مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواب کی تعبیر||گلزار احمد

۔ سب سے پہلے میں PTI گورنمنٹ کو دامان کے غریب اور پسماندہ علاقے کی اہمیت سمجھنے اور یہ منصوبہ منظور کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ سب سے پہلے میں PTI گورنمنٹ کو دامان کے غریب اور پسماندہ علاقے کی اہمیت سمجھنے اور یہ منصوبہ منظور کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
چونکہ 73 سال کی سابقہ حکومتوں کی رود کوہی نظام اور گومل زام پر بے توجہی کی وجہ سے دل مایوسی کا شکار تھا اس وجہ سے میں نے کچھ عرصہ پہلے۔۔
شیخ چلی کے خواب ۔۔ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جو آج مجھے بہت یاد آیا ۔اس وقت میں نے لکھا تھا کہ
”میری بچپن سے عادت ہے میں شیخ چلی کی طرح خواب دیکھتا ہوں ۔ہو سکتا ہے پرانے زمانے شیخ چلی ہمارے آبا اجداد کا پڑوسی رہا ہو۔ آج میرے خواب کی کہاتی یہ ہے۔
جب ہم دامان کے علاقے کے لوگوں کا رہن سہن دیکھتے ہیں اور جن مشکلات میں وہ زندگی گزار رھے ہیں اس کا اندازہ لگاتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ھے۔72 سالوں میں ہم نے اس علاقے کے لیے کیا کیا؟ ایک ایسا علاقہ جو پورے پاکستان کے اناج اور سبزی فروٹ کا ضامن بن سکتا ھے۔ اس کو مسلسل نظر انداز کر کے ہم ایک حریف ملک ہندوستان سے آلو ٹماٹر منگواتے رھے لیکن اپنے ملک سے سونا اگلنے والی مٹی کو بھلا دیا۔آپ دامان کا علاقہ چینیوں کو ایک سال کے لیے ٹھیکے پر دے دیں چھ ماہ کے اندر لہلہاتی فصلیں نظر آنے لگیں گی۔۔ دامان جس میں ہر قسم کے وسائل موجود ہیں کو ترقی دینے کی بجاے ہم نے وہاں کے لوگوں کو نان شبینہ کا محتاج کر دیا اور پاکستان کو مقروض بنا دیا۔ آج میں ایک پرانی رپورٹ پڑھ رہا تھا جو سابق صوبائی وزیر سردار امین اللہ خان گنڈہ پور کی طرف سے رودکوہی سسٹم کو بہتر بنانے سے متعلق تھی جس کو وقت کی مختلف حکومتوں نے سرد خانے میں ڈال دیا۔ یہ رپورٹ رودکوہی پر چیک ڈیم یا delay ڈیم بنانے کی تجویز پیش کرتی ھے جو دامان کے حالات کے لیے بہترین منصوبہ ھے۔اس رپورٹ کے مطابق سیلاب کے راستے پر ایک دیوار یا گائیڈ بند بنا دیا جاتا ھے اور اس کے ساتھ سیلاب کا پانی جمع کیا جاتا۔ رود کوہی کا پانی مسلسل نہیں بہتا بلکہ زیادہ سے زیادہ بارہ سے چوبیس گھنٹے کے بعد ختم ہو جاتا ھے۔اب اگر یہ پانی ایک گائیڈ بند کے ذریعے روک دیا جاے اور پھر ہر زمیندار کے حصے کے مطابق آہستہ آہستہ چھوڑا جاے تو یہ سارا پانی کھیتوں میں فصلیں اگانے کے استعمال میں لایا جا سکتا ھے۔ اسی طرح کے گائیڈ بند ہر گاوں کو انکے رواجات اور حصے کے مطابق سیراب کرتے جائیں گے اور ایک بوند پانی دریا میں ضائع نہیں ہو گا۔مجھے سمجھ نہیں آتی پاکستان میں پانی کی قلت قحط کی شکل اختیار کرتی جا رہی ھے اور قوم سو رہی ھے جو پانی اللہ کی نعمت کے طور پر میسر ھے وہ دریا میں پھینک کر ضائیع کیا جا رہا ھے۔ ہندوستان کےمشرقی پنجاب کے سکھوں نے کھیتوں میں پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے تمام کھیتوں میں پایپ لائیننگ کر رکھی نہ پانی سورج کی گرمی سے اڑتا ھے نہ کھیت کی ضرورت سے زیادہ استعمال ہوتا ھے۔ اب
drip irrigation system
تیزی سے استعمال ہو رہا ھے جس کے ذریعے فصل کے پودے کو صرف اتنا پانی دیا جاتا ھے جو اس کی نشو نما کے لیے ضروری ہوتا ۔زمین میں جذب ہونے کے لیے ایک بوند زیادہ پانی نہیں دیا جاتا۔ دیکھا جاے تو پاکستانی دنیا کے ذھین ترین لوگوں میں تیسرے نمبر پر ہیں مگر عملی کام میں صفر کیوں؟۔۔۔ہمیں ٹانگے کو تبدیل کرنے کے لیے بھی چین سے چنگچی درآمد کرنی پڑی ۔چونکہ وہ لوکل ضرورت اور سڑکوں کے مطابق نہیں ڈیزائین ہوئی اب عذاب بنی ہوئی ھے۔ یار رودکوہی سسٹم سیکڑوں سال کے تجربات اور ذھانت کا نچوڑ ھے اس کو ہم کیوں بہتر نہیں بنا سکتے۔اس وقت ہر صوبے کا بجٹ بن رہا ھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے جتنے بھی صوبائی اسمبلی میں نمائندے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح دامان سے تعلق رکھتے ہیں ۔رودکوہی کے سسٹم سے آشنا ہیں۔بہت معمولی بجٹ سے دامان کو پورے پاکستان کے لیے جنت نظیر بنایا جا سکتا ھے۔یار سوچو اگر پاکستان زرعی طور پر خود کفیل ہو جاے تو ہماری آذادی مستحکم ہو جاے گی۔ہمارا کاسہ گدائی ٹوٹ جاے گا اور یاد رکھو دامان کی زرخیز زمینیں آپ کے انتظار میں ہیں۔ملک کی مضبوطی اسی میں ھے دامان کی زراعت سائینسی بنیادوں پر استوار کرو۔ مجھے یہ بھی پتہ ھے ہمارے دامان کے زمیندار ذاتی مفاد کی خاطر چیک ڈیم بنانے پر ہر گز متفق نہیں ہونگے۔نیچے والا زمیندار سوچے گا پانی تو اوپر والوں نے روک لیا میرا حصہ کدھر گیا؟ میرا خیال ھے اس کاحل بھی موجود ھے آسان ترین حل یہ ھے کہ گائیڈ بند کی دیواریں رودکوہی کے پانی کے آخری سرے یعنی دریا کے قریب سے تعمیر شروع کریں۔ کیونکہ یہاں سے پانی دریا میں چلا جاتا ھے تو اعتراض ختم کیونکہ مقصد تو پانی کو ضائیع ہونے سے روکنا ھے۔ تو سب سے نیچے والا بند نمبر ایک اور پھر اس کے اوپر نمبر دو اور پھر اس کے اوپر ایک سیریز بنا دیں۔ ہر بند کے قریب کے زمینداروں کے حقوق متعین ہیں وہ استعمال کرے گا باقی پانی نیچے چلا جاے گا۔ حکومت سختی سے خود نگرانی کرے اور ایک وقت ایسا آے گا کہ زمینوں کی ضرورت سے زیادہ پانی دستیاب ہو گا۔باقی silt کی صفائی کا کام ہر بند کے قریب کے زمینداروں کے ذمے سالانہ بھل صفائی مہم کے تحت کروائیں۔جب زمیندار خوشحال ہو گا تو وہ جدید مشینری خرید کر خود صفائی کرے گا تاکہ پانی کی زیادہ مقدار لے سکے۔یہ بھی ممکن ھے کہ یہ مٹی کھاد کے طور پر دوسرے زمیندار ٹرکوں میں بھر کر لے جائیں اور آپکو صفائی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ہر کام میں اللہ اس وقت برکت ڈال دیتا ھے جب آپ ابتدا کرتے ہیں۔۔
یہاں آ کر میری نیند اکھڑ جاتی ہے اور خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ خواب کوئ حقیقت تو نہیں ہوتا۔“

%d bloggers like this: