمبلی کا احاطہ میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے دو تین فائر کئے۔ لاٹھی چارج کیا۔ 3ارکان اسمبلی سمیت 21 کارکن زخمی ہوئے۔ احتجاجی کارکنوں اور پولیس کے درمیان ایک دوسرے پر گملے اچھالنے کا مقابلہ بھی خوب رہا۔
پولیس نے صوبائی اسمبلی کے احاطے کو فتح کرکے اپوزیشن کے لگائے تالے توڑے۔ اس دوران وزیراعلیٰ جام کمال پولیس اور درجن بھر سادہ پوشوں کے حصار میں اسمبلی پہنچے۔
حیران کن بات ہے کہ سادہ پوشوں نے وکلاء کے لئے مخصوص لباس زیب تن کررکھا تھا۔ وزیراعلیٰ کی آمد کے ساتھ ہی ایک بار پھر پولیس اور اپوزیشن کے حامیوں میں جھڑپ شروع ہوگئی۔ وزیراعلیٰ پر گملے اچھالنے کے ساتھ جوتے بھی پھینکے گئے۔
اپوزیشن نے اپنے احتجاج کا دائرہ صوبے بھر میں پھیلانے کا اعلان کردیا ہے۔ سرکاری ترجمان لیاقت شاہوانی کہتے ہیں ’’اپوزیشن والے پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں انہیں کیا پتہ بجٹ کیا ہوتا ہے‘‘۔
ایک سرکاری ترجمان کو یہی کہنا زیب دیتا ہے۔
بلوچستان ہائیکورٹ نے اسمبلی میں اپوزیشن کی تالہ بندی کو نادرست قرار دیتے ہوئے ایوان تک جانے کے راستے کھولنے کا حکم دیا تھا مگر راستے نہ کھل سکے۔
بجٹ اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے وزیراعلیٰ کے حکم پر جو آپریشن ہوا اس سے اجلاس تو منعقد ہوگیا لیکن تلخی مزید بڑھ گئی۔
جلتی پر تیل کا کام لیاقت شاہوانی کے بیان نے کیا۔
متحدہ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ اب وزیراعلیٰ سے سڑکوں پر بات ہوگی اور ان کے ’’ملازم‘‘(وہ حکومتی ترجمانی کو وزیراعلیٰ کا ذاتی ملازم قرار دے رہے ہیں) سے بھی۔
چند دن قبل قومی اسمبلی میں 3روزہ کھڑاک کے دوران جو کچھ کہا بولا اچھالا گیا وہ ہی کیا کم تھا، بلوچستان اسمبلی کے احاطے میں جو ہوا اس سے دو قدم آگے اس لئے ہے کہ نچلے درجہ کے پولیس افسران اپوزیشن رہنمائوں کو گالیاں دیتے دیکھائی و سنائی دیئے۔
پولیس تقسیم شدہ برصغیر کے کسی بھی ملک کی ہو، حکومت وقت کی وفاداری میں کہاں تک جاسکتی ہے اس کا حساب اور اندازہ سبھی کو ہے۔
اس سارے معاملے میں اہم ترین بات وزیراعلیٰ کا رویہ ہے جو کبھی بھی قابل ستائش نہیں رہا۔ ان کا رویہ مدبرانہ ہوتا تو نوبت یقیناً یہاں تک نہ پہنچتی اور جمعہ کو انہیں بھی گملوں اور جوتوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ جو معاملہ وزراء کی کمیٹی سنبھال سکتی تھی اسے پولیس کے ذریعے کچلنے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ بی این پی مینگل کے رکن اسمبلی احمد نواز پولیس تشدد سے زخمی ہوئے۔
اسمبلی کے احاطہ میں پولیس اور اپوزیشن میں جنگ کے دوران ایوان کے اندر بجٹ پیش کردیا گیا۔ 84.7ارب کے خسارے والے اس بجٹ کا عمومی حجم 584ارب روپے ہے۔ پنشن، تنخواہوں میں 10فیصد اٗضافے کااعلان کیا گیا ہے۔
جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے احاطے میں جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اختلافات کو ختم کرانے کے لئے سیاسی راستہ اپنایا جاتا۔
پولیس کے ذریعے وزیراعلیٰ نے ایوان تک رسائی تو حاصل کرلی لیکن حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات وسیع ہوگئے۔
حکومتی زعما اپوزیشن ارکان کو ان پڑھ اور اپوزیشن والے حکومت کو کسی وائسرائے کی ٹائون کمیٹی قرار دے رہے ہیں۔
زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ذمہ داران معاملے کو مزید بگاڑنے کی بجائے مل بیٹھیں اور مسائل کا حل تلاش کریں۔ وزیراعلیٰ خود کو ایوان کا جوابدہ سمجھیں، نامزد وائسرائے نہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر