حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قومی اسمبلی میں تین دن کے ملاکھڑوں کے بعد چوتھے روز ایوان کی کارروائی پرسکون انداز میں چلی ۔ حکومت اپوزیشن میں سیز فائر اسپیکر کی کوششوں سے ہوا لیکن اس میں عوامی ردعمل کو یکسر نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں۔پہلے اور دوسرے روز کے ہنگاموں پر گلی محلوں اور تھڑوں پر جو تبصرے ہوئے وہ کسی طرح ارکان اسمبلی تک پہنچائے جا سکتے تو یہ ان کی اصلاح کے کام آتے ۔
لوگ کہتے ہیں ہم نے نمائندے قانون سازی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے منتخب کئے تھے بچوں کی طرح لڑنے جھگڑنے کے لئے نہیں
البتہ ایوان کے باہر وہی صورتحال ہے تندو تیز بیانات الزامات کی تکرار جاری ہے میں امین تم خائن چور ‘ لٹیرے ڈاکو ‘لائے ہوئے بے شناخت لوگ ‘ ادھرحکومتی اتحاد کی پارلیمان کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ارکان پہلے آپس میں الجھے اور پھر اتحادیوں کوطعنے دینے لگے خوب گرما گرمی ہوئی ایک دوسرے کو جلی کٹی سنائی گئیں۔ پھر بیچ بچائو کروایا گیا ۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ کو غریبوں کے ساتھ مذاق قرار دیتے ہوئے کہا اشیائے خورد و نوش پر ٹیکس ختم کیا جائے ان کی بات قدرے درست ہے فلور ملوں پر ٹیکسوں میں اضافے سے بیس کلو آٹے کا تھیلہ پانچ جولائی سے 90 روپے مہنگا ہو جائے گا ۔
بجٹ کے ساتھ ہی بازاروں میں مختلف ا شیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ادھر سندھ کے محاذ پر گرما گرمی ہے مستقل بنیادوں پر چند وفاقی وزراء روزانہ سندھ پر گرجتے برستے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس میں ان قائدین ‘ وفاقی وزراء اور ایک "بڑے صاحب” کی کھل کر کلاس لی اعداد و شمار اور کچھ دیگر امور سامنے رکھ کر سوالات. بھی کئے ۔
شاہ جی تسلی رکھیں جواب کی بجائے ا لزامات ملیں گے ۔ سیاسی مخالف تو غیر سیاسی مخالف ہوتے ہیں وہ صرف اپنی بات کہتے ہیں دوسرے کی نہیں سنتے ایک بڑے صاحب سندھ پر کیوں برسے اور پھر سندھ میں جو جوابی غزلیں گائی گئیں اس سے یہی لگا کہ دو دشمن ملک ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔
اس ساری صورتحال کے بیچوں بیچ الیکشن کمیشن اور حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور چند دوسرے امور پر آمنے سامنے ہیں۔
گزشتہ روز اسٹاک مارکیٹ میں مندی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے 38 ارب 76 کروڑ روپے ڈوب گئے انڈیکس پوائنٹس کی تین حدیں گر گئیں یہ افراتفری آئی ایم ایف کے بعض امور پر دبائو ملکی حالات اور دیگر وجوہات سے پیدا ہوئی۔
اسٹاک مارکیٹ کی اونچ نیچ کو سمجھنے والے ایک دوست نے بتایا کہ سب سے زیادہ اثر اس خبر سے پڑا جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ذرائع ابلاغ خبروں کی اشاعت کی پالیسی کو ریویو کرلیں تو مناسب ہو گا۔
گزشتہ روز ہی قومی بچت کی سکیموں میں سرمایہ کاری کے منافع میں جو”تاریخ ساز” اضافہ کیا گیا اس پر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بزرگ پنشنر نے لکھا
”حکومت نے تو حاتم کی قبر پر لات ہی مار دی ۔ مردوں سے مذاق اچھا نہیں ہو گا”۔
ان کی بات درست ہے جب منافع کم کیا گیا تھا تو یہ روپے میں تھا اضافہ پیسوں میں ہے ۔ مناسب یہی ہوتا کہ حکومت قومی بچت میں سرمایہ کاری کرنے والے پنشنروں ‘ بزرگوں اور بیوائوں کے لئے منافع کی شرح میں معقول اضافہ کرتی۔
اطلاع یہ ہے کہ جمعرات کو ہونے والے ایک اجلاس میں نیشنل الیکٹرک سٹی پالیسی پر مزید غور کے لئے خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ۔
ہماری دانست میں یہ مناسب فیصلہ ہے ۔
بڑے دنوں کے بعد ایک اچھی خبر یہ ہے کہ دریائی پانی کی تقسیم پر پیدا ہوئے حالیہ تنازع کے بعد اب سندھ اور پنجاب نے مل بیٹھ کر اختلافی امور طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے سندھ کا کہنا ہے کہ ہماری شکایات پنجاب حکومت سے نہیں بلکہ ”ارسا” سے ہیں پانی کی تقسیم کے اس ادارے کے بعض افسران فرعون بنے ہوئے ہیں اور یہ کہ وہ زراعت کی الف بے سے بھی واقف نہیں۔
چلیں چھوڑیں آئیں سندھ چلتے ہیں جہاں جمعرات کو پی ڈی ایم میں شامل جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کی سندھ شاخ نے صوبائی حکومت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے ۔
اس تحریک کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلے دن وفاقی حکومت کے اتحادی سندھ کے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کے لوگوں نے بھی شرکت کی۔
صوفی مزاج سندھ کی لگ بھگ تیس برسوں سے جس طرح سماجی بیخ کنی کی جارہی ہے اس میں جے یو آئی (ف) اور اس کی ہم خیال تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے ۔
جے یو آئی اور اس کے مراکز کی سندھ میں سرگرمیوں سے سندھ کا روشن فکر صوفی سیکولر چہرہ مسخ ہو رہا ہے ۔
جے یو آئی سندھ میں روز اول سے ہی پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کی اتحادی ہے کئی الیکشن مل کر لڑے مہینہ بھر قبل بھی جی ڈی اے سے بدین میں مل کر الیکشن لڑا گیا۔
خیر یہ الگ قصہ ہے فی الوقت تو یہ ہے کہ احتجاجی تحریک تو وفاقی حکومت کے خلاف چلانی تھی یہ جی ڈی اے کے اشتراک سے سندھ حکومت کے خلاف کیوں شروع ہو گئی؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر