اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشلزم کہلاتی محبت کے نام….(3)||ملک رزاق شاہد

پیسہ ٹیکنالوجی والے ایسی سٹریجک بندرگاہ تو خدا سے مانگتے تھے، برادر ممالک کو بھی گوادر گود میں لینے کی بچگانہ خواہش ہوئی. یوں گوادر کتے چوہے خوروں کی جبلت کا شکار ہوا.

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک لکھا تھا کہ ڈاکٹر شائستہ نے
"جینی کے خطوط” چومتے ہوئے سامنے رکھی..
ہائے… وفا کی علامت،
پیار و محبت کا استعارہ،
دنیا کی عورتوں میں سربلند نام…
مارکس کے زوجہ جینی… .
اپنے وقت کی شہزادی،
جرمنی کے رئیس گھرانے کی فرد..
جس کو مارکس دل دے بیٹھا اور پھر جینی نے بھی اپنا سب کچھ مارکس پر وار دیا..
چلیں جینی کے خطوط کو پلٹتے ہیں.
شاہ محمد پیش لفظ میں لکھتے ہیں.
"دکھ ہمیں فولاد بناتا ہے اور پیار ہمیں زندہ رکھتا ہے” جینی کے قول سے شروع ہونے والی اس کتاب کا تعارف شاہ محمد یوں کراتے ہیں
"جینی مارکس کے خطوط ماؤں کے لئے ٹریننگ مینوئل بھی ہیں اور انقلابی عورت کے لئے گائیڈ لائن بھی…
دوستیاں کس طرح نبھائی جاتی ہیں،
انسان دوستی کیسے کی جاتی ہے، نظریہ پہ کیسے اٹل رہا جاتا ہے،
اپنی ذات قربان کر کے دوسروں کی صلاحیتیں فروغ کیسے دی جاتی ہیں،
غربت کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے،
دکھوں کا سامنا کرنا کیسا ہوتا ہے،
معمولی سی انقلابی فتوحات پہ جشن کیسے منایا جاتا ہے…
ایک بھر پور انسان کی بھر پور سرگزشت…
مگر ان میں کوئی حکم تحکم نہیں کوئی برتری نہیں
. یک طرفہ لیکچر بازی نہیں، رونا دھونا نہیں خود نمائی اور زخم نمائی نہیں …..
ایک فطری انسان کا بلا تصنع ابلاغ… ایک مکمل انقلابی انسان کی انسانی آرزوؤں، آدرشوں آپ بیتیوں پر مشتمل خطوط… "
چلیں اب شاہ محمد کی "سورج کے شہر” کا ابتدائیہ پڑھتے ہیں اور آپ سے آج کی نشست سے اجازت لیتے ہیں.
"کسی قوم کے خلاف سب سے بڑی بددعا یہ ہو گی کہ اس کی تاریخ اس سے کھو جائے گم کردہ تاریخ والی قوم کی دعائیں بے اثر، اشجار بے ثمر، اذہان بے خبر اور سارے اعمال باجبر ہوتے ہیں. بے تاریخ، لامحالہ بے جغرافیہ بھی بن جاتی ہے… ہم نیم درجن ممالک میں بکھرے بلوچ نہ تو اپنی تاریخ مکمل طور پر جانتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنی جغرافیائی وسعتوں کا ادراک و احساس ہے. مطالعہ اور مسافری، تاریخ کی گہرائی اور جغرافیائی گیرائی جاننے کے بہترین ذرائع ہیں. میں نے مکران نہیں دیکھا تھا. میں نے جغرافیہ نہیں دیکھا تھا. "
"انسانی قدرت اور رسائی سے ماورا بلوچستان کا حسن انسان کے ہاتھ کا بنایا ہوا تو پہلے ہی نہ تھا، مگر جو کچھ قدرت نے اس باب میں اسے عطا کیا تھا، بگڑ گیا. انصاف، صداقت، بھائی چارہ، ماحول دوستی سب برباد…. اور پھر مشرف کو گوادر بیچ ڈالنے کا خیال آیا. پیسہ ٹیکنالوجی والے ایسی سٹریجک بندرگاہ تو خدا سے مانگتے تھے، برادر ممالک کو بھی گوادر گود میں لینے کی بچگانہ خواہش ہوئی. یوں گوادر کتے چوہے خوروں کی جبلت کا شکار ہوا. اسے چھابڑی میں رکھے مُنگ پھلی کی طرح پہلے آسٹریلیا کو فروخت کیا گیا، نہ چلا تو چین کی گردن بُر سرمایہ داری کے حوالے ہوا. نہ بولی لگی نہ ٹینڈر کھلے بس مشرقی میدانوں کی ترقی کے تاوان میں گوادر کو لونڈی بنا دیا گیا.
یا ہم ناپڑھ ناپوہ ناسمجھ لوگ ہیں یا پھر خریدار احمق ہیں، احمقوں سے بھی احمق. کسی نے گوادر کے کیکڑے اور ان کی کاٹ نہیں دیکھی. ارے بابا گوادر کو گوادریوں کے لئے ڈویلیپ کرنا اور بات ہے مگر اسے فروخت کرنے کے لئے سنوارنا اور بات ہے. یہاں تو گوادر کو اپنے دولہے کے لئے نہیں بلکہ "اُس” بازار کے لئے سجایا، سنوارا اور سنگھارا جا رہا ہے. اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رام کو کیا کیا جتن کرنے ہوں گے، سیتا کو کیا کیا سہنا پڑے گا اور خود راون کا کیا انجام ہو گا.
لگتا ہے گوادر کا اغوا سب باتوں پر بھاری رہے گا "
ابھی تو شاہ محمد سے
سی آر اسلم کی جدوجہد کے قصے سننے ہیں،
ابھی تو "موہنجوداڑو کے جوگی” کی بات رہتی ہے،
ابھی تو ” بلوچی ادب” سے پھول چُننے ہیں،
ابھی تو
"جھوک فقیر” کے
"گنجِ شہیداں” کی زیارت کرنی ہے
” چھوٹی سی کتاب کی دیوانی” سے ملنا ہے،
"چے” کی جنگ کا احوال اور انقلاب کی خاطر فولاد بنے "ہوچی منہہ'” کے سلام کو جانا ہے….
اور آخر میں……
سرمائے کے دلالوں، انسانیت کے قاتلوں کی نیندیں حرام کرنے والے "بوڑھے مور” کی محفل میں بیٹھنا ہے …
جاری ہے۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: