اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشلزم کہلاتی محبت کے نام….(2)||ملک رزاق شاہد

انقلابی روحیں تو سرکاری جغرافیائی حدود سے بالاتر ہوتی ہیں اس لئے آگے چل کر ہمیں "تھامس پین" کی محفل میں پہنچا دیتا ہے.

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” توکلی مست کا زمانہ وہ ہے جہاں اس کے قبیلے پر انگریز کی عملداری بہت ڈھیلی ڈھالی ہے۔ 1839 کی جنگ کے وقت وہ کم سن تھا۔ اور بعد میں اس کی زندگی میں(اور اس کی موجودگی میں) کوئی بہت بڑی جنگ ہوئی نہیں ۔سرداری بھی اس قدر مضبوط نہ تھی۔ اسے تو بعد میں سنڈیمن نے آبِ حیات پلانا تھا۔ ذرائع پیداوار وہی مویشی بانی تھے۔ ایک ڈھیلا ڈھالا، قدیم کمیونسٹ سماج سے حال ہی میں نکلا باشرف بلوچ سماج، جہاں قبائلی اخلاقی کوڈوز کی پاس داری ہوتی تھی۔ ہر لحاظ سے انیسویں صدی کے وسط کا بلوچستان جہاں کوئی بڑی سماجی تحریک نہیں، معاشی اتھل پتھل نہیں۔ فطرت بھی خاموش ۔۔۔۔۔ایک آدھ برس قحط کی پیدا کردہ ہِل جُل کے علاوہ مکمل خاموشی۔
ایسے میں مست توکلی منظر پہ ابھر آتا ہے۔ ایک محب، ایک سیلانی، ایک ان پڑھ، ایک مفکر، ایک فلسفی، اور ایک شاعر کی حیثیت سے وہ اس خفتہ سماج میں ارتعاش و جنبش کے ایسے بیج بو دیتا ہے جن کی زود افزائش کے تو کوئی امکان نہیں تھے، البتہ بہت دیر پا اور مستقل اثرات کی پیشگوئی حتمی تھی۔
مستیں توکلی دو سو برس قبل کے بلوچستان میں آج کا دانشور تھا. ایسا معاشرہ جو خود کفالت کی مرگ آور خاموشی میں مبتلا نہ تھا۔ غربت بہت تھی۔ کھیتی باڑی اور مویشی بانی پورا سال پیٹ بھرنے کو ناکافی تھی۔ ان ناکافی پن سے نمٹنے کی خاطر قبائل ایک دوسرے پر حملے کر کے مال غنیمت سے حاصل شدہ کو بارہ ماہ کے بقیہ دو چار ماہ اپنے گزارہ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مست توکلی اسی تلخ قبائلی کشت و خون پہ مشتمل جنگوں میں تلوار ڈھال کے ساتھ حاضر رہا ۔ اور پھر جب باشعور ہوا تو انہی قبائلی جنگوں کے خلاف بہت توانائی سے بولتا رہا ۔”
انسانی جسم کا علاج ڈھوندنے والا ڈاکٹر شاہ محمد مری انسانی روح کے کرب و درد کا درماں لئے آج گلی گلی نگر نگر مسیحائی کی جوت جگائے چلا جا رہا ہے….
” عشاق کے قافلے” کا راہی ساحر کے اشعار سے تھکنے والوں کا دم بھرتا ہے… پھر ساحر کی مرتب کردہ شاعری سے سستانے والوں کو نوید دیتا ہے.
"کانپ رہے ہیں ظالم سلطاں، ٹوٹ گئے دل جبّاروں کے،
بھاگ رہے ہیں ظلِ الہی، منہ اترے ہیں غداروں کے،
ایک نیا سورج چمکا ہے، ایک انوکھی ضُو طاری ہے،
ختم ہوئی افراد کی شاہی، اب جمہور کی باری ہے.”
مایوس اور تھک جانے والے راہی کو جب
"پری ہسٹاریکل بلوچستان” کے باب سناتا ہے تو اداس چہروں پر حیرت اور خوشی در آتی ہے….
شاہ محمد لکھتا ہے.
” آج کا "مشرقی بلوچستان” 144 ملین سال قبل قطب جنوبی سے شمال کی طرف کھسکنے لگا تھا۔ وہ پلیٹ 50 ملین سال تک سفر وصال کی صعوبتیں جھیلتا اور بغیر سستائے یا آنکھ جھپکے بالآخر اپنے soul mate یعنی، "مغربی بلوچستان”سے آن بغل گیر ہو گیا۔ اور یوں دس کروڑ برس قبل گریٹر بلوچستان کی تشکیل ہو گئی تھی” ۔
” صرف بلوچ نہیں بلکہ پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی، ازبک، ترکمن، سارا خطہ از سرِ نو اپنی تاریخ لکھنے پر مجبور ہوگا۔ "پرستی” کا دُم رکھنے والے سارے الفاظ اپنے معنی بدل دیں گے۔ میں ان سب قوموں کے بہی کھاتے انہی کے محققوں، مورخوں کے لئے چھوڑتے ہوئے صرف اپنے حصے کا کام کرتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اس زمانے کی بلوچ تاریخ کے بارے میں اپنے ہی لکھی تختی کو ڈسٹر کے حوالے کرلیا ۔
تصور کیجئے کہ پوری سویلائزیشن کا ارتقاء یہی ہمارے وطن میں تکمیل پذیر ہوتا رہا ہو، اور ہم بے خبر ، درزادہ و نقیب کی فرسودہ بحثوں میں الجھے رہے ۔ ہم جو ابھی تک بھی قبائل اور قبائل کی ذیلی شاخوں کی آمدورفت کی بحثوں میں غلطاں ہیں ۔اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ہم تو کل کائنات کے خالق خطے کے مالک لوگ ہیں تو تاریخ ہمارے عہد کے دانشور کو کتنا چھوٹا کہے گی۔ جی ہاں ،اگر ثابت ہو جائے کہ معمولی چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک اور ہاتھی سے لے کر انسان تک سب کی پیدائش و ارتقا کا ایک بڑا گہوارہ ہمارا بلوچستان بھی ہے، تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنی بڑی ذمہ داری آئےگی بلوچ دانشور پر بلوچستان کے سائنسدانوں پر؟ سوچتا ہوں کہ کاش اگر ڈارون اپنی کتاب کی بنیاد بلوچستان کو بنا لیتا تو اسے اس قدر مخالفتوں اور بحثوں میں الجھنا نہیں پڑتا، اور دوسرا ہم بلوچ دانشوروں پر کام کا اتنا بڑا بوجھ نہیں پڑتا۔ اب برسہا برس درکار ہیں بلوچستان کی یہ تاریخ مرتب کرنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ ہونا بڑا چیلنج ہے۔
بلوچ ہونا بڑا چیلنج اسی لیے ہے کہ اس کا ماضی بہت درخشاں رہا ہے۔ آباؤ اجداد نے سٹینڈرز بہت بلند سیٹ کیے ہیں اس لیے ان سٹینڈرڈز پر پورا اترنے کے لیے جنون چاہیے، عشق چاہیے، اور بہت ہی بلند ذہنی شعور کی سطح چاہئیے ۔اور جب ذمہ داری بڑھ جاتی ہے تو آٹومیٹک انداز میں چھوٹا پن گم ہو جاتا ہے۔ چوٹی بات کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور اسی لئے، آج بلوچ ہونے اور کائناتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے شاؤنزم کے جراثیم کو سائنسی نقطہ نظر کے سپرے سے مار دینا لازمی ہو جاتا ہے”
ماوند میں ساٹھ سال قبل آنکھ کھولنے والی اس مضطرب روح نے ساٹھ سے زیادہ کتابیں لکھ لی ہیں کہتا ہے پیار کی راہ میں انقلاب کی چاہ تھکنا گناہ ہے…
انقلابی روحیں تو سرکاری جغرافیائی حدود سے بالاتر ہوتی ہیں اس لئے آگے چل کر ہمیں "تھامس پین” کی محفل میں پہنچا دیتا ہے.
امید کے درخت کو پانی دیتے رہنے والوں کے نام
” تھامس پین” کی کتاب
” کامن سینس”
کے پیش لفظ میں شاہ محمد مری لکھتا ہے.
"”تاریخ کو جج ٹھہرانے والے احباب بالخصوص نوجوانوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ تاریخ ہمیشہ انصاف نہیں کرتی. اس سے کبھی کبھی برباد کر ڈالنے والی بے انصافیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں. بالخصوص کمزور فرد، گروہ، طبقات اور اقوام کے ساتھ اس نے بہت کم خیز کا کام کیا. بلاشبہ محترم بنا دینا، نظر انداز کر دینا، یا حقیر قرار دینا تاریخ ہی کے فرائض ہیں. اور اس کے لئے اس کے پاس معیارات اور پیرامیٹرز بھی موجود ہیں مگر پھر بھی بس کچھ ہو جاتا ہے کہ جب کبھی بات زیردست کی آتی ہے تو تاریخ کی آنکھ میں کُکُرے پڑ جاتے ہیں…. بڑے بڑے اور برباد کر دینے والے ککرے اور ہم جیسے للی پُٹ لوگ تاریخ جیسی بڑی قوت کی ایسی کوتاہیوں کی ٹیڑھ کبھی نہیں نکال پاتے کہ بالادست کی بات بہت دیرپا رہتی ہے حاکم، تاریخ کے اپنے بیانیے کو دیرپا رکھنے کے ہزار وسیلے ایجاد کرتا رہتا ہے.
جب آپ تھامس پین کی زندگی اور تعلیمات کے بارے میں پڑھیں تو آپ کو تاریخ کی اس فاش ناانصافی کا بھر پور احساس ہو گا ہمہ وقت دشمن کے مورچوں کے اندر چوکڑیاں بھرتے اس لڑاکو سے متعلق تاریخ نے تقریباً مکمل نظر اندازی، حتمی خموشی اور مطلق بے پرواہی روا رکھی… ایک لامتناہی اندھی ناانصافی. آپ بس تلملا کر رہ جاتے ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے اور آ کر کہیں بھی تو کس سے؟ ول ڈیورانٹ سے برٹرینڈرسل سے، مارکس سے…؟ نہ ناں….
لہزا آئیے ہم اپنے حصے اور جُثے کا انصاف کر ڈالتے ہیں…
تاریخ بڑا تھیریم ہے اس کا کفارہ کوئی بڑا شخص ہی ادا کرے.
تھامس پین محض آزادی انصاف کے مورچے کا جری اور جانباز سپاہی نہ تھا وہ تو انتہائی تاثیر رکھنے والی تحریک کا مالک بھی تھا اس نے بہت لکھا غلامی اور غریبوں کے لئے بہت کچھ لکھا… امریکہ کی جنگ آزادی کو اس کے سپلائی کردہ آکسیجن کے صرف ایک کتابچے
"کامن سینس” کے مصنف کے قلم کے بغیر جارج واشنگٹن کی تلوار بس یونہی ہوا میں لہراتی رہتی "
اس فکر کے نام جو یوسفی زمانے اور اکیسویں صدی کے درمیان پُل کا کام دے رہی ہے”
” عشاق کے قافلے” کا
میر یوسف عزیز مگسی سے ملتے ہیں.
ڈاکٹر مری لکھتا ہے
"کم معلومات دیوتا سازی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہیں ہم نے اس کی زندگی، فکر اور جدوجہد کے بارے میں مفصل معلومات دے کر اسے دیوتا بنانے والوں کی راہ روک دی. اب اگر وہ اپنے مزموم مقاصد کے لئے ایک نئے طرز سے اس کا نام استعمال کرنے کا سوچیں گے تو یقیناً قلم کار ان کی راہ بھی روک دے گا… بدی، نیکی کی جنت وقتی نہیں ہوتی. "
یوسف عزیز مگسی بلا لحاظ قوم و مزہب، مظلوموں کی طرفداری کرنے والا ہم سب کا نظریاتی مرشد ہے، میں نے مقابلے کی بہت کوشش کی، بہت سر کھپایا، قلم گھسیٹا مگر جو خطاب اسے عبدالصمد خان نے دیا تھا اس سے بڑا میں تلاش نہیں کر سکا. اس نے مگسی صاحب کو مادر وطن کا بہترین فرزند کہا تھا.
یہ محض سیاسی لوگ نہ تھے بلکہ ایسے سماجی کارکن بھی تھے جو انسانوں کے لئے ایک بہتر اور پر امن زندگی کا قیام چاہتے تھے. ان میں سے اکثر اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں سوشلسٹ بن گئے یا سوشلزم سے تعلق میں ا گئے تھے. یہ پڑھے لکھے لوگ کسی نہ کسی حد تک اقبال، ظفر علی خان اور محمد علی جوہر کے ہم عصر تھے ان لوگوں میں تحریر اور طرزِ تکلم میں اچھی خاصی یگانگت دیکھنے میں آتی ہے. یہ لوگ ایک دوسرے سے اثر لیتے رہے ایک دوسرے کو متاثر کرتے رہے… مولانا ظفر علی خان ہی ہے ہی تو یوسف عزیز کے بارے میں کہا تھا.
تم کو خفی عزیز ہے، ہم کو جلی عزیز ہے،
عارض کا گل تمہیں ہمیں دل کی کلی عزیز ہے،
لفظِ بلوچ مہر و وفا کو کلام ہے،
معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز.
(جاری ہے)
جاری ہے۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: